انقلابیوں سے گزارش

نصرت جاوید  بدھ 5 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی جوانی میں آپ کتنے ہی جی دار کیوں نہ رہے ہوں، وقت کے ساتھ ساتھ پہلے پہل ذرا محتاط اور آخرکار تقریباً بزدل بن جایا کرتے ہیں۔ میں تو ویسے بھی ایک کمزور ایمان والا شخص ہوں جسے برسوں کی محنت اور فاقہ کشی کے بعد تھوڑی سی راحت ملی ہے۔ میرا کوئی نظریہ نہیں جس کے تحفظ اور پھیلائو کے لیے اپنی بقیہ زندگی وقف کر دوں‘ سیدھا سادا رپورٹر ہوں‘ خبریں ڈھونڈتا اور رپورٹ کرتا ہوں۔

کالم لکھتے وقت بھی افلاطون بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ ٹی وی اسکرین پر بیٹھوں تو بجائے سیاپا کرنے اور پارسائی کے وعظ دینے کے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ خلق خدا کی نظروں میں آئی خبروں کو ذرا لائٹ انداز میں ان سے متعلق تمام پہلوئوں کو سامنے لاتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کے ساتھ بیان کر سکوں مگر اب کالم لکھنے اور ٹی وی پروگراموں میں نظر آنے والے لوگوں کے لیے اس ملک میں کونے میں بیٹھ کر دہی کھانا روزبروز مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پارسائوں کا ایک گروہ ہمیں شدت سے یاد دلانا شروع ہو گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آئین کے مطابق اپنے ریاستی امور چلاتا ہے۔ اس آئین میں کبھی دیباچے کے طور پر مگر آخر کار غازی ضیاء الحق شہید کی طفیل باقاعدہ حصہ بننے والی ’’قرارداد مقاصد‘‘ بھی ہے۔ اسی قرارداد کی روشنی میں آئین میں وہ آرٹیکل ڈالے گئے جو خائن، بددیانت اور اسلامی شعائر کی پابندی نہ کرنے والوں کو منتخب ایوانوں کا رکن بننے کے نااہل قرار دیتے ہیں۔

آئین پاکستان پر سختی سے عمل کرنے کی تمنا میں ہی قاضی حسین احمد اور جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین سپریم کورٹ گئے اور ہمارے ملک میں دکھائی جانے والی فحاشی اور عریانی کے خلاف داد فریاد کی۔ سپریم کورٹ نے پیمرا کو احکامات جاری کر دیے کہ وہ ایسے پروگرام روکنے کا بندوبست کریں جنھیں کوئی شریف آدمی اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ پیمرا نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہمارے ملک کے چیدہ چیدہ دانشوروں کا اجلاس بلایا۔ پہلا اجلاس اسی بات پر غور کرتا رہا کہ فحاشی اور عریانی ہوتی کیا ہے‘

اس کی تعریف مگر طے نہ ہو سکی۔ مشورہ دیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کر لیا جائے مگر اسی اجلاس کے کچھ شرکاء راضی نہ ہوئے۔ مجھے خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ بالآخر یہ کام بھی ہمارے سپریم کورٹ ہی کو کرنا پڑے گا۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کی طرح میں بھی فحاشی کی جامع تعریف اور پھر اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کے اُٹھائے جانے کا منتظر ہوں مگر گزشتہ دو تین دنوں سے مجھے اپنی جان کے خوف نے گھیر رکھا ہے۔

ایبٹ آباد کے کوئی صاحب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ’’انقلابی‘‘ بھی لگاتے ہیں۔ انھوں نے اسلام آباد میں مقیم چند سینئر صحافیوں کے فون نمبر کہیں سے ڈھونڈ نکالے ہیں۔ وہ ان سے مسلسل رابطے کرکے اصرار کر رہے ہیں کہ وہ میرے جیسے ’’یہود و ہنود کے ایجنٹوں‘‘ کی زبان و قلم کیوں نہیں روک پا رہے۔ موصوف نے جن ذرایع سے میرے سینئر دوستوں کے ٹیلی فون نمبر حاصل کیے ہیں انھی ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے وہ میرے تک رسائی بھی حاصل کر سکتے ہیں مگر انھوں نے بظاہر اس کا تردد ہی نہ کیا۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ جیسے شخص سے بات کرنا اپنی شان کے مطابق نہ سمجھتے ہوں۔ وجہ کوئی بھی رہی ہو، وہ صاحب میرے محترم دوستوں کو طویل ٹیلی فون کالوں کے ذریعے میرے گناہ گنواتے رہتے ہیں۔ اس کالم میں اتنی جگہ نہیں کہ میں ان سب گناہوں کا تذکرہ کر سکوں لیکن ’’انقلابی صاحب‘‘ میرے گناہوں میں ذکر میرے ’’گستاخ محسنِ پاکستان‘‘ ہونے کا بھی کر رہے ہیں۔

ذرا سوچئے ’’محسن پاکستان‘‘ کے پاس جو علم اور طاقت ہے اس کو جانتے ہوئے کوئی عقل کا اندھا ہی ان سے گستاخی کی جرأت کر سکتا ہے۔ میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں اس شک کا اظہار کرنا شروع ہو گیا ہوں کہ ’’محسنِ پاکستان‘‘ اپنے مقام اور مرتبے کو ایک سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ اپنی تحریروں میں وہ تواتر کے ساتھ آصف علی زرداری اور ان کے حواریوں کی حکومت سے نفرت و حقارت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ بجائے ایک دوسرے پر گند اُچھالنے کے پاکستان مسلم لیگ نواز اور عمران خان مل کر موجودہ حکومت سے جان چھڑائیں۔

کچھ دن پہلے آپ کراچی میں نائن زیرو بھی تشریف لے گئے۔ ملک کے نوجوانوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور اس پر چلانے کے لیے موصوف نے تحریکِ تحفظ پاکستان بھی بنا لی ہے۔ اب تو اس جماعت کو الیکشن کمیشن سے رجسٹر کروانے کی درخواست بھی دے دی گئی ہے۔ میں ان کی کامیابی کا تہہ دل سے خواہش مند ہوں۔

مگر آگے بڑھنے سے پہلے ’’محسنِ پاکستان‘‘ کو ذرا رک کر یاد کر لینا چاہیے کہ انھیں اتنے برسوں ان کے عہدے اور پاکستان کے عوام سے الگ کرکے نظر بند کس نے کیا تھا۔ وہ کون تھا جس نے انھیں پاکستان ٹیلی وژن پر آ کر اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا۔ مانے لیتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنے امریکی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے ’’محسنِ پاکستان‘‘ کی زندگی اجیرن کیے رکھی مگر اب تو وہ آمر خود بھی اس ملک میں آنے کی جرأت نہیں کر پا رہا۔

ہمارے ملک میں عدلیہ اب بالکل آزاد، خودمختار اور جی دار ہے۔ ’’محسنِ پاکستان‘‘ کے لیے زیادہ مناسب نہیں کہ وہ ہمیں اپنے گرانقدر خیالات سے نوازنے سے پہلے ایک باقاعدہ پٹیشن کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔ صرف اس التجا کے ساتھ کہ ان پر جھوٹے الزامات لگا کر جنرل مشرف نے انھیں کچھ ناکردہ گناہ باقاعدہ پاکستان ٹیلی وژن کی اسکرین پر آ کر اپنے سر لینے پر مجبور کیا۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔

’’محسنِ پاکستان‘‘ کی شخصیت ہمارے سامنے اور نکھر کر سامنے آ جائے گی اور ان کا نام بھی تاریخ میں رہتی دُنیا تک ان الزامات سے پاک ہو جائے گا جو جنرل مشرف اور ان کے کارندوں نے مبینہ طور پر ان کی ذات پر چپکا دیے تھے۔ بجائے میرا تعاقب کرنے کے ایبٹ آباد میں بسنے والے ’’انقلابیوں‘‘ کو ’’محسنِ پاکستان‘‘ سے گستاخیاں کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے آزاد عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ باقی سب وقت کا ضیاع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔