احفاظ الرحمان: مقصدیت کا علم بردار شاعر

مبین مرزا  بدھ 6 مئ 2020
شاعری احفاظ الرحمان کےلیے تفریح طبع کا سامان کبھی نہیں رہی، بلکہ وہ مقصدیت کی علم بردار ہے۔ (فوٹو: فائل)

شاعری احفاظ الرحمان کےلیے تفریح طبع کا سامان کبھی نہیں رہی، بلکہ وہ مقصدیت کی علم بردار ہے۔ (فوٹو: فائل)

احفاظ الرحمان اب ہم میں نہیں رہے۔ ایک بے باک و نڈر صحافی، بہادر لیڈر، اعلیٰ پایہ کا لکھاری اور نفیس شخص اس فانی دنیا سے ہمیشہ کےلیے منہ موڑ گیا لیکن اس کے لکھے حروف اسے زندہ رکھیں گے، اس کی جدوجہد تھمے گی نہیں اور اس کی شاعری کسی بھی دور میں غیر متعلقہ نہیں ہوگی۔

شاعری احفاظ الرحمان کےلیے تفریح طبع کا سامان کبھی نہیں رہی، بلکہ وہ مقصدیت کی علم بردار ہے۔ اس لیے ان کے یہاں شاعری محض جذبات کی فراوانی کے اظہار سے عبارت نہیں اور نہ ہی اس کا مقصود یہ ہے کہ قاری کے جذبے کو روانی سے ہم کنار کرے۔ اس کے برعکس یہ شاعری ایک ایسے شخص کے ذہنی عمل کو سامنے لاتی ہے جو اپنے عہد کی صورت حال کے پیش نظر سوالوں سے دوچار ہے۔ وہ انسانوں کے بارے میں، ان کے بدلتے ہوئے رویوں کے بارے میں، سماجی اور اخلاقی قدروں کے بارے میں تشویش کا شکار ہے۔ وہ اپنی الجھن کا اظہار کرتا ہے، لیکن وہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے، قوموں اور معاشروں کی زندگی میں آزمائش کے دن بھی آتے ہیں۔ سماجی ٹوٹ پھوٹ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ایسے میں ادیب شاعر ہی سب سے پہلے حالات کی کروٹ کو محسوس کرتے اور اپنے کردار کا تعین کرتے ہیں۔

وقت کے اس مرحلے پر ان کا کردار دہری ذمہ داری کا حامل ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے بارے میں انتباہ کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ معاشرے کی آنکھوں میں خواب اور دل میں جذبے کی روشنی کو بھی ماند نہیں پڑنے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ محبت اور خواب کے بغیر افراد ہی نہیں معاشرے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ محبت کی قوت اور خوابوں کا اجالا انھیں زندگی کے راستے پر آگے بڑھاتا ہے۔ ان میں قوت حیات برقرار رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ ذہن ان دونوں پر نہ صرف مرتکز رہتا ہے، بلکہ اپنے اظہار کا پیرایہ انہی دونوں عناصر سے تشکیل دیتا ہے اور انہی کو ابلاغ کی بنیاد بناتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شعر کہنا دراصل احفاظ الرحمٰن کے لیے زندگی کرنے کا عمل تھا۔

احفاظ الرحمان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے دیر تک ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی شاعرانہ کیفیت میں ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ ان کے یہاں شاعری کی اپنی کیفیت خود قدرے مختلف ہے۔ اسلوب، آہنگ، فکر، موضوع اور خود شاعر کا رویہ… غرض یہ کہ کسی بھی عنوان سے دیکھیے، یہ شاعری ان جذبات کو تحریک نہیں دیتی جو عام طور سے شاعرانہ طرز احساس سے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔

یہ تو ہوئی ایک بات، دوسری بات یہ ہے کہ اس شاعری میں موضوعات کا پھیلاؤ ایسا ہے کہ اگر پڑھنے والا خود فوکس ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو یہ شاعری سب سے پہلے اسے اپنی موضوعاتی رنگارنگی میں ہی منہمک کر لیتی ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں جو منظرنامہ ہے، وہ دراصل زندگی کا اپنا قائم کیا ہوا ہے۔ دکھ سکھ، نرمی گرمی، دھوپ چھاؤں، اونچ نیچ، اچھا برا، چھوٹا بڑا، عقل و دل، جسم و جاں، عذاب و ثواب، حقیقت و خواب، امیدیں، امنگیں، حوصلہ، جذبہ، تشویش، تکلیف، دل گیری، دل داری غرضیکہ زندگی کے کتنے ہی رنگوں کو احساس کے سانچے اور شاعری کے قالب میں یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

احفاظ الرحمان کی شاعری میں سب سے زیادہ اہمیت موضوع کی ہے۔ وہ خیال کی ترسیل کو ضروری سجھتے ہیں۔ فیض کو اسلوب و آہنگ کی داد دینے کے باوجود وہ خود براہ راست اظہار کو مقدم جانتے ہیں۔ ذرا یہ مثالیں دیکھیے:

جل گئی ہوں میں
میں اس کی آنکھ میں روشن تھی
بجھ گئی ہوں میں
میں زندہ لاش ہوں
ویران ہو گئی ہوں میں
درندو، قاتلو، آؤ مجھے بھی قتل کرو
مجھے بھی جسم کے مرگھٹ سے اب رہائی دو
(کہاں تلاش کروں)

بے کلی، بے خوابی
خواب مرتا ہے، خاک ہوتا ہے
جنگلوں سے صدائیں آتی ہیں
آسمانوں میں آگ جلتی ہے
رنگ آنکھوں سے الجھ جاتے ہیں
ایک تسلیم و رضا توشہ پاکیزگی ہے
وہم جنت کی خریداری کا سستا سودا
کوئی مجبوری سی مجبوری ہے
(لایعنیت کا طلسم)

دیکھا جائے تو یہ دراصل جدید عہد کی انسانی زندگی کا اسلوب ہے جس میں دہشت، وحشت، موت کا کھیل، بے یقینی، عدم برداشت اور لایعنیت کا احساس تہ نشیں نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے، ان موضوعات پر لہکتے ہوئے مصرعے تو تخلیق نہیں ہوں گے۔ احفاظ الرحمان کی قبیل کے شاعر زیادہ آزمائش سے گزرتے ہیں۔ پہلی تو وہی جو کروڈ کو شاعری کی سطح پر لانے سے عبارت ہے اور دوسری ہے شاعر کے اپنے انسانی اعصاب کی آزمائش۔ سوال، خیال اور ملال کی جو صورت حال کسی بھی شخص کے اعصاب کو سن کر سکتی ہے، اسے اپنے فن کے سانچے میں ڈھالنا اور اس طرح ڈھالنا کہ وہ پڑھنے والوں کے اندر سوال و خیال کو متحرک کر دے، یہ تو خود ایک اعصاب شکن کام ہے۔ ایسا تخلیقی تجربہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب شاعر صرف اپنی آواز کو زندہ نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ اپنے سماج اور اس کی انسانی قدروں کی بقا کا راستہ ادب کو بنانا چاہتا ہے۔ احفاظ الرحمان کی شاعری میں اس خواہش اور کاوش کے نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔