وائرس زدہ معاشرہ

شہاب احمد خان  منگل 5 مئ 2020
ملک کو کورونا سے زیادہ موقع پرستی کا وائرس نقصان پہنچا رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملک کو کورونا سے زیادہ موقع پرستی کا وائرس نقصان پہنچا رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم ایک وائرس زدہ معاشرہ میں زندہ ہیں۔ یہ کوئی فلمی یا ڈرامائی جملہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ یہ کورونا وائرس کی بات نہیں ہورہی، بلکہ موقع پرستی کے وائرس کی بات ہورہی ہے۔ یہ بات سمجھنے کےلیے کچھ باتوں کا بیان کرنا ضروری ہے تاکہ بات پڑھنے والوں کی سمجھ میں آجائے۔

ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اتنے ماہر موقع پرست ہیں جو ہر قسم کی صورت حال کو اپنے لیے ایک ایسی اپرچونیٹی میں تبدیل کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جو آخرکار ان کی خوشحالی اور دولت میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان غریب و نادار لوگوں کے نام پر کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی وبا یا مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں۔ یہ مواقع ان کو ہماری جمہوری حکومتیں ہی مہیا کرتی ہیں۔

سب سے پہلے تو آج تک مجھ جیسے عام ووٹر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکی کہ آخر ہر قسم کے دباؤ، دھونس و دھمکی کا سامنا کرتے ہوئے تبدیلی کےلیے ووٹ دینے والوں کو کوئی تبدیلی ہمارے ملک میں نظر کیوں نہیں آتی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے انقلابی جب حکومت میں آتے ہیں تو انہیں کیا ایسی مجبوریاں درپیش ہوتی ہیں جن کی وجہ سے نہ وہ اپنی کابینہ میں قابل لوگوں کو جگہ دے پاتے ہیں نہ ہی اپنی کابینہ کو مختصر رکھ پاتے ہیں۔ اس پر ایک ظلم اس قوم پر یہ ہوتا ہے کہ کئی ایک غیر منتخب اور غیر ملکی افراد بھی بطور مشیر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج ہمارے مشیر صحت کی کارکردگی کی اگر بات کی جائے تو قوم کو کوئی ایسی کارکردگی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے ان کی تعیناتی درست ثابت کی جاسکے۔ انہوں نے ایسا کیا مشوره حکومت کو دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پالیا گیا ہو۔ لاک ڈاون تو چین نے کیا تھا جس کی دیکھا دیکھی اب ہر ملک یہی طریقہ اس وائرس سے نمٹنے کےلیے اپنا رہا ہے۔ مشیر کا عہدہ ایک وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی لوٹ مار اور کھانے پینے کے وہی مواقعے ان مشیر صاحب کو بھی حاصل ہوتے ہیں جو کہ ایک وزیر کو ہوتے ہیں۔

اس پر ہر جمہوری حکومت میں ایک آدھ مسخرہ وزیر بھی ضروری ہوتا ہے۔ شاید حکومت میں آنے کے بعد ہمارا ہر حکمران خود کو اکبر اعظم سمجھنے لگتا ہے، جس کےلیے ایک بیربل کا دربار میں ہونا ضروری ہو۔ یہ بیربل کیسا ہی مسخرہ پن کیوں نہ دکھائے، انہیں ان کے عہدے سے کوئی نہیں ہٹا سکتا، زیادہ سے زیادہ محکمہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر اسے بنادیا جاتا ہے جو سائنس کی ابجد سے بھی ناواقف ہو۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہی کیوں نہ آجائے، صرف چند خاندان ہی حکومت کررہے ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں ہم اپنے اصل موضوع کی طرف۔ کورونا وائرس جب سے اس ملک میں آیا ہے دولت مند افراد کےلیے یہ ایک اپرچونیٹی بن گیا ہے۔ غریبوں کی روزی روٹی کو بچانے اور ان کو روزگار پر برقرار رکھنے کےلیے جتنے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں وہ صرف اور صرف دولت مندوں کو ہی فائدہ پہنچارہے ہیں۔

سب سے پہلے تو اسٹیٹ بینک انڈسٹری کے مالکان کو اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کےلیے ایک قرضوں کی اسکیم لایا، جس میں شاید انڈسٹری کو بلا سود قرض دیا جارہا ہے۔ جس کی ادائیگی بھی کئی سال میں کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف کئی ایک ایسی انڈسٹریز ہیں جن کو را مٹیریل کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس کی مثال کچھ کھانے پینے کی اشیا بنانے والی انڈسٹریز ہیں جنہیں ان کی امپورٹ پر ادا کی جانے والی دو پرسینٹ کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ کہنے کو تو صرف یہ دو پرسینٹ کی چھوٹ ہے لیکن عام لوگ نہیں جانتے کہ ان کی ایک امپورٹ کنسائنمنٹ پر تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ سے ساڑھے چھ لاکھ تک یہ ڈیوٹی بنتی تھی۔ اب اگر ایک انڈسٹری مہینے کے پانچ سے دس کنسائنمنٹ منگواتی تھی تو اسے بیٹھے بٹھائے کم از کم اٹھائیس لاکھ سے چھپن لاکھ کا فائدہ ہوگیا۔ یہ فائدہ وہ عام صارف کو منتقل نہیں کریں گے بلکہ ڈالر کے مہنگا ہونے کو جواز بنا کر اپنی پروڈکٹ کی قیمت کو اور بڑھا دیں گے۔ ایک طرف تو انڈسٹری کے مالکان یہ تمام سہولیات سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں، دوسری طرف انڈسٹری کے ملازمین کو برطرف کرنے کی خبریں بھی تواتر سے آرہی ہیں۔

حکومت نے شرح سود میں ایک مہینے کے دوران تقریباً ساڑھے چار فیصد کمی کردی ہے۔ اب ہمارے ملک میں کون غریب بینکوں سے قرضہ لیتا ہے۔ یہ بھی امیروں کو ہی فائدہ دینے کی ایک کوشش ہے۔ وہ سفید پوش لوگ جنہوں نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلیے کریڈٹ کارڈ بنوا رکھے ہیں انہیں تو بینک باقاعدہ پیغام بھیج رہے ہیں کہ اپنی واجب الادا رقم جلد از جلد ادا کردیں ورنہ سود بھی دینا پڑے گا۔ اور جو لوگ یہ کارڈ استمعال کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ پر سود تین فیصد ماہانہ کے حساب سے لیا جاتا ہے یعنی چھتیس فیصد سالانہ۔

دوسری طرف عوام کے سر پر احسان عظیم کرتے ہوئے ایسے بجلی کے بلوں کی ادائیگی دو مہینے کےلیے موخر کردی گئی ہے جو صارف تین سو یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔ اب یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیٹیگری میں صرف چند لوگ ہی آتے ہیں۔ کچی آبادیوں میں تو کنڈا سسٹم رائج ہے۔ اس لیے انہیں اس سہولت کی ضرورت نہیں۔ ایک متوسط گھر میں بھی تین سو یونٹ سے زیادہ ہی بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اس لیے متوسط طبقہ اس سہولت سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ اپنے بجلی کے بل کو قابو میں رکھنا جانتے ہیں، انہیں اس سہولت میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ اپنے بل سے کہیں زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔

اس موقعے کا فائدہ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ مزہ دوبالا کرنے کےلیے تعمیراتی صنعت کو تقریباً ٹیکس فری کردیا گیا ہے۔ اب عام لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ تعمیراتی صنعت کا اس قسم کی ایزی منی سے براہ راست کیا تعلق ہے۔ ہمارے یہاں جو لوگ تھوڑی بہت پراپرٹی کی خرید و فروخت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر انویسٹمنٹ کا رخ پراپرٹی کی طرف ہوجائے تو پراپرٹی کی قیمتیں تقریباً روزانہ کے حساب سے بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ کراچی میں تو ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب پراپرٹی ڈیلرز خریداروں کو بتایا کرتے تھے کہ آپ نے اگر کوئی پلاٹ یا مکان خریدنا ہے تو ابھی جو قیمت آپ کو بتائی جارہی ہے وہ اسی وقت کےلیے ہے۔ اگر آپ نے سوچ بچار میں دو گھنٹے بھی لے لیے تو قیمت دوبارہ سے متعین ہوگی۔ اگر اب بھی کوئی نہیں سمجھا تو اس کو آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اب جو لوگ بھی کورونا کی بنیاد پر حکومت کی ان اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں گے وہ غریبوں کے نام پر بینکوں سے قرضہ لے کر سیدھا پراپرٹی میں انویسٹ کریں گے۔ غریب کو تنخواہ دینے کےلیے ان کے پاس ویسے ہی بہت پیسے ہیں۔ جو وہ رلا رلا کر اور عوام کے سر پر احسان رکھ کر دے دیں گے۔

اگر پھر دوبارہ وہی دور واپس آجاتا ہے، جس کی قوی امید ہے، تو ایک کروڑ انویسٹ کرنے والے سرمایہ دار کی رقم چند ماہ میں ہی دس گنا ہوجائے گی۔ ہماری معصوم حکومت تو عوام کو یہ بتارہی ہے کہ پراپرٹی میں کی جانے والی انویسٹمنٹ کا کوئی سورس اس لیے نہیں پوچھا جائے گا تاکہ باہر پڑا ہوا کالا دھن واپس پاکستان آجائے۔ کالا دھن کمانے والے خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر باہر پڑی ہوئی دولت واپس اپنے ملک میں لے کر آگئے اور کسی سرپھرے حکمران یا چیف جسٹس کو کوئی نیا ایمان داری کا بخار چڑھ گیا تو کمائی ہوئی دولت کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔ یوں بھی جب اتنی ایزی منی ویسے ہی میسر ہو تو باہر سے دولت لانے کی کیا ضرورت۔ کالا دھن آسانی سے سفید کرنے کی مثلث پوری ہی اس وقت ہوتی ہے جب پراپرٹی میں انویسٹمنٹ کو بالکل کھلا ہاتھ دے دیا جائے۔

دوسری طرف غریب عوام کو ریلیف دینے کےلیے حکومت اربوں روپے کے فنڈ بھی جاری کررہی ہے۔ جو کہ بقول حکومت شفاف طریقے سے غریبوں میں تقسیم بھی ہورہے ہیں۔ یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی غریب کا شناختی کارڈ کا نمبر استعمال کرتے ہوئے بےتحاشا دولت ملک سے باہر بھجوانا ہمارے سیاستدانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غریب کو تو پتا ہی اس وقت چلا تھا کہ بے تحاشا رقوم اس کے اکاؤنٹ سے منتقل ہوئی ہیں، جب ایف آئی اے والے اسے اٹھا کر لے گئے تھے۔ بے نامی اکاؤنٹ کیس ابھی بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

جب سے کورونا اس ملک میں پھیلا ہے اس وقت سے میں نے ایک سوال اکثر لوگوں سے کیا ہے۔ کیا ان کے جاننے والوں میں، رشتے داروں میں، جاننے والوں کے جاننے والوں میں کوئی کورونا کا مریض ہے۔ اس بات کا جواب آج تک مجھے اثبات میں نہیں ملا۔ ہر شخص نے یہی کہا پتا نہیں کسے کورونا ہوا ہے۔ بالکل یہی صورت حال اس حکومت کے جانے کے بعد ان لوگوں کو ڈھونڈنے میں بھی پیش آئے گی جنہیں حکومت نے امداد دی ہے۔ اس وقت بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہہ سکے کہ اسے حکومت کی طرف سے امداد ملی تھی۔ حالانکہ ہر شخص کا شناختی کارڈ نمبر بھی استعمال ہوا ہوگا۔ ہمارے سیاست دان اس قسم کے جادو دکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔

پچھلی حکومت میں بھی کچھ ایسے سیاست دان موجود تھے جن کے والد کے انتقال کے وقت ان کا جنازہ چندے سے کیا گیا تھا۔ لیکن جب وہ حکومت میں آئے تو اب وہ ارب پتیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی دولت ان کے پاس کہاں سے آئی، یہ پوچھنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس حکومت میں شامل وزرا بھی ان ہی اسکیموں کی وجہ سے کل کے ارب پتی کہلائیں گے۔

اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان چھوٹے دکانداروں اور کاروباری طبقے کا ہورہا ہے۔ نہ انہیں کاروبار کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے، نہ ہی ان کی کوئی اور مدد کی جارہی ہے۔ کراچی کے تاجروں کا رمضان کا سیزن برباد کردیا گیا ہے۔ کورونا سندھ میں ایک سیاسی ہتھیار بن گیا ہے۔ وفاقی حکومت جب بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی بات کرتی ہے سندھ حکومت کورونا کی وبا کو اور ہوا دینا شروع کردیتی ہے۔ جب بھی کمیٹی کا اجلاس لاک ڈاؤن ختم کرنے کےلیے ہونے والا ہوتا ہے اس سے ایک دن پہلے کراچی میں وبا کے زور میں اضافے کی خبریں سندھ گورنمنٹ کی طرف سے اڑانی شروع کردی جاتی ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ میں کورونا صرف کراچی میں ہی زور پکڑتا ہے۔ سندھ کے کسی اور شہر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی کے علاوہ کسی اور شہر کو بند کرنے سے وفاق پر کوئی پریشر نہیں پڑتا۔ یہاں سندھ حکومت وہی تکنیک حکومت کے خلاف استعمال کررہی ہے جو کہ متحدہ الطاف حسین کے دور میں ہڑتالوں کے ذریعے استعمال کرتی تھی۔ انہیں بھی اپنے بابائے جمہوریت کو کچھ ریلیف دلانا ہے، جس کا آسان سا طریقہ خود کورونا نے انہیں دے دیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ہوتے ہوئے وفاق کے پاس صرف دو ہی آپشن بچتے ہیں۔ یا تو سندھ حکومت کے ان کہے مطالبات مان لے یا پھر سندھ میں گورنر راج لگادے۔ دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی فائدے میں رہے گی۔ اگر بابائے جمہوریت کو ریلیف مل گیا تو وارے نیارے یا اگر گورنر راج تو شہید جمہوریت کا ٹائٹل اپنا ہوا۔

اس تمام صورت حال میں غریب کو اس مقام پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں اسے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کےلیے اب شاید اپنے جسمانی اعضا ہی فروخت کرنے پڑیں گے۔

حالانکہ اس صورت حال سے نمٹنے کا بہت آسان سا طریقہ اختیار کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے ملک میں تمام درمیانے اور بڑے درجے کی انڈسٹریز کے ملازمین کو گروپ انشورنس کی سہولت میسر ہے۔ گورنمنٹ صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر سے تمام انشورنس کمپنیوں کو پابند کرسکتی تھی کہ وہ ہر انڈسٹری کے ملازم کا کورونا ٹیسٹ کا خرچ اٹھائے۔ حکومت کو صرف ٹیسٹنگ کٹس مہیا کرنی ہوتیں۔ اگر ہر ملازم کا ٹیسٹ ہوجاتا اور جتنے ملازم تندرست پائے جاتے انہیں کام کرنے کی اجازت ہوتی۔ نہ انڈسٹریز پر تالے لگانے پڑتے نہ ہی معیشت اتنی تباہ ہوتی۔ ہماری انشورنس کمپنیاں اربوں روپے گروپ انشورنس پریمیئم کی مد میں انڈسٹریز سے حاصل کرتی ہیں۔ شاذ و نادر ہی کبھی کسی ملازم کا انتقال ہو تو انہیں اس کا کلیم ادا کرنا ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ حکومت تمام انڈسٹریز کو یہ سہولت دے سکتی تھی کہ جو انڈسٹریز اپنے ملازمین کو کام نہ ہونے کے باوجود تنخواہیں دے رہی ہیں وہ تمام رقم ان کا ایڈوانس انکم ٹیکس تصور کیا جائے گا، جو کہ وہ مرحلہ وار کلیم بھی کرسکیں گے۔ اس طرح نہ حکومت کو بے تحاشا قرضے لینے کی ضرورت پڑتی نہ ہی غریب اس حال کو پہنچتا۔ لیکن ایسا سوچنا بھی ہمارے سیاست دانوں کےلیے ممکن نہیں۔ کیونکہ اس طرح ان کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوتا۔

الله تعالیٰ ہمیں بھی اب کوئی حقیقی رہنما عطا فرمائے جو واقعی غریبوں کا درد محسوس کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔