تھربل اینڈ ٹربل

سعد اللہ جان برق  جمعـء 8 مئ 2020
barq@email.com

[email protected]

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اگرچہ ڈرکے مارے کسی کو بتاتے نہیں کہ ہم یہ گناہ یاغیرپاکستانی حرکت بھی کرتے ہیں کیوں کہ لوگوں کو پہلے سے بھی ہم پر بہت سارے پیڑے پیڑے شک ہیں، اوراگر یہ بھی کسی کو پتہ چل گیا کہ ہم سوچتے بھی ہیں تووہ جو ہم پر تھوڑی بہت پاکستانی ہونے کی تہمت ہے وہ بھی کھل جائے گی اورہم غدار، وطن دشمن، اورنہ جانے کیاکیا ثابت ہوجائیں گے، اس لیے چپکے چپکے چوری چوری کبھی کبھار سوچ بھی لیتے ہیں اورجوسوچ لیتے ہیں وہ  فوراً پوٹلی میں باندھ کسی گٹر میں ڈال دیتے ہیں کیا پتہ۔

کوئی رقیب رپٹ لکھوائے جاکر کسی بھی تھانے میں

کہ اکبر سوچتاہے آج کل اس زمانے میں

لیکن بعض باتیں اتنی مجبورکردیتی ہیں کہ سوچنا پڑ ہی جاتاہے مثلاًکچھ دنوں سے ہم سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ اپنے ملک کا نام تبدیل کرکے ’’تھری ان ون‘‘ رکھ لیں کیوں کہ جس طرف دیکھتے ہیں تین ہی تین یا تھری ان ون نظر آتے ہیں۔ پہلے تو ملک کانام لے لیجیے، لاالہ تھا  پھر نظریہ پاکستان ہوا ،آج کل سایہ خدائے ذوالجلال ہے۔سرکاری نام پہلے خداداد تھا پھر اسلامی جمہوریہ ہوگیااورآج کل ریاست مدینہ ہے ۔نظریہ اورنظام۔ اسلام ہمارا دین ،جمہوریت ہماری سیاست اورسوشلزم ہماریمعیشت ہے ۔ضرورتیں…روٹی کپڑا اورمکان۔

لوگ بھی تین قسم کے ہیں جو انسان سے بہت کم اورحیوان سے بہت زیادہ ہیں، دوسرے وہ جو انسان سے بہت اونچے اور حیوان سے تھوڑے کم ہیں اور تیسری قسم جو نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ تین میں نہ تیرہ میں،  جو ہیںتو ہیں لیکن سرکاری کاغذات میں نہیں ہیں ۔ملک زرعی بھی ہے، صنعتی بھی اوربھکاری بھی ،اقتصادیات یہ ہے کہ قرض، سود اورپھر قرض۔ذرائع معاش… روزگارچھیننا،چوری کرنایامانگنا۔حالت…مردے بھی، زندہ بھی اور پائندہ بھی۔

ہم تین انگلیوں پر تین تین کررہے تھے کہ اچانک لیڈران کرام،وزرائے عظام اورافسران نظام کے ناموں پر خیال دورکیا۔

کپتان بھی، وزیراعظم بھی اورخلیفہ بھی۔ صادق بھی، امین بھی اوردونوں بھی۔

فردوس بھی عاشق بھی اورڈاکٹر بھی ۔زربھی تاج بھی اورگل بھی۔صوبے میں پہلے شوکت اورعلی اور یوسف زئی اب اجمل بھی وزیر بھی اورمشیر بھی۔

ستون ہیں،انتظامیہ ،عدلیہ اورابلاغیہ …جو حکمرانیہ بھی ہے اشرافیہ بھی اورانصافیہ بھی۔

خیر ان سارے ’’تھری ان ون‘‘ یا تھربل ان ٹربل چھوڑئیے بلکہ ان کو ایک ہی بندوق کی تین گولیاں مارئیے کہ ایک دوسے شاید ’’شفا‘‘ نصیب نہ ہو۔ یاد آیا کہ ’’حوا‘‘کی بیٹیوں یعنی حواتین کو بھی تین کنکروں سے مارا جاتا(تین حواتین)

لیکن اس وقت ہم جس تھربل سے ٹربل میں ہیں وہ بالکل ایک نئی قسم کاٹربل ان تھربل ہے کہ اس کے تینوں اراکین اپنی اپنی جگہ تین تین سو بلکہ تین تین ہزار یالاکھ کروڑ کے برابر ہیں ،یوں کہیے ’’سردار‘‘ ہیں۔ سردار لوگ خود اورایک دوسرے کو کبھی واحد نہیں کہتے ہیں بلکہ  اگر ہنی سنگھ اورسنی سنگھ کا سامنا ہوجائے تو پوچھتے ہیں ’’فوجاں کتھے جاندی ہی ایں‘‘ توہمارے اس کرنٹ ٹربل کا ہرتھربل بھی اپنی جگہ فوجاںہی فوجاں اور موجاں ہی موجاں ہیں۔آپ کے صبرکامزید امتحان نہ لیتے ہوئے اس ٹربل ان تھربل یاتھربل ان ٹربل کے اراکین کانام بتائے دیتے ہیں ان میں سے ایک منہگائی کو تو آپ جن جنماتر سے پہنچاتے ہیں کہ اس کا اورہمارا ساتھ سات سات جنموں کاہے بقول مرشد۔

قیدوحیات وبندغم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

دوسرا بالکل نیاممبر اس تکون یاترکڑی کاکوروناہے جس کاتعارف کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں کہ یہ اپنا تعارف خود ہے اورخود ہی تعارف بھی ہے ۔

وہ آئے بزم میں اتنا تو سب نے دیکھا میر

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

حالانکہ اس سے پہلے ڈاکٹروں نے کلینکوں نے دواساز کمپنیوں نے حکومت کی سرپرستی میں جو ’’چراغ‘‘ جلائے تھے اورجل رہے تھے اورجن میں انسانی صحت کاتیل جلاجارہاتھا وہ بھی کچھ کم روشن نہیں تھے، قبرستان تک ان کی روشنی جارہی تھی ۔لیکن یہ کورونا۔

بجلی اک کوندگئی آنکھوں کے آگے یارب

بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریربھی تھا

یہ دونوں نئے اورپرانے اراکین اس تھربل کے ابھی گلے ہی مل رہے تھے کہ اوپر سے تیسرا رکن رمضان بھی آپہنچا جو پرانے زمانوں میں رمضان المبارک تھا آج کل ٹی وی چینلوں پر رمضان کریم ہے اور مخصوص دینی اداکاروں کاسیزن ہے۔

اب اگر تینوں کی موجودگی تھربل میں اشیائے صرف کوٹربل ہوجائے تو اس میں تعجب کی کیابات ہے۔ بھئی راستے بند ہیں، کھیت قرنطینہ میں ہیں، منڈیاں ناک پوش ہیں تو خربوزہ سو روپے سے اوپر کیوں نہیں  جائے گا۔جس کی اصل قیمت بیس روپے ہے آخر ٹربل ان تھربل بھی تو کوئی چیز ہے اور وہ بھی اتنے طاقتور ممبران کا۔ایک بے وقوف نے ہمیں بتایا جس سے ہماری ملاقات حسب معمول آئینے میں ہوئی تھی، بلکہ پوچھا کہ کیا یہ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔اب اس بے وقوف کوکون سمجھائے کہ اس سے کیا ڈرنا جسے عرصہ ہوا یہ بیچ کر کھا چکے ہیں، تو روزے یا کچھ اورچیز بھی بیچی جا چکی ہے بلکہ اس کا تو سب کچھ بیچاجاچکاہے اس کے سارے نام ،سارے کلام اورسارا مال ومتاع۔

ہاں البتہ کورونا سے ڈرنا چاہیے اورڈرتے بھی ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ اپنا کام چھوڑدیں۔

وہ ایک گویا نے اپنی بیوی کو گالی دی تو باقاعدہ  الفاظ کے پورے پورے سُروں سے دی۔ بیوی نے کہا کچھ اورنہیں دے سکتے تو کم سے کم گالی تو سلیقے سے دیں۔بولے میں تمہارے سلیقے کے لیے اپنے سُرخراب نہیں کرسکتا۔

ویسے بھی کورونا جونیئر رکن ہے ،مہنگائی اور رمضان سینئر اراکین ہیں ،اس ’’تھربل‘‘ کے۔ اس لیے کم ازکم سینئرزکاخیال جونیئر سے زیادہ ہوناچاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔