پاکستان میں لاک ڈاؤن تنازعات کا شکار کیوں؟

صادقہ خان  ہفتہ 2 مئ 2020
رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی لاک ڈاؤن کے حوالے سے آئے روز نئے تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی لاک ڈاؤن کے حوالے سے آئے روز نئے تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دسمبر 2019 کے اواخر تک دنیا بھر میں نہ صرف عام افراد بلکہ میڈیا بھی لاک ڈاؤن اور قرنطینہ جیسی خالص تکنیکی اصطلاحات سے واقف نہیں تھا۔ مگر چار ماہ میں بچہ بچہ ان سے آشنا ہوچکا ہے اور ان کی بدولت زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے اپنے اپنے طور پر نمٹ رہا ہے۔

اگرچہ وائرس کا زیادہ شکار ابھی تک یورپی ممالک، امریکا اور برطانیہ ہی ہوئے ہیں اور چین اور ایران کے علاوہ ایشیائی ممالک میں اس کا پھیلاؤ کم ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ تھا، وہ صورتحال ابھی تک سامنے نہیں آسکی، مگر اگلے ایک ماہ میں صورتحال کیا ہوگی؟ اس حوالے سے یقینی طور پر کچھ کہنا فی الحال ممکن نہیں۔ لہٰذا 9 مئی تک جزوی لاک ڈاؤن میں اضافہ کردیا گیا۔ دوسری جانب رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی لاک ڈاؤن کے حوالے سے آئے روز نئے تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں مختصراً ان چند وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں کہ دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں لاک ڈاؤن پر اتنے تنازعات سامنے کیوں آرہے ہیں۔

1۔ حکومت کا غیر ذمے دارانہ رویہ

پاکستان میں چونکہ سائنس، صحت اور تعلیم کبھی بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں رہیں، لہٰذا اس حوالے سے ایک واضح پالیسی اور ٹھوس حکمت عملی کی کمی کا سامنا ہمیں فروری 2020 سے ہی تھا، جب پاکستان میں کورونا وائرس سے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے۔ کیسز و اموات کے بڑھتے ہی حکومتی عہدیدار افراتفری اور غیر یقینیت کا شکار تھے۔ اگرچہ ہمارے وزیراعظم ہر ہفتے عوام سے خطاب کرتے رہے ہیں، مگر یہ کہتے ہوئے شدید افسوس ہوتا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہمارے وزیراعظم زیادہ سائنسی معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے مشیر انھیں وبا اور وائرس سے متعلق درست بریفنگ دے رہے ہیں۔ جس کا اظہار ان کے بیانات سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا لاک ڈاؤن پر ایک روز کچھ کہا جاتا تو دسرے دن اس کا بالکل الٹ ردعمل سامنے آتا ہے۔ دو ماہ کے عرصے میں اربوں کے فنڈز جمع کرلینے کے باوجود حکومت وبا کو کنٹرول کرنے کےلیے کوئی واضح حکمت عملی سامنے لانے سے اب تک قاصر ہے، جس کی وجہ سے عوام لاک ڈاؤن کے معاملے میں غیر یقینیت اور خوف کا شکار ہیں۔

2۔ میڈیا کی غفلت

وبا کے دنوں میں جتنی غلطیاں پاکستانی میڈیا سے ہوئیں، ان کی ایک طویل فہرست تیار کی جاسکتی ہے۔ حکومت کی طرح میڈیا مالکان، نیوز ایڈیٹرز اور صحافی حضرات کی سائنس اور صحت سے متعلق امور کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، لہٰذا ابتدا میں کچھ صحافی حضرات نے سنی اور شیعہ وائرس کی کہانیاں بنائیں تو دوسرے فیک نیوز کی کوریج میں جان لڑاتے رہے۔ ان میں سے بہت سوں کا یہ موقف بھی سننے کو ملا کہ عوام کو ڈرانے کے لیے اس طرح کی کہانیاں یا خبریں نشر کرنا ضروری ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے افراد اب زیادہ تر درست معلومات کےلیے بین الاقوامی میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 24 گھنٹے کی کورونا وائرس نشریات سے نہ صرف عوام میں خوف اور اینزائٹی کا اضافہ ہوا بلکہ الیکٹرانک میڈیا ان نشریات کے چکر میں درست اور اڑتی خبر، افواہ اور کلک بیٹ کے درمیان فرق کرنا ہی بھول گیا۔

ٹاک شوز میں ایسے افراد کو بلایا جارہا ہے جو پانچویں کلاس کی سائنسی معلومات بھی نہیں رکھتے۔ ہر کسی کا اپنا موقف ہے اور وہ اس پر کسی مائیکرو بائیولوجسٹ یا وائرس ایکسپرٹ کی طرح ڈٹا ہوا ہے، جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن پر ہر طرح کے تبصرے سامنے آرہے ہیں اور عوام صحیح اور غلط میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔

3۔ سائنس بمقابلہ مذہب

پاکستان میں سائنس محض کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے، نہ تو یہاں کوئی ریسرچ کلچر ہے جس میں طلبا کتابوں میں لکھے کو عملی طور پر برتیں اور ازخود تحقیق سے نئی چیزیں سامنے لائیں۔ نہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے سائنسی تعلیم یا تحقیق کو اپنی ترجیحات میں رکھا۔ لہٰذا سائنس کے حوالے سے عام آدمی کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اور زیادہ تر افراد مذہب اور سائنس کے من پسند مکسچر کو ہی پسند کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ آج کل ہم روز ٹی وی چینلز پر مشاہدہ کررہے ہیں کہ صحت سے متعلق خالص سائنسی موضوعات پر علمائے کرام سے رائے لی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام افراد علما کے کہے کو حرف آخر سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ کیا ہمارے صحافی حضرات یا اینکر پرسن اتنا سوچنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے کہ جن افراد کو وائرس کے بارے میں بنیادی معلومات بھی نہیں، وہ کیسے آپ کو ماہرانہ رائے دے سکتے ہیں؟

یہ درست ہے کہ لاک ڈاؤن سے ہر کسی کا روزگار متاثر ہوا ہے، یہ امر بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ رمضان میں مسجدوں کو بہت سا چندہ اور خیرات ملتا ہے اور مسجدوں سے منسلک افراد کا گزر بسر اسی پر ہے، مگر کیا کسی ضرورت مند کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ خود کو متعلقہ شعبے کا ماہر ثابت کرکے فیصلے صادر کرے؟ لاک ڈاؤن پر تنازعات نے جہاں بہت کچھ واضح کیا ہے وہاں حکومتی کنٹرول کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ عوام، ادارے اور علما ہر کوئی اپنا اپنا الگ مؤقف رکھتا ہے اور حکومت سب کو ایک ٹیبل پر جمع کرکے ایک واضح حکمت عملی اب تک نہیں بناسکی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سیاستدانوں کے بجائے ڈاکٹرز اور اسپیشلسٹ کی علمائے کرام کے ساتھ نشست کروائی جاتی تاکہ انھیں کورونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار اور مستقبل کے خدشات سے آگاہ کرکے مناسب طریقے سے مسجدوں کی جزوی بندش پر قائل کیا جاتا۔ جیسا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

4۔ وبا کو سمجھنے میں کوتاہی

پاکستان میں چونکہ عام افراد میں مذہبی طرز فکر رکھنے والے افراد کا غلبہ ہے، لہٰذا وہ قدرتی آفات کو اللہ تعالیٰ کا عذاب سمجھ کر اسے نذر و نیاز، صدقہ و خیرات کے ذریعے ٹالنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ مجموعی اعمال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لائے بغیر خدا ان پر سے ناگہانی بلا کو ٹال دے گا۔ مگر درحقیقت کورونا وائرس اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں۔ قدرت نے انسانوں کو لاک کرکے کچھ وقت لیا ہے تاکہ وہ عشروں سے ہونے والی اپنے نظام کی بڑی تبدیلیوں کو درست کرسکے، جن میں ماحولیاتی تبدیلیاں، جنگلات و جنگلی حیات کی تباہی اور گلوبل وارمنگ سرفہرست ہیں۔ آپ چاہے تو اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ بینک میں ضروری کام یا مرمت کے سلسلے میں ریمائنڈر بھیجا جاتا ہے کہ سسٹم کی درستگی تک سروس معطل رہے گی۔

بالکل اسی طرح قدرت جو ازل سے انسان کو مفت سروسز دیتی رہی ہے وہ سروسز کچھ عرصے کے لیے معطل کردی گئی ہیں اور قرنطینہ میں بٹھا کر آپ کو وقت دیا گیا ہے کہ اپنی کوتاہیوں کی ایک چارج شیٹ بناکر خود ہی اپنی اصلاح کریں۔ بصورت دیگر لاک ڈاؤن آتے رہیں گے، قدرت اپنے نظام پر مزاحمت کرتی رہے گی۔ مگر تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث پاکستان میں عام افراد ہی نہیں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی اس نقطۂ نظر کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور آنے والی تبدیلیوں کےلیے خود کو تیار نہیں کررہے۔ ان کا زور اسی پر ہے کہ جو جیسا ہے ویسا ہی چلتا رہے، جس میں ہماری حکومت بھی شامل ہے۔ وبائی امراض ازل سے انسانی ارتقاء کا ایک لازمی حصہ رہے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک ارتقائی عمل سے گزریں اور زندگی میں تبدیلی واقع نہ ہو؟

لہٰذا وقت کی ضرورت یہی ہے کہ لاک ڈاؤن پر تنازعات کھڑے کرکے قدرت کے ارتقائی عمل کے خلاف مزاحم ہونے کے بجائے اس عمل کا حصہ بنیے، قدرت کی معاونت کیجئے۔ انشاء اللہ آنے والا کل ہم سب کےلیے بہت سی بہتری اور خوشحالی لے کر آئے گا۔ لاک ڈاؤن کو حکومت کا نہیں قدرت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کیجئے، اس یقین کے ساتھ کے رازق بھی اللہ ہے جو کسی فوٹو سیشن کے بغیر آپ کو ہمیشہ رزق دیتا رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صادقہ خان

صادقہ خان

مصنفہ کا تعلق کوئٹہ، بلوچستان سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے فری لانس سائنس جرنلسٹ اور فزکس کی استاد ہیں۔ ڈان، اے آر وائی، جنگ اور ایکسپریس ٹرایبیون میں سائنسی مضامین لکھنے کے علاوہ سائنس فکشن ناول نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔