فطرت کا حسن نکھار پرندوں کی نسل معدوم ہونے لگی

نامہ نگار  پير 4 مئ 2020
کھپرو: صحرائی علاقے کے پرندے جن کا شکار کیے جانے کے باعث نسلیں معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔  فوٹو : ایکسپریس

کھپرو: صحرائی علاقے کے پرندے جن کا شکار کیے جانے کے باعث نسلیں معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

کھپرو:  فطرت کا حسن نکھار پرندے شکاریوں کے زد میں، مور، طوطا، مینا، فاختہ، چڑیا، تیتر، کونج، تلور، کبوتر کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا، نایاب نسل کے پرندے ماضی کا قصہ بن گئے۔

وائلڈ لائف سمیت دیگر اداروں کی نا اہلی سے پرندوں اور جانورں کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جا سکی۔ اچھڑو تھر میں پائے جانے والی ہن کھن اور بچھوؤں کو بھی پیسوں کے لالچ میں لوگوں نے پکڑ کر منڈیاں سجا لیں۔ تیتر بھی بااثر وڈیروں نے شکار کر ڈالے۔ اچھڑو تھر سمیت کئی علاقوں میں ماضی میں لاتعداد تیتر میٹھی بولی بول کر بارش کی صدائیں لگاتے تھے۔

برساتی فصل مونگ اور گندم سیزن میں زمینوں میں بسیرا کرنے والے تیتروں کے بچوں کا بھی باہر سے آتے مہمانوں اور سیاسی رہنماؤں نے شکار کر ڈالا ۔جس کی وجہ سے سفید اور کالے تیتر اب کسی وڈیرے کی اوطاق کے پنجرے کی زینت بن چکے ہیں۔ خوبصورت پرندے مور رانی کھیت بیماری کی نذر ہوگئے۔ بارشوں میں موروں کا ناچ بھی اب شاید قصہ پارینہ بن جائے۔ سندھ کی خوبصورتی ہرے طوطے بھی ناپید ہو گئے۔

طوطوں کی نسل کشی کی سب سے بڑی وجہ بڑے شہروں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، سمیت دیگر شہروں میں جھوٹے بچوں کو پکڑ کر مہنگے داموں بیچنا بھی ہے ۔ یہ طوطے بڑے افسروں اور سیاست دانوں کو بطور تحفہ بھی دیا جاتا ہے جن کے بچے ان طوطو ں کو قید کر کے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔

ایسے طوطوں کی نسل کشی پر بھی حکومت سمیت وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ خاموش ہیں۔ صبح کا پیغام دینے والے چڑیا اور فاختہ بھی اب نایاب ہیں ۔ حکیموں کے نسخوں پر مردانہ طاقت کے لیے لوگوں نے چڑیابھی پکڑ کا کھا ڈالی۔ دوسری جانب فاختہ جیسے جھوٹے پرندوں کو بھی شکاریوں نے پکڑا کر مارکیٹ میں بیچنا شروع کر دیا ہے۔ سندھ سمیت پورے ملک میں نایاب پرندوں کی نسل کشی پر حکومت کا خاموش ہونا لمحہ فکریہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔