’شائننگ انڈیا‘ میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی

خرم علی راؤ  ہفتہ 2 مئ 2020
اس وحشت اور درندگی، نفرت اور تشدد سے بھرے اقدامات کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ (فوٹو: فائل)

اس وحشت اور درندگی، نفرت اور تشدد سے بھرے اقدامات کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ (فوٹو: فائل)

یار یہ کیسی نفرت ہے جو ختم ہونے کا نام لینا تو درکنار روز بروز بڑھتی ہی نظر آرہی ہے۔ بس ایک قوم ہے جو نشانے پر ہے اور ہر طرح کے ظلم و ستم اس قوم پر کیے جارہے ہیں۔ چھوٹے بڑے کاروبار، جو کسی عام آدمی کی ساری عمر کی محنت اور منصوبہ بندی کا پھل ہوتا ہے، آن کی آن میں جلا کر خاکستر کردیئے جاتے ہیں۔ راہ چلتے کسی کو بھی پکڑ کر کسی بھی بہانے سے یا بغیر بہانے کے بھی بری طرح سے مارا پیٹا اور لہولہان کردیا جاتا ہے، اور زیادہ صورتوں میں تو جان سے ہی مار دیا جاتا ہے۔

اس مارپیٹ اور بہیمانہ تشدد میں اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا کہ جسے مارا جارہا ہے وہ بزرگ ہے یا جوان، عورت ہے یا مرد، یا پھر کوئی بچہ۔ بس ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ پٹنے والا یا جان سے جانے والا ایک مخصوم قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اب اتنے سارے اشاروں کے بعد یہ سمجھنا زیادہ دشوار نہیں کہ یہ کہاں کا ذکر ہورہا ہے۔

جی ہاں! درست سمجھے آپ۔ یہ نام نہاد شائننگ انڈیا اور اس کی نسل پرست بی جے پی سرکار کا ذکر ہورہا ہے، جو باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت سارے ہندوستان میں باری باری مختلف علاقوں اور ریاستوں میں، جہاں بی جے پی اکثریت میں ہے، مسلمانوں کی نسل کشی میں بڑے تسلسل سے منہمک نظر آتی ہے۔

ابھی کورونا سے پہلے دہلی میں ہوئے فسادات کے بارے میں دنیا بھر کے مختلف اخبارات میں ایسی تحقیقاتی رپورٹس شائع ہوئیں جو یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ دہلی فسادات میں جلاؤ گھیراؤ، قتل و غارت گری اور بے حرمتی کے واقعات میں شامل لوگوں کی اکثریت ان بے جے پی کے کارکنان کی تھی جو دلی کے رہائشی نہیں تھے بلکہ فسادات کی منظم منصوبہ بندی کے تحت پہلے سے جتھوں کی شکل میں باہر کے علاقوں سے لائے گئے اور مختلف جگہوں پر ٹھہرائے گئے تھے۔ فسادات سے پہلے باقاعدہ مختلف مسلم اکثریت والے علاقوں کا ڈیٹا، مسلمانوں کے کاروباری معاملات کی تفصیلات جمع کی گئی تھیں اور بہت سے علاقوں کے نقشے بھی بنائے گئے تھے۔ نیز پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ کس طرح متاثرین کو زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔

لڑائی جھگڑے، اختلاف رائے تو کہاں نہیں ہوتا؟ ہر ملک، شہر بلکہ خاندان اور برادری تک کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس وحشت اور درندگی، نفرت اور تشدد سے بھرے اقدامات کی مثال تو دنیا کی حالیہ تاریخ میں ہٹلر کی تعلیمات میں بھی نہیں ملتی، جس کا مظاہرہ بی جے پی سرکار بڑی ہی ڈھٹائی سے اپنے اقتدار کے دورانیے میں شروع سے اب تک کرتی چلی جارہی ہے۔

اس کی مسلمانوں سے نفرت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کیوں؟ کیا قصور ہے وہاں کے مسلمانوں کا؟ یہی کہ پارٹیشن کے وقت انہوں نے وہاں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ یہی کہ ان کے ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں ان کے بادشاہوں نے ہندوستان کو تہذیب اور تمدن اور مذہبی رواداری کے عملی مظاہروں سے نوازا تھا۔ صدیوں کی محنت سے ایک بہترین مشترکہ تہذیب تخلیق کردی گئی تھی، جسے گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا تھا، جو اب ان نفرت کے شعلوں میں جھلس کر تقریباً دم توڑ چکی ہے۔ یا یہ کہ مسلمانوں نے ہندوستان کو ایسی ایسی خوبصورت تعمیرات دیں جو آج بھی عجائبات میں شمار کی جاتی ہیں جیسے کہ تاج محل۔ یا پھر یہ کہ مسلمان صوفیاء کرام نے ہندو مسلم کی تفریق کیے بنا اپنی تعلیمات اور محبت بھرے رویے سے سب کے زخموں پر شفقت سے مرہم رکھا۔

آخر بی جے پی کی سرکار چاہتی کیا ہے؟ اس منظم نسل کشی سے کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سارے ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کرلیں گے یا پھر سارے کے سارے مسلمان اپنا مذہب ترک کرکے دوسرے مذاہب، خاص طور پر ہندو مت میں آجائیں گے؟ کشمیر میں مہینوں کے بہیمانہ لاک ڈاؤن کے بعد آئین میں بے معنی سی ترامیم کرکے، جنہیں ویسے ہی جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا ہے، ہندوؤں کی آباد کاری کرکے اور مسلم آبادی کا تناسب گھٹا کر چند سال بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کروا کر کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو دنیا سے جائز تسلیم کرالیں گے؟ اگر مودی جی کی سرکار یہ سب سوچ رہی ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ وہ انڈیا کو تقسیم کرنے اور ٹکڑوں میں بانٹ دینے کے مشن میں دانستہ یا نادانستہ مصروف ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا ساری باتوں اور کاموں کا عملاً ہونا ناممکن ہے۔

اس کا بدیہی نتیجہ جیسا کہ انڈیا میں چلنے والی علیحدگی کی اکثر تحاریک سے ظاہر ہوتا نظر آرہا ہے کہ انڈیا کی جگہ بالکل اسی طرح بہت سی ریاستیں وجود میں آنے کا باعث بنے گا جس طرح سوویت یونین میں ہوا اور یقینًا ان ریاستوں میں نکسل باڑی ریاست، خالصتان، سکم، گوا اور آسام نامی ریاستوں کے ساتھ مسلم ریاستوں کا وجود میں آنا بھی ناممکن نہیں۔

یہ ساری باتیں لکھنے والے کی ذہنی اختراع یا خواہش نہیں، بلکہ ہندوستان کی سیاسی حرکیات اور سماجیات پر نظر رکھنے والے بڑے ماہرین اپنی تحاریر و تقاریر میں تسلسل سے بیان کرتے نظر آرہے ہیں۔ 18 اپریل کو مشہور بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کی علمبردار ارون دھتی رائے نے اپنے ایک انٹرویو میں اسی مسلم نسل کشی کے خطرے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار افراد میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جاچکا ہے۔ بھارت میں اصل امتحان نفرت اور بھوک کا ہے۔

اس سے قبل ایک امریکی اخبار نے بھی لکھا کہ اتر پردیش میں مسلمان سبزی فروشوں کو شکایت ہے کہ آر ایس ایس کے انتہا پسند لوگوں کو ان سے خریداری نہیں کرنے دیتے، بلکہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ مسلمان کورونا وائرس پھیلاتے ہیں۔ نئی دہلی میں دودھ بیچنے والے مسلمان دکاندار محمد حیدر کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو ہر طرف سے خوف نے گھیر رکھا ہے، ہندو انتہا پسند معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں۔ ان کا یہ انٹرویو مکمل یا حصوں میں دنیا بھر کے اخبارات میں چھپا ہے۔

پھر حد تو یہ ہے کہ حالیہ عالمی وبا یعنی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو بھی انڈیا میں مسلمانوں سے بڑی ڈھٹائی سے جوڑا جارہا ہے اور بار بار کورونا کو مسلمانوں سے جوڑنے پر بھارتی سماجی کارکن کویتا کرشنان نے بھی بھارتی میڈیا اینکروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کہتی ہیں کہ تاریخ کے صفحات میں ان لوگوں کو نفرت پھیلانے والا لکھا جائے گا۔ کورونا کو مذہب سے جوڑنا شرمناک ہے۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ کاش مودی سرکار ہوش کے ناخن لے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔