کورونا وائرس: انسانیت کے لیے لمحۂ فکر

ماہ طلعت نثار  اتوار 3 مئ 2020
مخلوق کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا کنبہ کہا ہے تو اُس کے کنبے کی جس قدر ممکن ہو مدد کیجیے ۔  فوٹو : فائل

مخلوق کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا کنبہ کہا ہے تو اُس کے کنبے کی جس قدر ممکن ہو مدد کیجیے ۔ فوٹو : فائل

سورۃ بقرہ کی چند آیات میں اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے، کچھ ڈر اور بھوک سے، اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سُنا دیجیے اُن صبر کرنے والوں کو کہ جب اُن پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اﷲ کے مال ہیں اور ہم کو اُسی کی جانب واپس لوٹنا ہے، یہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت اور یہی لوگ صحیح راہ پر ہیں۔‘‘

آج کل مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو کورونا وائرس کی تباہی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ یہ ایک مہلک ترین اور جان لیوا وبا ہے، پھر اس بحران سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار نے پوری دنیا کو خوف و ہراس اور مایوسی کی ہیجانی کیفیت میں مبتلا اور ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔

انسان کی زندگی میں کبھی غم تو کبھی خوشی، کبھی غربت تو کبھی ثروت، کبھی امن و آشتی تو کبھی بدامنی اور کبھی صحت و تن درستی تو کبھی بیماری کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہ سب اتار چڑھاؤ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے۔ ان آزمائشوں کو صبر و تحمل اور توکل علی اﷲ کے ساتھ برداشت کرنا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے لیکن زندگی کی حفاظت کرنا، علاج کرنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی بہ حیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ ہے پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 97 فی صد مریض صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا پھر اس کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا۔ اس اعلیٰ منصب پر فائز کرنے کی وجہ علم تھی، علم ہی کی وجہ سے فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا۔ پھر یہ دعا بھی سکھا دی گئی کہ اﷲ تعالیٰ علم نافع دے لیکن جب انسان علم نافع کے بہ جائے نقصان دہ علم کی طرف بڑھنے لگا یعنی علم کا استعمال بنی نوع انسان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بننے لگا اور انسانی جان کے لیے مہلک ترین ہتھیاروں، بایولوجیکل ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کی ایجادات کی دوڑ میں لگ گیا۔ پھر نام نہاد سپر پاور بننے کا خواب، دنیا کی قابل تسخیر قوت اور پوری دنیا پر غلبہ پانے اور حکم رانی کی خواہش کرنے لگا تو انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہوگئی اور انسانی جانوں کے اوپر ظالم و جابر حکم ران مسلط ہوکر ظلم و بربریت، ناروا سلوک، قتل و غارت گری، عصمت دری، انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی اور ملک بدری سمیت لغت کے تمام الفاظ ناکافی لگنے لگے۔

انسان کو کسی تکلیف کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خود اس تکلیف کا شکار ہو جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے روزے دار کو غریبوں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب کشمیریوں کے نہتے معصوم شہریوں کو کرفیو لگا کر قید کردیا گیا تو پوری عالم انسانیت حتیٰ کہ کئی مسلمان حکم ران بھی خاموش تماشائی بن گئے اور ظالم و جابر حکم ران کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ ہمارے پیارے نبی آخرالزماں محمدؐ نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا، مفہوم: ’’جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور روکنے کی کوششیں نہ کریں تو اﷲ کی طرف سے عمومی عذاب اترتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد۔ حدیث نمبر 4338)

اب مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں پوری انسانیت خصوصی طور پر ملت اسلامیہ اپنا محاسبہ خود کرے کہ کیا ایسا ہی نہیں ہوا کہ خالق کائنات نے ایک چھوٹے سے جرثومے سے غفلت میں ڈوبی دنیا کو بیدار کردیا اور ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی سے بڑی طاقتوں کو زیر اور بے بس کردیا۔ ترقی کا سارا غرور خاک میں ملا دیا، بڑے سے بڑے سائنس دان اور ان کے جدید طبی آلات و ادویات سب بے سود نظر آتی ہیں اور اب خود ہی پوری دنیا نے کرفیو لگا کر اپنے آپ کو مقید کردیا۔ نہ اس کورونا وائرس کی ابتداء کا پتا نہ انتہا کا اور نہ ہی انجام کا۔ تمام بنی نوع انسان اس کی تباہی کا شکار ہوگئی۔ پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج انسان کی حیثیت جانور سے بھی بدتر ہوگئی ہے کہ وہ تو آزاد بغیر متاثر ہوئے پھر رہے ہیں اور انسان جس کو اﷲ تعالیٰ نے عقل و شعور اور علم کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا آج اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مظلوم و مقید ہوگیا ہے۔

اس چھوٹے سے ان دیکھے جرثومے نے گنجان آباد شہروں کو بے رونق و ساکت کردیا۔ نہ اونچی اونچی عمارتیں محفوظ نہ مضبوط سے مضبوط قلعے و محل محفوظ۔ ترقی یافتہ انسان بھی ساکت و بے بس ہو گیا۔ قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے ہی گناہ تھے۔ قرآن میں ان کے بارے میں فرمان ہے، مفہوم:

’’پھر ہم نے، ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی تھی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے پانی میں غرق کردیا۔ اﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ اور شرک) کرتے تھے۔‘‘

سورۃ انعام آیت نمبر 48 مفہوم درج کیا جاتا ہے: ’’اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ان کو عذاب اس وجہ سے پہنچے گا کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘

یعنی جب اﷲ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جانے لگتا ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہمارا پہناوا، رہن سہن کے طریقے اور شادی بیاہ کی رسومات سب کچھ تو خلاف شرع ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ یعنی امربالمعروف و نہی عن المنکر سے بھی ہم غافل ہوچکے ہیں۔ معاشرے میں بے حیائی عام ہوچکی ہے۔ عفت و حیا اسلامی اخلاق کی بنیادی صفت میں سے ہے جیسا کہ سرور کائنات نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا سے ہے۔‘‘

ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تُو حیا کھو دے تو جو مرضی میں آئے کر۔‘‘ یعنی حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔ اور انسان وحشی درندے کی مانند ہو جاتا ہے۔ حیا کا ہی تقاضا ہے کہ انسان اپنے منہ کو فحش باتوں سے پاک رکھے اور بے حیائی کی بات زبان پر نہ رکھے۔ اب ہمارے لیے یہ نعرہ لمحہ فکریہ ہے جس کا گزشتہ دنوں بڑا چرچا تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہنے والے ہمارا خالق و مالک اﷲ ہے اسی کی مرضی اور حکم چلے گا ہماری کیا مجال اور بساط کے ہم منہ سے ایسی فحش بات نکالیں؟ یہ سراسر اﷲ کی حدود کو توڑنا ہی تو ہے۔

حضور پاکؐ نے 14 سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا، مفہوم: ’’جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ ان پر ایسی بیماریاں مسلط فرماتے ہیں جس کا تصور ان کے اسلاف میں نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ 4019)

ہمارے حالات میں ہمارے اعمال کا ضرور دخل ہوتا ہے۔ سورۃ انعام آیت 65 مفہوم: ’’کہو وہ اﷲ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔‘‘

مذکورہ آیات کا مفہوم تو آج کل کے حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ یہ اﷲ کا عذاب ہی تو ہے جو ایک چھوٹے سے جرثومے سے ہمارے ہی قدموں کے نیچے سے پھیل رہا ہے۔ پھر پوری دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مہلک ترین ہتھیار بنانے میں پوری طاقت و توانائی صرف کر رہے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہمارے گناہوں پر غالب ہے وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر مایوسی کفر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے حقیقی مالک و آقا کی طرف پلٹ آئیں۔ شاید ہمارا مالک و آقا ہم سے ناراض ہوگیا ہے۔ یہ عذاب کسی کے لیے سخت بے چینی تو کسی کے لیے اﷲ کی طرف رجوع ہونے، توبہ و استغفار کرنے، خالق کی قربت اختیار کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرکے ثواب کمانے کا ذریعہ ہے۔

خالق کائنات تو قرآن پاک میں جگہ جگہ دعوت دیتا ہے کہ میرے بندوں میری طرف رجوع کرلو کہ میں معاف کروں۔

سورۃ انعام کی آیت کا مفہوم: ’’جو شخص تم میں سے بُرا کام جہالت سے کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو اﷲ کی یہ شان ہے کہ وہ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

ہم سب کو اس مصیبت کی گھڑی میں خلوص دل کے ساتھ توبہ استغفار زیادہ سے زیادہ کریں، اپنی اصلاح کریں پختہ عزم کے ساتھ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ بے شک صدقہ و خیرات بلاؤں کو آزمائشوں کو ختم کردیتا ہے۔ آج ہمیں اپنے ارد گرد کے سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے۔ ان کی مدد بالکل اسی طرح سے کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتا بھی نہ چلے۔ مخلوق کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا کنبہ کہا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے کنبے کی جس قدر ممکن ہو مدد کیجیے یہ وقت ہے نیکیاں کمانے کا حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

یااﷲ! ہم نے تیری حدود کو پامال کیا، ہم اقرار کرتے ہیں، ہم نادم ہیں، ہم تجھ ہی سے رجوع کرتے ہیں، یااﷲ! ہمیں معاف کردے، ہم سے راضی ہو جا، ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ارحم الرحمین! اپنی قدرت کاملہ سے ہم سب کی حفاظت فرمادے، اے عرشِ عظیم کے مالک! جو بیمار ہیں ان کو صحت کاملہ عطا فرمادے۔ ہم تیرے کن فیکون کہنے کا انتظار کر رہے ہیں بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔