عالمگیر وبا اور ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘

شاہد افراز  اتوار 3 مئ 2020
کیا عالمگیر وبا کے بعد دنیا کےلیے پوسٹ کووڈ۔ 19 نیو ورلڈ آرڈر ثابت ہوگا؟ (فوٹو: فائل)

کیا عالمگیر وبا کے بعد دنیا کےلیے پوسٹ کووڈ۔ 19 نیو ورلڈ آرڈر ثابت ہوگا؟ (فوٹو: فائل)

سفارتکاری کے میدان میں شہرہ آفاق عالمی شخصیت، سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر کے مطابق عالمگیر وبا کووڈ۔ 19 کے بعد کی دنیا ایک ’’مختلف‘‘ دنیا ہوگی اور موجودہ ’’ورلڈ آرڈر‘‘ تبدیل ہوجائے گا۔ اگر ناول کورونا وائرس کی موجودہ تباہ کاریوں کو دیکھا جائے تو اُن کا یہ بیان حقائق کی روشنی میں بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔

اس وقت عالمگیر وبا عمر، جنس، امیری، غریبی میں تفریق کیے بغیر ہر ایک کونشانہ بنا رہی ہے اور سماج و معیشت دونوں ہی اس کےنشانے پر ہیں۔ وبا کی سنگینی کو بلاشبہ دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں صحت عامہ کے موضوع کو اس وقت کلیدی اہمیت حاصل ہوچکی ہے، جسے ماضی میں نظر انداز کیا گیا اور خمیازہ آج بھگتا جارہا ہے۔

ترقی یافتہ یورپی ممالک بالخصوص اٹلی، اسپین، جرمنی اور فرانس میں چند حلقوں کی جانب سے یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ اگر کھلاڑیوں کو ماہانہ لاکھوں ڈالرز دیے جاسکتے ہیں تو تحقیق سے وابستہ ماہرین اور محققین کو کیوں نہیں؟ ناول کورونا وائرس سے دنیا نے ایک سبق تو ضرور سیکھا کہ صحت عامہ کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ زندگی کے ساتھ ہی معیشت کا پہیہ بھی چلتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ٹریلین ڈالرز صرف لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کےلیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

امریکا کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں دیگر دنیا کی نسبت سب سے زیادہ وسائل صحت کے شعبے پر صرف کیے جاتے ہیں لیکن کورونا وائرس کے سامنے امریکا بے بس نظر آیا، بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ عرصے میں تواتر سے سامنے آنے والے ’’مضحکہ خیز‘‘ بیانات سے تو لگتا ہے کہ امریکی قیادت ’’بوکھلاہٹ‘‘ کا شکار ہے۔ امریکی حلقوں کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ پر تساہلی اور انسداد وبا کےلیے ناکافی اقدامات کے شکوے سامنے آئے۔ صدر ٹرمپ اپنا غصہ چین، ڈبلیو ایچ او، اپنی سیاسی حریف ڈیمو کریٹک پارٹی اور امریکی میڈیا پر نکالتے نظر آئے۔

ماہرین بھی متفق ہیں کہ کووڈ۔ 19 نے عالمگیر سطح پر اس وقت ایک ایسا بحران پیدا کردیا ہے جس کے معیشت، سماج اور دنیا کے موجودہ نظام پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمگیریت کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے متعلق بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایک جانب عالمگیریت کو پوری دنیا میں وبا کے پھیلاؤ کا باعث قرار دیا جارہا ہے، تو دوسری جانب اسی عالمگیریت کی بدولت ہی ممالک ایک دوسرے کی امداد اور تعاون بھی کر رہے ہیں۔ لیکن وبائی صورتحال کے بعد عالمگیریت کیا شکل اختیار کرتی ہے، یہ نکتہ اہم ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں طبی حفاظتی سامان سمیت دیگر صنعتوں سے متعلق بھی ممالک کا ایک دوسرے پر دارومدار مزید واضح ہوا ہے۔ وبا کے باعث یہ چیز دیکھنے میں آئی کہ ہر ملک کی کوشش رہی کہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہی دیگر ممالک کی امداد کی جائے۔ چین نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا اور وبا پر موثر طور پر قابو پاتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو امدادی سازوسامان فراہم کیا۔ اس سب کے باوجود امریکا، برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی طبی حفاظتی سامان کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آئی۔

برطانیہ میں تو یہ مسئلہ کافی شدت سے سامنے آیا۔ ماسک، وینٹی لیٹرز سمیت دیگر طبی آلات کی کمی نے اکثر ممالک کی انسداد وبا سے متعلق تیاریوں پر بھی سوالیہ نشانات اٹھائے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ناول کورونا وائرس کے خلاف کامیابی کے بعد اکثریتی ممالک بالخصوص مغربی ترقی یافتہ ممالک بیرونی وسائل کے بجائے اپنے ملکی وسائل کی بہتری پر توجہ دیں گے اور خودکفالت کی جستجو کی جائے گی۔

صنعتوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی ترقی بھی کلیدی اہمیت اختیار کرے گی۔ حالیہ عرصے میں چین نے انسداد وبا کےلیے کامیابی کے ساتھ 5G، ڈرون، روبوٹکس، بگ ڈیٹا اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا اور بہترین نتائج حاصل کیے۔ اس ضمن میں دنیا بھر میں صحت عامہ کے شعبے کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا پوسٹ کووڈ۔ 19 دور میں ممالک کی سرفہرست ترجیح ہوگی، لیکن یہاں بھی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کےلیے ہائی ٹیک پر کنٹرول اہم عنصر ہے۔ دنیا بھر میں بگ ڈیٹا کی مدد سے وسیع پیمانے پر افرادی ڈیٹا اکھٹا کیا گیا ہے تاکہ وبا کی روک تھام و کنٹرول ممکن ہوسکے۔ اس ڈیٹا کا تحفظ بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے اور اکثر حلقوں کی جانب سے ابھی سے ’’پرائیویسی‘‘ سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ صحت کے ساتھ معیشت کو بھی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کا رحجان مزید فروغ پائے گا اور ڈیجیٹل معیشت کو ترقی دی جائے گا۔

کووڈ۔ 19 کے باعث دنیا بھر میں جغرافیائی سیاست کے مختلف پہلو بھی غورطلب ہیں۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ایسے ممالک کےلیے کسی دھچکے سے کم نہیں جن کی معیشت کا کلی انحصار ہی تیل کی پیداوار پر ہے۔ امریکا کا چین مخالف رویہ اور بڑھتی ہوئی الزام تراشی انسداد وبا کے عالمی تعاون کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان کھل کر عیاں ہوا ہے۔ مختلف ممالک کے عوام اس وقت مہنگائی اور شدید بے روزگاری کا سامنا کررہے ہیں۔ اقتصادی ترقی کے اشاریے جمود کا شکار ہیں۔ بدترین اقتصادی بحران سے بچنے کےلیے چند ممالک نے جزوی معاشی سرگرمیوں کی اجازت تو دے دی ہے مگر یہ اندیشہ اور خوف ضرور ہے کہ اگر وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ تنازعات سے دوچار خطوں میں گھمبیر انسانی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یورپی یونین کے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان بھی باہمی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں اور مستقبل میں یونین کے اتحاد سے متعلق بھی باتیں ہورہی ہیں۔

ایک ایسے کٹھن وقت میں جب یورپی ممالک کو وبا کے خلاف متحد ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تھا اکثر یورپی ممالک نے ایک دوسرے کےلیےاپنی سرحدیں بند کردیں اور طبی وسائل تک ایک دوسرے کو فراہم نہیں کیے گئے۔ اٹلی، اسپین سمیت دیگر یورپی ممالک، یورپی یونین سے بروقت امداد حاصل نہیں کرسکے۔ لہٰذا اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ وبا کے بعد یورپی وحدت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

ناول کورونا وائرس کی وبائی صورتحال کے باعث مختلف ممالک میں قیادت کی آزمائش بھی ہوئی ہے۔ چین سمیت ایسے ممالک جہاں اعلیٰ قیادت کی جانب سے بروقت، طاقتور اور سخت اقدامات اپنائے گئے وہاں صورتحال بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن جہاں کمزور قیادت، سیاسی اختلافات آڑے آئے وہاں صورتحال بدستور سنگین ہے۔

دنیا میں پوسٹ کووڈ۔ 19 نیو ورلڈ آرڈر جو بھی ہو، مگر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ نئی دنیا میں انسانی جانوں کے تحفظ کو شاید وہ اہمیت ضرور حاصل ہوگی جسے ماضی میں نظر انداز کیا گیا۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے:

ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت
دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد افراز

شاہد افراز

شاہد افراز خان مستقل بنیادوں پر بطور سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان اسلام آ باد سے وابستہ ہیں جبکہ آ ج کل چائنا ریڈیو انٹر نیشنل بیجنگ کی اردو سروس میں بحیثیت غیر ملکی ماہر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے @shahidafraz

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔