موت کی کوٹھڑی سے نئی زندگی تک

ڈاکٹر شائستہ جبیں  اتوار 3 مئ 2020
اُس شخص کی کہانی جس نے ناکردہ جرم پر ستائیس برس جیل کاٹی، اور رہائی کے بعد بھی قیدیوں کی سی زندگی بسر کر رہا ہے

اُس شخص کی کہانی جس نے ناکردہ جرم پر ستائیس برس جیل کاٹی، اور رہائی کے بعد بھی قیدیوں کی سی زندگی بسر کر رہا ہے

کلنٹن کانیو مغربی افریقہ کے ملک نائجیریا میں ایک متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہوا، اس کا باپ غریب آدمی تھا جس نے اپنی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سرکاری محکمہ ڈاک میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگیا۔کانیو کی ماں سکول ٹیچر تھی۔ دونوں میاں بیوی اپنے چھ بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

کلنٹن کانیو بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، وہ پڑھنے کا شوق رکھنے والا، محنتی بچہ تھا۔ اس نے قانون اور کرمنالوجی (جرائم کا سائنسی علم) میں تعلیم حاصل کی اور جلد ہی ماہر جرمیات کے حوالے سے مشہور ہوگیا اور مختلف جرائم اور مقدمات میں سرکاری افسروں کی مدد کرنے لگا۔ وہ اٹھائیس سال کی عمر کا ایک پُرجوش اور دلکش نوجوان تھا، جس نے کم عمری میں ہی اعلیٰ سرکاری ملازمت حاصل کر لی تھی۔ اس کے پاس دو شاندار رہائش گاہیں، چار گاڑیاں تھیں اور اعلیٰ سرکاری حکام سے اس کے تعلقات تھے۔

1992ء کے آغاز کے دن تھے۔ کانیو دیگر افسران کے ہمراہ ایک خاندان میں ہونے والی چوری اور زمین کا تنازعہ سلجھانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اتفاق سے اس جھگڑے کے متعلقین میں سے ایک شخص کا قتل ہوگیا۔ کانیو کو اس قتل میں ملوث کردیا گیاحالانکہ جس وقت وہ قتل ہوا، کانیو جائے وقوعہ سے ایک سو کلو میٹر دور تھا۔ اسے اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

گرفتاری کے بعد اسے احساس ہوا کہ اسے جان بوجھ کر اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اس کی ترقی اور سرکاری افسروں سے تعلقات سے نالاں تھے، انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اسے جیل بھجوانے کا انتظام کیا۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہونے کا انتظار وہ برسوں تک ایک چھوٹی سی جیل میں قید رہ کر کرتا رہا۔ اس تکلیف دہ وقت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی اس کا چہرہ غم و غصہ سے سرخ ہو جاتا ہے اور وہ اسے نائجیریا کے قانون جرم وسزا کی بدعنوانی،ناانصافی اور غداری قرار دیتا ہے کہ ایک شخص کو مقدمہ کی سماعت کے لیے اس قدر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق نائجیریا میں جرم و سزا کا نظام بدعنوانی سے بھر پور ہے۔کئی بار ججز کو رشوت ستانی کے باعث معطلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماعت اور پیشی میں غیر ضروری تاخیر کی جاتی ہے۔ ملک کی مختلف جیلوں میں قید 70 فیصد قیدی مقدمہ شروع ہونے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔کانیو کو گرفتاری کے تیرہ سال بعد سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور اسے ملک کی بڑی جیل میں بھیجا گیا۔

804 افراد کی گنجائش رکھنے والی اس جیل میں چار ہزار سے زائد لوگ قید تھے۔ نائیجریا کی قیدیوں سے متعلق ایک رفاہی تنظیم کے سربراہ کے مطابق جیلوں میں اس غیر معمولی بھیڑ کی ایک بڑی وجہ معمولی جرائم میں اور غیرقانونی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا گرفتار کیا جانا ہے جس کی وجہ سے عدالتیں اور جیل کا نظام دونوں مشکل میں ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افریقہ کے ممالک میں سب سے زیادہ پھانسی کی سزا نائیجریا میں سنائی جاتی ہے۔2017 ء میں621 لوگوں کو پھانسی دی گئی۔2016 ء میں 527 لوگوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ یہ تعداد 2015 ء کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ پھانسی کی سزا عموماً مسلح ڈکیتی، قتل یا غیر قانونی کام کرنے والے گروہوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے دی جاتی ہے۔

طویل قید اور پھر موت کی سزا نے کانیو کو جذباتی اور جسمانی ہر دو لحاظ سے بری طرح متاثر کیا۔ وہ بلند فشارِ خون، بے خوابی، ذیابیطس، پریشانی اور دباؤ کا شکار ہو کر جیل کے ہسپتال میں جا پہنچا۔ وہ اپنی بے گناہی سے لڑتے لڑتے تھک چکا تھا اور سزائے موت نے اس پر مایوسی طاری کر دی تھی۔ 2008 ء میں اس نے خواب آور گولیوں کی ایک بھاری مقدار کھا کر خود کشی کی کوشش کی، بے خوابی کا مریض ہونے کی وجہ سے اس نے یہ گولیاں جیل حکام کی نظروں سے بچ کر منگوا رکھی تھیں لیکن یہ گولیاں کھانے کے بعد بھی مرنے سے بچ گیا۔

وہ جیل میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو بہت یاد کرتا تھا، اگرچہ وہ سب اسے ملنے آتے رہتے تھے لیکن انہیں جاتا ہوا دیکھنا اس کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ وہ کئی کئی دن تک اس تکلیف میں مبتلا رہتا۔ یہ دن اس کے خاندان کے لیے بھی بہت مشکل تھے۔اس کی بہن وکٹوریہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی پہلی تکلیف دہ سوچ اس کے ذہن میں یہی آتی تھی کہ اس کا بھائی بے گناہ جیل کاٹ رہا ہے اور اس سوچ کے ساتھ دن گزارنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ ان تلخ ایام کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا پسند نہیں کرتی۔

کانیو کی قید کے دوران ہی اس کے والد، ایک بھائی، انکل اور کئی رشتہ داروں کی اموات ہوئیں لیکن2014 ء میں ہونے والی ماں کی موت نے اسے بہت دل شکستہ کیا۔ وہ اپنی ماں کی پہلی اولاد تھا جس سے ماں کو بہت محبت تھی، اور وہ بیٹے کے جیل میں ہونے کا غم لے کر دکھی دل کے ساتھ دنیا سے گئی۔

ماں کی موت سے دل بر داشتہ کینو نے ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کی، اس بار ذیابیطس کی دوا کی بھاری خوراک کھا کر اس نے مرنے کی کوشش کی لیکن جیل کے اسپتال میں متعین ایک نرس کے بروقت اسے دیکھ لینے کی وجہ سے وہ بچا لیا گیا۔ جیل میں اس کی نگرانی مزید سخت کر دی گئی لیکن چند ہی دن بعد اس نے جیل کی ورکشاپ سے تیز دھار آلہ چرا کر خود کو ختم کرنے کی کوشش کی تاہم ایک ساتھی ملزم کی بروقت مداخلت کی وجہ سے وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ خودکشی کی تین ناکام کوششوں نے اسے احساس دلایا کہ ابھی خدا کو اس کی زندگی مقصود ہے۔ اس احساس کے زیرِ اثر اس نے جیل میں اپنے وقت کو مثبت استعمال کرنے کا سوچا اور ساتھی قیدیوں سے رہنمائی لینا اور مشاورت کرنا شروع کر دی۔

اس نے افریقہ کے ایک مشنری ادارے کو جیل میں تعلیم کے لیے قائل کیا اور پچاس دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ دین الہیا ت کے مطالعہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ اب اسے ہر ہفتے ہونے والی کلاسز کا انتظار رہتا تھا۔ اس مصروفیت نے اس کی بے چینی کو ختم کیا اور بہت عرصہ بعد اسے سکون کا احساس ہوا۔ 2009 ء میں وہ دو مختلف مضامین میں ماسٹرز کر چکا تھا، جیل میں سات سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2014 ء میں اس نے مشن منسٹری اور مشاورت کے مضامین میں الگ الگ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرلیں۔

اسی سال اسے جیل میں مبلغ کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ جیل میں یہ وہ پہلی چیز تھی جس نے اسے خوشی دی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی مبلغ بننا چاہتا تھا۔ اس کے دس اور ساتھیوں کو بھی مبلغ مقرر کیا گیا لیکن ان سب نے اسے اعزاز دیتے ہوئے بڑے پادری کا رتبہ دیا۔ وہ ان ساتھیوں کے ہمراہ جیل میں مذہبی دعائیہ اجتماع منعقد کرواتا، ساتھی قیدیوں کو پرسکون رہنے اور غصہ پر قابو پانے کی نصیحت کرتا اور سزائے موت پر کی جانے والی اپنی اپیل کی شنوائی کا انتظار کرتا۔

مقدمہ لڑنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس کی چاروں گاڑیاں، دونوں رہائش گاہیں اور سارا گھریلو سامان بک چکا تھا۔اب اس کے پاس کچھ نہیں رہا تھا۔ موت کی سزا ملنے کے دس سال بعد سپریم کورٹ میں اس کے کیس کی شنوائی ہوئی جس میں اس کے مقدمے کی تفصیلات کا ایک بار پھر جائزہ لیا گیا۔

اس کے خلاف واحد گواہ مقتول کا بھائی تھا جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے کانیو کو جائے وقوعہ پر دیکھا تھا۔ جبکہ دو لوگ کانیو کے حق میںگواہی دے رہے تھے کہ وہ جائے واردات سے سو کلومیٹر دور تھا۔ بالآخر طویل سماعت کے بعد 2019ء میں سپریم کورٹ نے کانیو کو بے قصور قرار دیتے ہوئے بری کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اس فیصلے کے دو ہفتوں بعد وہ جیل سے رہا ہوا۔ ایک بیگ میں اپنی تعلیمی اسناد اور مشنری ادارے کی طرف سے تحفتاً دیئے گئے کپڑے لے کر وہ جیل سے باہر آیا۔

جس وقت وہ جیل گیا تھا اس وقت اٹھائیس سالہ نوجوان تھا جس کے پاس سب کچھ تھا، لیکن آج جب جیل سے باہر آیا وہ ایک چھپن سالہ بوڑھا تھا جس کے پاس نہ گھر تھا، نہ گاڑی، نہ دوست اور نہ ہی بیوی بچے۔ وہ متوسط درجے کی ایک رہائشی عمارت کی تیسری منزل پر واقع ایک کمرے کے مختصر سے فلیٹ میں رہتا ہے، کمرے میں کل سامان ایک سخت کھردرا میٹرس، اور ایک بدرنگ آرام کرسی ہے، کمرے کی چھت اتنی نیچی ہے کہ طویل قامت نہ ہونے کے باوجود وہ اگر سیدھا کھڑا ہوتا ہے تو اس کا سر چھت سے ٹکراتا ہے۔ دن کا بیشتر وقت وہ کھڑکی سے شہر کی سرخ مٹی بھری سڑکیں دیکھتا رہتا ہے اور بائبل کے مطالعے میں مصروف رہتا ہے۔

ہفتے کے دن وہ اسی شہر میں رہنے والی اپنی ایک بہن کے گھر کھانے کے لیے جاتا ہے جہاں وہ بہن بہنوئی کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور کھانے کے بعد اس کی بہن خاندان کی تصویروں پر مشتمل البم اسے دکھاتی ہے۔ یہ ان ستائیس سالوں کے دوران بنائی جانے والی تصویریں ہیں جب کانیو جیل میں تھا۔ وہ اپنے بھانجے، بھتیجوں کی تصویریں دیکھتا ہے جو تعلیم اور روزگار کے لئے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ یہ تصویریں دیکھ کر اس بدترین وقت کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے جو اس نے گزارا ہے۔ وہ زندگی میں واپس آنے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن ظاہر ہے یہ آسان نہیں ہے۔

نرم، سادہ اور بالکل عام سی شکل والا کانیو مذہب پر بہت یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی یقین اس کا ساتھ دے گا۔ وہ اب سخت حفاظتی انتظامات والی جیل میں تو نہیں ہے لیکن ایک بیروزگار ادھیڑ عمر شخص ایک غریب ملک میں کیسے زندگی گزارے، یہ اس کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد اس نے اپنی جیل میں حاصل کی گئی ڈگریوں کی بنیاد پر مختلف جگہوں پر ملازمت کے لئے درخواستیں جمع کرائیں، مختلف حکومتی اداروں میں امداد کے لئے درخواست دی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جس دنیا سے وہ ستائیس سال دور رہا ہے وہاں وہ اپنے دوستوں اور پرانے تعلق داروں کو ڈھونڈ رہا ہے لیکن ظاہر ہے یہ آسان نہیں ہے۔

اسے اپنی تعلیم اور صلاحیتوں پر اعتماد ہے لیکن فی الوقت وہ بھکاریوں کی طرح رہائش اور خوراک کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ اس کی رہائش گاہ سے تیس منٹ کے فاصلے پر ایک چرچ ہے جہاں وہ کبھی کبھار مہمان مقرر کے طور پر مدعو ہوتا ہے، اس چرچ کا پادری اس سے بہت متاثر ہے، وہ سمجھتا ہے کہ کانیو کے اندر کوئی روحانی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی لمبی بے گناہ قید کاٹ سکا ہے۔

کانیو کو چرچ جا کر بہت خوشی اور سکون ملتا ہے لیکن وہ روزانہ وہاں نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے پاس بس کے کرائے کے لیے رقم نہیں ہوتی۔کینو کے پاس تعلیم ہے، صلاحیت ہے، آئیڈیاز ہیں لیکن پیسہ، طاقت، تعلقات اور ملازمت نہیں ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے ابتدا کرے۔ وہ اپنے ملک میں جیل کے نظام کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جو طویل وقت اس نے جیل میں گزارا اس میں اسے جیل کے نظام کی خرابیوں اور برائیوں کا بہت اچھی طرح علم ہوا۔ اس نے جیلوں میں ہونے والی بد عنوانی، تشدد اور زیادتی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔

قیدیوں کی خوراک، رہائش اور دیگر ضروریات کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رقم میں جیل حکام خردبرد کرتے ہیں اور قیدیوں پر بہت کم خرچ کرتے ہیں۔ جیلوں میں بنیادی ضروریات جیسے بیت الخلا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا فقدان ہے، علاج کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے قیدی قابلِ علاج بیماریوں مثلاً ملیریا اور ٹی. بی کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ سزائے موت کے قیدیوں کو تنگ و تاریک سیل میں رکھا جاتا ہے جہاں چوہوں کی بھرمار ہوتی ہے جبکہ ہوا اور روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ جیل میں قید لوگوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ جب وہ جیل سے باہر آئیں تو وہ ایک کارآمد فرد ہوں۔کانیو اپنی غیر آرام دہ’آرام کرسی‘ میں بیٹھا بہ آواز بلند کہتا ہے، جیلوں میں کچھ نہیں ہو رہا۔ کرسی جُھلاتے ہوئے وہ کہتا ہے:

’’آپ لوگوں کو وہاں ڈالتے ہیں اور وہ فارغ بیٹھے باہر آنے اور بدلہ لینے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں، آپ انہیں کسی مثبت کام میں کیوں نہیں لگاتے کہ ان کی معاشرے میں واپسی ایک مجرم کی واپسی نہیں بلکہ ایک ہنر مند کی واپسی ہو‘‘۔

کانیو اس نظام کو بدلنا چاہتا ہے جو کسی بھی بے قصور شخص کی زندگی نگل جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قیدیوں کی فلاح کے لیے ایک تنظیم بنائی جائے جو رہائی کے بعد انہیں عام روزمرہ زندگی میں واپس آنے میں مدد کرے۔ وہ فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہے جبکہ مالک مکان کی طرف سے اسے فلیٹ خالی کرنے کا نوٹس مل چکا ہے لیکن وہ اب بھی پُر امید ہے کہ کوئی نہ کوئی حل اس کا منتظر ہوگا۔

کلنٹن کانیو کی یہ داستان صرف ایک فرد کی داستان نہیں ہے، یہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کی جیلوں میں قید ہر اس بے قصور شخص کی کہانی ہے جو ظالمانہ نظام جرم و سزا کی نذر ہو رہا ہے، جس کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال خود کو بے قصور ثابت کرنے کے جدوجہد میں صرف ہو رہے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات کے لئے ناکافی ان جیلوں میں قید لوگ نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

(یہ کہانی الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر لکھی گئی ہے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔