تھامس جیفرسن کی بائبل

عابد حسین مدنی  اتوار 3 مئ 2020
سابق امریکی صدر کی بائبل سے متعلق بکھری معلومات کا احاطہ کرتی تحریر ۔  فوٹو : فائل

سابق امریکی صدر کی بائبل سے متعلق بکھری معلومات کا احاطہ کرتی تحریر ۔ فوٹو : فائل

تھامس جیفرسن کا مختصر تعارف
تھامس جیفرسن (13 اپریل 1743 ء – 4 جولائی 1826 ء) امریکا کے تیسرے صدر تھے۔ 1776ء میں جمہوریہ ریاست ہائے متحدہ کا مشہورِ زمانہ اعلان آزادی قلم بند کرنے کا اعزاز انھی کو حاصل ہوا۔ 1797ء سے 1801ء تک امریکا کے نائب صدر اور 1801ء سے 1809ء تک امریکا کے صدر رہے۔ انہوں نے ریاستی اور قومی سطح کی کئی راہ نما دستاویز تیار کیں اور کئی اہم فیصلے صادر کیے۔

یہ 1804کی ایک شام تھی، جب تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن وائٹ ہاؤس میں روز مرہ کے صدارتی امور سے فارغ ہوکر اپنی ڈیسک پر آبیٹھے، چھوٹا چاقو یا قینچی لیے سابق صدر نے بائبل کے دو مختلف نسخوں میں سے تراشے کاٹ کاٹ کر ایک نئے رجسٹر میں چسپاں کرنا شروع کردیے۔ تھامس جیفرسن اس کتاب کی کانٹ چھانٹ کر رہے تھے جسے ان کے اکثر ہم وطن امریکی ’’خدا کا کلام‘‘ تصور کرتے تھے۔ یہ فعل انتہائی حساس بلکہ توہین کے زمرے میں آتا تھا مگر جیفرسن کے لیے یہ ایک سادہ سا کام تھا۔

تھامس جیفرسن نے بائبل کے دو نسخوں کی کاٹ چھانٹ کر کے ایک تیسری بائبل تیار کرلی جو ان دونوں بائبل سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ بقول جیفرسن اس نے بائبل کے تمام غیرضروری حصوں سے ضروری حصوں کو الگ کر لیا تھا۔ بعدازاں جان ایڈمس کو لکھے ایک خط میں جیفرسن نے بائبل کے (ان کے خیال میں) غیرضروری حصے سے الگ کر کے اپنے انتخاب کردہ تراشوں کو ’’ایسے ممتاز و نمایاں جیسے کوڑے کے ڈھیر پر ہیرا ‘‘ قرار دیا۔

جیفرسن نے اپنی اس بائبل کا نام”The Philosophy of Jesus of Nazareth”  ( فلسفۂ یسوعِ ناصری) رکھا۔ انہوں نے اس کتاب کی جلد بنوالی تھی مگر اسے کبھی شائع نہیں کیا، صرف چند قریبی دوست یہ بات جانتے تھے۔ 46 صفحات کی اس کتاب کا یہی ایک نسخہ تھا جو بعدازاں کہیں غائب ہوگیا اور تاریخ میں گم ہوگیا۔ اب یہ صرف جیفرسن کے تحریر کردہ خطوط میں کسی حد تک موجود ہے جو انہوں نے اپنے مختلف دوستوں کو ارسال کیے۔

جیفرسن کی بائبل کا دوسرا ورژن:

سولہ برس بعد جیفرسن نے ایک اور نسخہ تیار کیا۔ 1820ء میں جب جیفرسن کی عمر 77 سال تھی اور وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں سے فارغ ہوچکے تھے، وہ دوبارہ بیٹھے۔

انہوں نے چھ بائبل خریدیں، دو انگریزی، دو فرانسیسی اور دو ایسی جو یونانی و لاطینی دونوں زبانوں پر مشتمل تھیں۔ جیفرسن نے دوبارہ بائبل میں کانٹ چھانٹ کی، ان کے تراشیدہ حصوں کو الگ صفحات پر چسپاں کیا اور یوں چار زبانوں پر مشتمل ایک اور بائبل تیار کرڈالی جوان کے وسیع علم کو ظاہر کرتی ہے۔

اس دوسرے ورژن کو جیفرسن نے “The Life and Morals of Jesus of Nazareth”(حیات و کردارِ یسوع ناصری) کا نام دیا۔ یہی وہ بائبل ہے جسے آج ہم جیفرسن کی بائبل کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جو اب واشنگٹن میں واقع لائبریری Smithsonian National Museum of American Historyمیں محفوظ ہے۔ تاہم یہ بات اکثر لوگ نہیں جانتے کہ تھامس جیفرسن نے اپنی الگ بائبل تیار کی تھی۔

واضح رہے کہ ناصرہ (Nazareth)  اسرائیل کے جنوبی ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کا بچپن گزرا تھا۔ اس نسبت سے آپ کو عیسائی دنیا میں ’یسوع ناصری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس ورژن میں جیفرسن نے چار کالم بنائے، ایک جانب لاطینی و یونانی زبان کے تراشے جب کہ فرانسیسی اور انگریزی تراشے دوسری جانب چسپاں کیے۔

انچ میں یہ کتاب 8.3 لمبائی، 5.2 چوڑائی اور 1.3 موٹائی رکھتی ہے ۔

جیفرسن کی کٹ اینڈ پیسٹ بائبل:

کہا جاتا ہے کہ جیفرسن نے 1808 میں اپنے ایک دوست برطانوی سائنس داں جوزف پریسلے کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے پریسلے کو ترغیب دی کہ وہ بائبل سے اخذ کر کے ایک کتاب یسوع کے اخلاقی کردار کے حوالے سے لکھے۔ مگر ہوا یوں کہ پریسلے اس کے ایک ہفتے بعد ہی فوت ہوگیا، تب خود جیفرسن نے بائبل کے دو نسخوں کی مدد سے اپنی نئی بائبل اسی موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کی۔ جیفرسن کی ایک تحریر سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی یہ کتاب امریکا کے قدیم باشندوں ریڈانڈینز کی تعلیم کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ مگر مورخین کا ایک گروہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس گروہ کے مطابق جیفرسن نے یہ آئیڈیا کسی کو نہیں دیا، نہ ہی جیفرسن اس کتاب کے ذریعہ ریڈ انڈینز کی تعلیم کے خواہاں تھے بلکہ جان ایڈمس کو لکھے ایک خط میں جیفرسن نے واضح کیا ہے کہ یہ کتاب میں نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے تیار کی ہے۔ جیفرسن پر بعض لکھنے والے اس بابت خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں میں سے کس کی بات کو درست مانا جائے۔

تھامس جیفرسن کی بائبل میں عیسٰی علیہ السلام کو بہ حیثیت ایک انسان اور بہ طور اخلاقیات کے استاد نمایاں کیا گیا تھا۔ ایک ایسا استاد جس کی سچائی معجزات اور کسی قسم کی مافوق الفطرت (Supernatural) طاقت کی مدد کے بغیر ثابت کی گئی تھی۔ جیفرسن نے عہدنامہ جدید کے ان حصوں کی کاٹ چھانٹ شروع کی جو ان کے خیال میں ’’ غیرضروری ‘‘ تھے۔

اس بائبل میں صرف یسوع پر زور دیا گیا تھا ان کے روحانی امور کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندہ ہونے اور ایسٹر کے تہوار کا ذکر بھی شامل نہیں تھا اور نہ ہی ان کے معجزات مثلاً پانی کا شراب بن جانا، پانی پر چلنا، روٹیوں اور مچھلیوں کو کئی گنا زیادہ کردینا وغیرہ شامل تھے۔

تھامس نے پولوس کو عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں سب سے پہلا تحریف کرنے والا ( first corrupter of the doctrines of Jesus  ) قرار دیا۔

تھامس جیفرسن نے تثلیث کے تصور کو ’’اپنے آپ کو عیسیٰ کا پادری کہنے والے دھوکے بازوں کا محض جادو منتر، لایعنی بول (“mere Abracadabra of the mountebanks calling themselves the priests of Jesus”) کے طور پر مسترد کردیا۔

تھامس جیفرسن لکھتے ہیں کہ ’’مسیح علیہ السلام خود کو بنی نوع انسان کے سامنے خدا کے بیٹے کے طور پر پیش کرنے کے متمنی نہیں تھے۔‘‘

“Jesus did not mean to impose himself on mankind as the son of God”

انہوں نے نیا عہدنامہ تحریر کرنے والے لکھاریوں کو جاہل اور ان پڑھ (ignorant, unlettered men) قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صرف توہم پرستی، جنونیت اور جعل سازی (“supersitions, fanaticisms and fabrications”) کو پروان چڑھایا۔

جیفرسن کے مطابق عیسائی مذہبی راہ نماؤں نے مذہب کو محض دولت و طاقت حاصل کرنے کی چال کے طور پر استعمال کیا۔ (“mere contrivence to filch wealth and power to themseves”)

مزید لکھتے ہیں کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں پادری آزادی کے دشمن رہے ہیں۔ (“in every country and every age, the preist has been hostile to liberty”)

عیسائی دنیا کا ردِعمل:

عیسائی مذہب و مذہبی راہ نماؤں سے متعلق تھامس جیفرسن کے ان تبصروں نے عیسائی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چناںچہ ان عقائد کی بنیاد پر عیسائی محققین پریشان ہیں کہ تھامس جیفرسن کو کیا کہا جائے۔

والڈ مین نے تھامس کو عیسائی مخالف، یہود کا حامی اور مذہب مخالف مگر خدا کے وجود کا حامی (anti-Christian pro-Jew and anti-religion  pro-God) قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ کورانہ تقلید کا مخالف اور دلیل کی بنیاد پر عقیدہ رکھنے کا قائل تھا۔

ان کی کتاب کو کٹ اینڈ پیسٹ بائبل کا نام دے کر کوئی انہیں ملحد (Atheist)قرار دیتا ہے تو دوسرا کہتا ہے جیفرسن سچے ملحد نہیں تھے کیوںکہ وہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتے تھے۔

لیکن سب سے دل چسپ تبصرہ کلیرمونٹ گریجویٹ یونیورسٹی (Claremont Graduate University)میں تاریخ و ادب کی پروفیسر لوری این فیریل (Lori Anne Ferrell)کا ہے، وہ لکھتی ہیں:

’’اصل میں بات یہ ہے کہ تقریباً ہر شخص بائبل میں کاٹ چھانٹ کرتا ہے۔ حتٰی کہ روزانہ بائبل کا مطالعہ کرنے والے لوگ بھی اس کے صرف بعض حصے پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ منتخب حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ وہ حصے پڑھتے ہیں جن پر ان کا یقین ہوتا ہے یا وہ جو انہیں تسکین پہنچاتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے لیے بائبل کَٹ اینڈ پیسٹ (cut and paste)کام ہے۔ بس ہوا یہ ہے کہ جیفرسن نے حقیقت میں قینچی یا بلیڈ اٹھا لیا اور عملاً ان حصوں کو بائبل سے الگ کردیا جو ان کے خیال میں اس میں نہیں ہونا چاہیے تھے۔‘‘

ایک فری لانس قلم کار ایلیسا روٹ (Alyssa Roat) نے مکاشفہ اور استثناء کی بعض آیات کے حوالے سے لکھا کہ بائبل کے مندرجات میں سے کچھ نکالنا خدا کے نزدیک ایک بڑا جرم ہے جس کے جیفرسن مرتکب ہوئے۔

خود اپنے بارے میں جیفرسن کا کہنا تھا کہ میں اپنی ذات میں ایک فرقہ ہوں “I am a sect by myself ”

وہ اپنی سوانح حیات میں ایک جگہ لکھتے ہیں:’’میں یسوع کے عقائد کا پیروکار ایک حقیقی عیسائی ہوں۔‘‘

“I am a real Christian, that is to say a disciple of the doctrines of Jesus”

جیفرسن نے یہ کتاب اپنے بہت سے دوستوں کو ارسال کی مگر اپنی زندگی میں اسے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیفرسن کا تیار کردہ مکمل ترین نسخہ وراثت میں ان کے پوتے تک پہنچا اور اس کا اصل نسخہ 1895 میں اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن (Smithsonian Institution) نے ان کی پڑپوتی کیرولینا رینڈولف سے چار سو ڈالر کے عوض حاصل کیا۔

اس کے بعد یہ بائبل 1904 میں شائع ہوئی اور ہر دوسرے سال 1950 تک شائع ہوتی رہی۔ کانگریس کے نئے ارکان کو ایک نقل فراہم کی جاتی رہی جسے بعدازاں روک دیا گیا۔ پھر امریکن ہیومینسٹ ایسوسی ایشن(American Humanist Association) نے 2013 میں اس کا ایک ایڈیشن شائع کیا اور کانگریس کے ہر رکن اور باراک اوباما کو مفت فراہم کیا۔

اس سارے قصے کو دیکھتے ہوئے ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ ایک عیسائی کے دل میں کیوںکر اپنے مذہب کے بارے شبہات پیدا ہوئے؟ ایسے ماحول میں جہاں تثلیث کا عقیدہ ہر شخص کی گھٹی میں پڑا ہو کوئی ذہن کیوںکر عیسٰی علیہ السلام کی بشریت کا قائل ہوا؟ کیا چند مخصوص عقائد کے حوالے سے تھامسن کے دل و دماغ میں مچی ہلچل کسی خارجی عامل کے سبب تھی؟ اگر ہاں تو وہ خارجی اسباب کیا کیا تھے؟

چند باتوں کے جواب ہم ایک اور تاریخی واقعے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اگرچہ خود عیسائی دنیا خصوصاً امریکا میں ان کے اعلانیہ عقائد کے متعلق سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ عیسائی تھے یا یہودی؟ لیکن یہ سوال اٹھانے کے بعد بات تھامس جیفرسن کے وائے کروموسوم (Y Cromosom)کی طرف نکل جاتی ہے۔n

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔