Legacy کی تلاش

نصرت جاوید  بدھ 4 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دس دن سے میں بہت سارے لوگوں سے بے تحاشا سوالات کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ پورے چھ برس تک پاکستان آرمی کی قیادت کرنے والے جنرل کیانی کی کوئی خاص Doctrineبھی تھی جسے ان کی Legacyکے طورپر یاد رکھا جاسکے۔ جنرل صاحب سے میری صرف 3ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ سب سے پہلی اس وقت ہوئی جب وہ ISIکے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد SAFMAکی بدولت جموں اور سری نگر میں چار دن اور پانچ راتیں گزارنے کے بعد وطن لوٹا تھا۔ اپنے اس تاریخی سفر کے دوران ہم سب نے اپنے اپنے طور پر کچھ ایسے مشاہدات اکٹھا کیے جو پاکستان کے عوام تو دور کی بات ہے شاید ہماری ریاست کے طاقتور ترین لوگوں کے علم میں بھی نہ تھے۔ طارق عزیز جو ان دنوں جنرل مشرف کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بھی ہوا کرتے تھے ان مشاہدات کو جاننے کے لیے بڑے بیتاب تھے۔ یہ خاکسار ان دنوں جنرل مشرف کے دربار میں راندۂ درگاہ شمار ہوتا تھا۔

اس کے باوجود طارق صاحب نے خود فون کرکے مجھے اپنے دفتر بلوایا۔ ان کے ساتھ ایک طویل ملاقات میں اس خواہش کا اظہار ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے صحافی آئی ایس آئی کے سربراہ سے مل کر اپنے اپنے مشاہدات اور تاثرات ان کے علم میں بھی لائیں۔ میں نے اس ضمن میں اپنی نا رسائی کا اعتراف کیا۔ پھر نہ جانے کیوں اور کس طرح جنرل کیانی سے ہماری ملاقات طے پا گئی۔ میں اس ملاقات میں زیادہ ترخاموش رہا۔ اپنے ساتھیوں کے فرمودات سنتا رہا۔ جنرل کیانی نے جس مہذب اور سنجیدہ انداز میں ہم سب کی باتیں اپنی کوئی رائے دیے بغیر سنیں وہ مجھے بہت پسند آیا۔ بعد کی دو سرسری ملاقاتیں ایک سماجی اور دوسری ایک سفارتی تقریب میں ہوئیں۔ جنرل کیانی کے چیف آف آرمی اسٹاف بن جانے کے بعد مجھے ان کے چھ برس والے دو Tenuresمیں ان سے کبھی ہاتھ ملانے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ان کے خیالات کا علم بس دوسرے لوگوں کی زبانی ہوتا رہا۔ آصف علی زرداری کے ساتھ تنہائی میں جب بھی ملاقات ہوئی انھوں نے کبھی جنرل کیانی کے بارے میں کوئی اچھا یا برا لفظ نہیں کہا۔

یوسف رضا گیلانی کے اقتدار کے آخری دنوں میں ان سے ایک ملاقات ہوئی تو انھوں نے امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کے حوالے سے اچانک یہ دعویٰ کیا کہ جنرل کیانی کے Tenureمیں 3سال Extension کی خبر واشنگٹن کے لیے حیران کن تھی۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے اسے کوئی زیادہ پسند بھی نہیں کیا تھا۔ گیلانی صاحب کا یہ فقرہ میرے لیے بہت بڑی خبر تھا۔ میں کچھ سوالات کے ذریعے اس کی تفصیل جاننا چاہتا تھا مگر ملاقات کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ اعتزاز احسن ان کے دفتر میں آچکے تھے اور انھیں سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کا دفاع کرنے کے لیے اپنے کلائنٹ سے ملنا تھا۔ گیلانی صاحب کے اس فقرے کے تناظر میں مجھے یہ دعویٰ بہت عجیب لگ رہا تھا جو کئی ایک غیر ملکی اور ملکی صحافی گزشتہ چھ مہینے سے تواتر کے ساتھ پھیلارہے تھے۔ اس دعوے کے مطابق 2014ء کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند امریکی اور یورپی سفارت کار جنرل کیانی کو کسی نہ کسی صورت 28نومبر 2013ء کے بعد بھی وردی میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔

دس دنوں کی کاوش اور بہت سی ملاقاتوں کے بعد میں اب بھی جنرل کیانی کے حوالے سے اپنے ذہن میں موجود سوالات کا کماحقہ جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔ مزید تحقیق اور سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ البتہ اس بات پر دل بہت کڑھتا ہے جب میڈیا والوں کی اکثریت تاثر کچھ یوں دیتا محسوس ہو رہی ہے کہ جنرل کیانی نے مارشل لاء نہ لگاکر اس قوم پر بہت احسان کیا۔ ’’احسان مندی‘‘ کے یہ جذبات مجھے اس وقت اور زیادہ مضحکہ خیز محسوس ہوتے ہیں جب میڈیا والے میرے یہی ساتھی بڑے جوش وخروش سے یہ اعلان بھی کرتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان اب ایک مختلف ملک ہے۔ یہاں عدلیہ آزاد اور میڈیا بہت توانا اور بے باک ہے اور جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔

جنرل کیانی کے بارے میں ابھی تک اپنی کوئی رائے نہ بناسکنے کی وجہ سے میں تھوڑا چڑچڑا ہوگیا ہوں۔ چھوٹی سی بات بھی دل میں آگ لگا دیتی ہے اور اضطراب کے اسی عالم میں پیر کی شام سے رات گئے تک میں بڑے ہی ناخوش گوار دل کے ساتھ کڑھتا رہا۔ اس شام ہمارے ایکسپریس کے کراچی دفتر پر کریکر پھینکے گئے۔ فائرنگ بھی ہوئی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہاں کام کرنے والے ساتھی محفوظ رہے مگر دہشت تو پھیلی۔ اپنے ساتھیوں کی اس دہشت کا باقی میڈیا والے ٹھوس حوالوں سے کوئی ازالہ نہیں کرسکتے۔ مگر دکھوں کی سانجھ بھی ایک شے ہوتی ہے جو آپ کے غم اور غصے کو گھٹانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ آپ کو یہ حوصلہ افزاء وہم دلاتی ہے کہ دُکھ کی گھڑی میں آپ کم از کم اکیلے نہیں ہیں۔ ظلم مگر یہ ہے کہ کسی اخبار یا ٹی وی چینل کے کسی دفتر پر کوئی حملہ ہوجائے یا اس کا کوئی رپورٹر یا کیمرہ مین پولیس گردی یا دہشت گردی کا شکار بن جائے تو اس کے اپنے ادارے کے علاوہ باقی لوگ خبر صرف اتنی دیتے ہیں کہ ایک ’’نجی ٹی وی‘‘ کے دفتر پر حملہ ہوگیا۔ کیمرہ مین یا رپورٹر بھی بغیر نام کے کسی ’’نجی ادارے‘‘ کا ملازم بناکر رپورٹ کیا جاتا ہے۔ میں نے صحافت کو ڈگری حاصل کرنے کے لیے نہیں پڑھا۔ میری نصابی تعلیم دوسرے شعبوں سے متعلق رہی ہے۔

اس لاعلمی کے باوجود کل وقتی صحافت کی طرف آنے کے پہلے روز سے مجھے میرے سینئرز نے ہمیشہ یہ سکھایا کہ کیوں، کیسے اور کون وغیرہ وغیرہ والے پانچ “Ws”ہوتے ہیں۔ کسی بھی رپورٹر کو اپنی کہانی کے ابتدائیہ (Intro)میں ان پانچوں”Ws”کا جواب دینا چاہیے اور ابتدائیہ کسی بھی طور30سے زیادہ الفاظ پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے۔ صحافت کی گویا مبادیات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ فوری خبر دیتے وقت اس بات کی واضح نشان دہی کردی جائے کہ کون سے شہر میں کس اخبار یا ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ ہوا۔ ’’نجی ادارے‘‘ کے رپورٹر یا کیمرہ مین کا ذکر بھی اس کے نام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ہم اس بنیادی اصول کو پوری سفاکی کے ساتھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ہمارے شعبے میں کوئی ایک فرد بھی اس سفاکی کے بارے میں منطقی سوالات اُٹھاکر اسے ختم کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتا نظر نہیں آرہا ۔ اپنے پیشے کے حوالے سے ایسی بے بسی میں نے کبھی اتنی شدت کے ساتھ محسوس نہیں کی اور اس بے بسی کے ہوتے ہوئے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس منہ کے ساتھ جنرل کیانی کے کسی ممکنہ Doctrineیا Legacyکی تلاش جاری رکھوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔