چند سوالات

مقتدا منصور  بدھ 5 ستمبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کمیشن پاکستان (HRCP) نے تھر کے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی اور ملحقہ ضلع ٹنڈو الہ یار میں جمہوری حقوق اور امن کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیمیناروں میں بطور کلیدی مقرر شریک ہونے کی دعوت دی۔ میرا تعلق چونکہ شمالی سندھ سے ہے، جہاں گزشتہ کئی برسوں سے ہندو کمیونٹی کو تسلسل کے ساتھ ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اس لیے میری خواہش تھی کہ جنوبی سندھ کے ہندوئوں کا ان واقعات پر ردعمل اور خود انھیں درپیش مسائل کے بارے میں آگہی حاصل کر سکوں لہٰذا ان سیمیناروں میں شرکت کی حامی بھر لی‘ چنانچہ HRCP کے عہدیداروں سید شمس الدین اور اسد اقبال بٹ کے ساتھ مٹھی اور ٹنڈو الہ یار میں سیمیناروں میں جمہوری حقوق پر رسمی گفتگو کے علاوہ ان لوگوں کے ذہنوں میں کلبلانے والے تلخ و شیریں سوالات اور براہ راست گفتگو سے ان کی سوچ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔

تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں ہونے والا سیمینار پریس کلب میں منعقد ہوا۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے مٹھی جا رہا ہوں جہاں ایک پرانی عمارت میں پریس کلب قائم تھا۔ پاکستان پریس فائونڈیشن کے اویس اسلم علی نے ملک بھر کے پریس کلب عہدیداروں کو اپنے کلبوں کو مالی طور پر خود کفیل بنانے کے لیے کئی سیمیناروں کا انعقاد کیا جن میں میں ان کا دست راست ہوا کرتا تھا۔ کھٹو جانی اور نند لال لوہانہ کے علاوہ کئی فعال صحافیوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم سے خطیر امداد لے کر پرانی عمارت کی پشت پر موجود وسیع کمپائونڈ میں پریس کلب کی جدید عمارت اور چار کمروں پر مشتمل گیسٹ ہائوس تعمیر کرایا لیکن جیسے ہی آڈیٹوریم میں داخل ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی کیونکہ اس عمارت کے نقشے کی منظوری سے عمارت کی تکمیل تک کے تمام مراحل میری آنکھوں کے سامنے مکمل ہوئے تھے۔

اس وقت مجھے سابق صدر ایوب خان یاد آ گئے جن کے زمانے میں حیدر آباد کے قریب دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے غلام محمد بیراج کا افتتاح ہوا تھا۔ چند چاپلوس قسم کے اہلکاروں نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ اس بیراج کو اپنے نام کر لیں لیکن ایوب خان نے کہا کہ جو نام پہلے طے ہو چکا ہے اسی کو برقرار رکھا جائے۔ یہ اصول پرستی سینڈہرسٹ میں انگریزوں سے تربیت حاصل کرنے کا نتیجہ تھی۔ سینئر شہری میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جب تک پاکستان میں ICS افسران اور سینڈہرسٹ سے فارغ التحصیل فوجی افسر موجود رہے،

محلاتی سازشوں میں ملوث ہونے کے باوجود انھوں نے ملک کو انتظامی طور پر کمزور نہیں ہونے دیا تھا لیکن جب سے کاکول اکیڈمی اور کوئٹہ اسٹاف کالج سے فوجی افسران اور مقامی تربیتی اداروں سے CSS افسران آنا شروع ہوئے ہیں انھوں نے پورے ملک کی بدھیہ بٹھا دی ہے۔ میں اسد اقبال بٹ کی اس بات سے متفق ہوں کہ ماضی کے سیاستدانوں کے سیاسی فلسفے سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر کرپشن اور بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ لیاقت علی خان سے اسکندر مرزا تک، ولی خان سے پروفیسر مظفر تک، مولانا بھاشانی سے مولوی فرید احمد تک اور نوابزادہ نصراللہ خان سے مولانا نورانی تک کسی رہنما کے کردار پر انگشت نمائی کی گنجائش نہیں ہے۔

بہرحال واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مٹھی اور ٹنڈو الہ یار کی ہندو کمیونٹی کے لوگوں کی اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ انھیں شمالی سندھ کے اضلاع جیسی صورتحال کا تو سامنا نہیں ہے لیکن مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے پورے ملک کی اقلیتوں جیسے مسائل کا بہرحال سامنا ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ان علاقوں میں اس لیے نہیں ہوتیں کہ یہاں ہندوئوں کی اکثریت غریب، پسماندہ اور نچلی جاتیوں پر مشتمل ہے۔ جہاں تک ہندو لڑکیوں سے جبری شادی کا تعلق ہے تو یہ روش اس علاقے میں بھی موجود ہے۔

مسلم لیگ(ن) کے انجینئر پردیپ کالانی کا کہنا تھا کہ یہ دلیل بے وزن ہے کہ شادیاں محبت کی بنیاد پر ہو رہی ہیں کیونکہ اگر شادیاں محبت کی بنیاد پر ہو رہی ہوتیں تو کسی مسلمان لڑکی کی کسی ہندو لڑکے سے شادی کی خبر بھی آنی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شادیاں جبر کی بنیاد پر ہو رہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ جن ہندو لڑکوں کو مسلمان بنایا جا رہا ہے انھیں دیگر لالچ تو دیے جا رہے ہیں مگر مبلغین ان نومسلم نوجوانوں سے اپنی بہن بیٹیوں کی شادی کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان رویوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے کھیلوں کے پس پشت کیا مقاصد ہیں۔

سینئر صحافی نند لال لوہانہ نے ہندو پرسنل لاء کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 65برسوں کے دوران ہندو پرسنل لاء کی تیاری اور نفاذ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، طلاق بھی رجسٹر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بیشمار سماجی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں جن کا خمیازہ ہندو عورتوں کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ طلاق کے بعد ہندو مرد تو دوسری شادی کر لیتا ہے لیکن مطلقہ خاتون دوسری شادی کرنے کی مجاز نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاس طلاق کی کوئی عدالتی دستاویز نہیں ہوتی۔

اس سلسلے میں HRCP کے سید شمس الدین کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نے کئی بار ہندو ماہرین قانون سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تاکہ ہندو پرسنل لاء کی تیاری کے سلسلے میں کوئی پیش رفت ہو سکے لیکن ہندو ماہرین قانون نے اس مسئلے پر کسی مثبت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندو وکلاء اور قانون دان اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی تنظیم اس سلسلے میں بھرپور تعاون کو تیار ہے۔

ڈاکٹر کشور کمار کا کہنا تھا کہ پہلے شیعہ ڈاکٹروں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن جب سے لکھی غلام شاہ (ضلع شکار پور) میں تین ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا ہے، ہندو ڈاکٹر بھی خاصے محتاط ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کی بلاامتیاز خدمت کر رہے ہیں‘ ان کا بنیادی مقصد مریضوں کا علاج کرنا ہے‘ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مریض کا دھرم کیا ہے مگر انھیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ایک اسکول ٹیچر نے شکوہ کیا کہ ہم نے اپنے گزشتہ اظہارئیے میں نقل مکانی کرنے والے ہندوئوں کی جو تعداد لکھی تھی وہ خاصی کم ہے۔ ان کے مطابق ہندو اس سے زیادہ تعداد میں پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ البتہ یہ لوگ صرف بھارت نہیں جا رہے بلکہ امریکا، کینیڈا، یورپ، سنگاپور سمیت دنیا کے ان ممالک کی طرف بھی نقل مکانی کر رہے ہیں جہاں انھیں امان اور پرسکون زندگی ملنے کی توقع ہے۔

ٹنڈو الہ یار میں بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوئوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امتیازی قوانین اور آئین میں درج بعض شرائط ان جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہیں جن کا اس سیمینار میں اظہار کیا گیا۔ ان لوگوں کا موقف تھا کہ بحیثیت شہری ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور کوئی غیرمسلم کتنا ہی اہل کیوں نہ ہو اسے ترقی کرنے اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ انتخابات میں سیاسی جماعتیں چند مراعات یافتہ غیر مسلموں کو جو ان کی جماعت کے رکن ہوتے ہیں،

غیر مسلموں کے نمایندوں کے طور پر اسمبلیوں کا رکن بنوا دیتی ہیں مگر یہ لوگ غیر مسلموں کو درپیش مسائل، ان کے نقطہ نظر اور سوچ کی ترجمانی کرنے کے بجائے صرف اپنی سیاسی جماعت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اگر پاکستان کی حکومت اور پارلیمان جمہوریت کے پھیلائو میں سنجیدہ ہے تو دنیا کی دیگر جمہوریتوں کی طرح تمام شہریوں سے بلاامتیاز مذہب و عقیدہ مساوی سلوک کرے اور انھیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے۔

اس تمام گفتگو کو سننے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ویسے تو پاکستان میں ہر شہری مسائل کے انبار تلے دبا ہوا ہے اور ان کے لیے کھلی فضا میں سانس لینا بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے مگر مذہبی اقلیتوں کے لیے تو زندگی جہنم سے بھی بدتر ہو چکی ہے‘ انھیں عزت سے جینے دیا جا رہا ہے نہ سکون سے مرنے دیا جا رہا ہے۔ کچھ عناصر ایک طرف اقلیتوں کا جینا حرام کر رہے ہیں تو دیگر کچھ عناصر متشدد فرقہ واریت کو فروغ دینے میں مشغول ہیں۔ یہ تمام عناصر اپنی سیاسی طاقت کے تسلسل کی خاطر جنرل ضیاء الحق دور کے متنازع قوانین کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترامیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

اس صورتحال میں جہل آمادگی پر مبنی ایسا ماحول پروان چڑھ رہا ہے جس میں دلیل کی بنیاد پر مکالمہ اور تحقیق و تفتیش کی بنیاد پر حقائق اکٹھا کرنے کی روایت کا کوئی وجود باقی نہیں رہا ہے۔ ملک میں بظاہر انتخابات بھی ہوتے ہیں اور منتخب حکومتیں بھی قائم ہوتی ہیں لیکن جمہوریت اور جمہوری اقدار کا کوئی حقیقی تصور موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً قومی مسائل مسلسل پیچیدہ ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ریاست کے منصوبہ ساز اور حکمران گومگو کی کیفیت میں مبتلا خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کو اگر واقعی ایک جمہوری ملک بنانا ہے تو منافقت اور دوہرے پن کے ان رویوں سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے کیونکہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے نہ مسائل حل ہوتے ہیں نہ ہی ملک کو بکھرنے سے بچایا جا سکتا ہے‘ اس لیے مذہبی اقلیتوں کو بھی وہی حقوق دینا ہوں گے جو مذہبی اکثریت کو حاصل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔