مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

رئیس فاطمہ  بدھ 4 دسمبر 2013

علامہ شبلی نعمانی کو کاتبوں سے بڑا گلہ تھا کہ وہ ان کے الفاظ کا حلیہ اس طرح بگاڑ دیتے ہیں کہ مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ایک بار مولانا نے خط لکھ کر نیچے اپنے دستخط کیے اور تاریخ ڈال دی۔ جسے ستم ظریف کاتب نے ’’شبلی،2، اکتوبر کو۔۔۔‘‘ ’’ستلی2 کبوتر‘‘ بنا دیا ۔۔۔ کاتبوں کے ستم سے کوئی لکھاری بھی محفوظ نہ رہا۔ البتہ کمپیوٹر آنے کے بعد یہ ستم ظریفیاں کچھ اور بڑھ گئیں۔ لیکن پہلے ہاتھ سے کتابت کرنے والے کاتب جو محض مکھی پہ مکھی مارنا جانتے تھے وہ اپنی غلطی پر شرمندہ بھی ہو جایا کرتے تھے ساتھ ہی اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے میں بھی انھیں جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج معاملہ دگر ہے۔ کمپوزنگ میں ایسی ایسی فاش غلطیاں ہونے لگی ہیں کہ بس اپنا سر پیٹتے رہ جائیے۔ مطالعے کے فقدان اور زبان نہ جاننے کی سزا لکھنے والے کو بھگتنی پڑتی ہے۔

کیونکہ آج ایک عام تاثر یہ ہے کہ کمپوزنگ کے لیے اردو جاننا ضروری نہیں۔ پروف ریڈر تو جیسے ناپید ہو گیا ہے۔ یا اس کا وجود غیر ضروری قرار دے کر ختم کر دیا گیا ہے۔ ورنہ غلطیاں تو پہلے بھی ہوا کرتی تھیں جنھیں پروف ریڈر سرخ دائرے لگا کر صحیح بھی کرتا تھا اور غلطی درست ہو جانے کے بعد بھی دوبارہ اس کو دیکھتا تھا۔ لیکن اب ان تکلفات کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ 28 نومبر کے کالم میں چند کتابوں کا تعارف کروایا گیا تھا۔ جس میں احمد زین الدین کے شخصی خاکوں کے مجموعے کا نام ’’چہرہ چہرہ کہانیاں‘‘ کے بجائے کمپیوٹر کی ستم ظریفی کی وجہ سے ’’چیدہ چیدہ کہانیاں‘‘ چھپ گیا۔۔۔ اس قسم کی وارداتیں اکثر کالم نگاروں کے ساتھ ہوتی رہتی ہیں اور وضاحت بھی انھیں خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ کالم کی ابتدا چونکہ کتاب کے حوالے سے ہوئی اس لیے چند اور کتابوں کا تعارف ضروری ہے جو کالم کی تنگ دامنی کے باعث شامل ہونے سے رہ گئی تھیں۔ یہ دونوں کتابیں ’’ادارہ یادگار غالب‘‘ نے شایع کی ہیں۔ پہلی ہے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی ’’اردو تحقیق و تدوین‘‘۔ جو اردو ادب کے محققین اور طلبہ کے لیے ایک بہترین اثاثہ ہے۔

ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا نام اور کام دونوں بلاشبہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انھوں نے زیر نظر کتاب میں تقریباً بارہ محققین کے نہایت معیاری مضامین اکٹھے کیے ہیں اور تمام کے تمام مضامین اپنی اہمیت کے اعتبار سے ایک مکمل مقالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند، ڈاکٹر خلیق انجم، ایم سلطانہ بخش اور سید معین الرحمن کے مضامین فکر و فن کے نئے پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں۔ اس سے پہلے اردو تحقیق و تدوین کی تاریخ پر کوئی ایسی جامع کتاب موجود نہیں تھی جس میں اردو کے تمام تحقیقی و تدوینی کاموں کا مختصراً بھی جائزہ لیا گیا ہو۔

دوسری کتاب ہے ’’زمانۂ تحصیل‘‘ یہ وہ روزنامچہ ہے جو عطیہ فیضی نے اپنے سفر یورپ اور قیام لندن کے دوران (1906-1907) اپنی بہن زہرا بیگم کے نام لکھے۔ جو انھوں نے ’’تہذیب نسواں‘‘ میں شایع کروائے۔ جس کی مدیرہ امتیاز علی تاج کی والدہ اور مولوی ممتاز علی کی اہلیہ محمدی بیگم تھیں۔ جو خود کئی ناولوں کی مصنفہ بھی تھیں۔ ’’زمانہ تحصیل‘‘ کو اگرچہ عطیہ فیضی نے خود سفرنامہ قرار دیا ہے لیکن اپنی ساخت اور ہیئت کے اعتبار سے اسے روزنامچہ یا ڈائری ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ یہ وہ خطوط ہیں جو باقاعدہ تاریخ وار تحریر کیے گئے ہیں۔

پہلے یہ  خطوط عطیہ فیضی کی انگریزی تصنیف ’’اقبال‘‘ کے اردو ترجمے کے ساتھ شایع ہوئے تھے۔ عطیہ کی انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ ضیاء الدین احمد برنی نے کیا تھا۔ جو آج نایاب ہے۔ ’’زمانۂ  تحصیل‘‘ عطیہ کی واحد اردو تصنیف ہے جسے علیحدہ ایک کتابی شکل میں محمد یامین عثمان نے مرتب کیا اور ادارہ یادگار غالبؔ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود شایع کیا۔ ’’زمانہ تحصیل‘‘ نہایت دلچسپ روزنامچہ ہے۔ اس سے ہمیں عطیہ فیضی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔

کالم کی ابتدا میں مطالعے اور زبان سے ناواقفیت کا شکوہ کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نثر میں محاورے کا استعمال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ نثر ہو یا شاعری محاورے کا استعمال وہی کر سکتا ہے جسے زبان پر عبور ہو، شاہد احمد دہلوی، انتظار حسین اور ڈاکٹر اسلم فرخی جیسی نثر کوئی لکھ کر تو دکھائے۔ محاورہ دراصل دریا کو کوزے میں بند کر دینے کا نام ہے۔ یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ جس طرح نگینوں کے جڑنے سے زیور خوبصورت اور وقیع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح محاورے کی بندش بھی نثر کو پر اثر اور خوبصورت بناتی ہے۔ متذکرہ بالا تینوں قابل احترام شخصیات کی نثر پڑھتے جائیے اور زبان کا مزہ لیتے جائیے۔ شاہد صاحب اور اسلم فرخی صاحب کے شخصی خاکے ہوں یا انتظار حسین صاحب کے کالم، ناول اور سفر نامے، ہر جگہ محاورہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ خصوصاً ان کی سوانح عمری ’’جستجو کیا ہے‘‘ میں اس کی بہار اور بھی مزہ دیتی ہے۔

لیکن آج کا دور صرف دیکھنے اور سننے کا ہے۔ مطالعہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے لوگ دو سطریں لکھنے کے لیے آنکھیں جلایا کرتے تھے۔ ایک موضوع کے لیے کئی کئی کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور پھر لکھتے تھے۔ لیکن آج کا دور تیزی سے شہرت حاصل کرنے کا دور ہے۔ کمپیوٹر کھولو، گوگل پہ سرچ کرو اور کسی بھی موضوع کو من و عن اپنے نام سے شایع کروا کر مصنف بن جاؤ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لو۔۔۔۔ سب چلتا ہے۔ ناول، افسانے اور سفرناموں میں بھی یہی حال ہے۔ کہاں کا مطالعہ اور کہاں کا محاورہ یا کہاوت کا استعمال۔۔۔۔؟۔۔۔۔ ان سب کے لیے مطالعے اور کتابوں کے لیے آنکھیں جلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ زمانہ ہے شارٹ کٹ، اتنی ہی شہرت آسان۔۔۔۔ پھر بھی شکر ہے کہ مطالعے کی اہمیت کو سمجھنے والوں کے لیے ایسے ادیبوں کی تصنیفات موجود ہیں جنھوں نے اردو محاوروں کے نگینے اپنی نثر میں جڑے ہیں تا کہ بعد کے آنے والے اس سے کچھ سیکھ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔