رمضان المبارک عطیۂ خداوندی

عبد المنان معاویہ  جمعـء 8 مئ 2020
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’ روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰیہ میں سے ایک اخلاق کا پَرتو اپنے اندر پیدا کرے، جس کو صمدیت کہتے ہیں، وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے، خواہشات سے دست کش ہوجائے، اس لیے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے، نیز خواہشات کے مقابلہ کے لیے اس کو عقل و تمیز کی روشنی عطا کی گئی ہے، البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں، اس کو ان سے آزاد ہونے کے لیے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، چناں چہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے، تو اسفل سافلین تک جا پہنچتا ہے، اور جانوروں کے ریوڑ سے جا ملتا ہے، اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے، تو اعلیٰ علیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم )

ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے، اور حیات ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے، بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئی کہ کتنے مسکین ہیں، جو نان شبینہ کے محتاج ہیں، وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کردے، اور اعضاء و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے، جن میں دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے، اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار و مقربین کی ریاضت ہے۔‘‘ (زاد المعاد)

حضرت امام ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں : ’’ روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادہ کی جمع ہوجانے سے انسان میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہے، اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں، ان کو خارج کردیتا ہے، اور اعضاء و جوارح میں جو خرابیاں ہَوا و ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، وہ اس سے دفع ہوتی ہیں، وہ صحت کے لیے مفید اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں بہت ممد و معاون ہے۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں، عجب نہیں کہ تم متّقی بن جاؤ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے، چناں چہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہش مند ہو اور استطاعت نہ رکھتا ہو، روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح اور فوائد چوں کہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے، اس لیے اس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد)

امام ابن القیمؒ اسی سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں : ’’چوں کہ قلب کی اصلاح اور استقامت حال سلوک الی اﷲ اور جمعیت باطنی پر منحصر ہے، اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ انابت پر اس کا دار و مدار ہے، اس لیے پراگندہ خاطری اس کے حق میں سخت مضمر ہے، کھانے پینے کی زاید مقدار، لوگوں سے زیادہ میل جول، ضرورت سے زیادہ گفت گو وہ چیزیں ہیں، جن سے جمعیت باطنی میں فرق آتا ہے اور انسان اﷲ تعالیٰ سے منقطع ہوکر مختلف راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے، بعض وقت محض اسی وجہ سے اس کی راہ کھوٹی ہوتی ہے، ان سب باتو ں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس کی مقتضی تھی کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعہ کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کے فیصلہ کا ازالہ و تنقیہ ہوسکے، جس کی وجہ سے آدمی وصول الی اﷲ سے محروم رہتا ہے، وہ اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے، اور اس کی عارضی اور مستقل کسی مصلحت کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘

ان اکابرین ملت اسلامیہ کے فرمودات پڑھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مقدس میں بہ ذریعہ صوم اپنے اندر کے سفلی جذبات و خواہشات کو مار کر ملکوتی صفات پیدا کریں، اور بہمیت ترک کرکے ملکوتیت کو اپنائیں، اگر اس نکتۂ نظر سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ماہ مبارک ہمارے لیے عطیہ خداوندی ہے کہ اس میں ہم ذرا سی محنت کرکے منازل سلوک طے کرسکتے ہیں، اور ارتقائے روحانی کے لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریم اور آیاتِ الہٰیہ میں تدبّر و تفکّر کریں، کیوں کہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔