ولایت میں پڑھنے کے لیے صرف پانچ سو پاؤنڈ ملے

غلام محی الدین  جمعرات 5 دسمبر 2013
والد نے یہ کہہ کرگاڑی سے اتاردیاکہ محنت کرو، اپنا آپ حاصل کرو، معروف معالج اور بین الاقوامی شہرت کے حامل کرکٹ تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز کی سرگزشت کے چند اوراق۔ فوٹو:فائل

والد نے یہ کہہ کرگاڑی سے اتاردیاکہ محنت کرو، اپنا آپ حاصل کرو، معروف معالج اور بین الاقوامی شہرت کے حامل کرکٹ تجزیہ کار ڈاکٹر نعمان نیاز کی سرگزشت کے چند اوراق۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد:  کرکٹ اور زندگی کے کھیل میں ایک قدرمشترک ہے کہ کرکٹ ’’ایک گیند‘‘ اور زندگی ’’ایک سانس‘‘ کا کھیل ہے، کون جانے اگلا سانس آئے نہ آئے؟ مگر ڈاکٹر نعمان نیاز دونوں میں کچھ اور قدریں بھی مشترک دیکھتے ہیں۔

کہتے ہیں دونوں اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان کھیلے جاتے ہیں، دونوں کو اعداد میں تولایا جا سکتا ہے اور ان کا ریکارڈ بھی رکھا جاسکتا ہے، اگر آپ سچے کھلاڑی ہیں توکرکٹ کی اسپورٹس مین سپیرٹ مذاہب کے بعد کردارسازی کا جامع وسیلہ ہے، کرکٹ انسان کو نسلی تعصب سے بالاتر رکھنے میں آپ کی مدد کرتا ہے، کرکٹ کی 137 سالہ تاریخ میں ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کا وجود اس بات کی گواہی ہے۔

قصۂ مختصر جس طرح دنیا دیکھنے کے بعد لاہوریے کہتے ہیں’’ لہور لہور اے‘‘ بالکل اسی طرح میں نے بھی بہت سے دوسرے کھیل کھیلے مگرماننا پڑا کرکٹ، کرکٹ ہے۔ ’’بہ طور طبیب زندگی اور کرکٹ دونوں ہی میری دل چسپی کا سامان ہیں۔ میں ان دونوں کو قریب سے دیکھنے کے جنون میں مبتلا رہتا ہوں اور اب یہ دونوں ہی میرا تعارف بن گئے ہیں۔‘‘ قدرے توقف کے بعد کہا ’’ بچپن میں کا میاب کرکٹر بننا چاہتا تھا لیکن کامیاب ڈاکٹر بن گیا، پھر قدرت نے ایسے نادر مواقع فراہم کیے کہ وہ خواہشیں، جو کبھی پوری نہیں ہو پائی تھیں، پوری ہوئیں‘‘۔

ایک وقت وہ آیا کہ چھکے چوکے مارنے، وکٹ اڑانے اور سلپ میں کیچ لینے والے نعمان میں لوگوں کوایک دوسری طرح کا ٹیلنٹ نظر آنے لگا۔ ’’کرکٹ میں میری اچھی یادداشت میری خوبی بن گئی، اس صلاحیت نے مجھے کرکٹ کا ناقد بنا دیا۔ کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ میں کیا تھا اور کیا بن گیا؟ یقین کریں طبیب سے نصیب تک کا یہ سفر میرے لیے خاصا حیرت انگیزاور سمجھ سے بالا تر ہے‘‘۔

ڈاکٹر نعمان نیازکو ’’کرکٹ کی لت‘‘ ان کے ایک ماموں نے ڈالی تھی، وہ لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدے دار تھے، انہوں نے بھانجے کو کرکٹ کی تاریخ پر ایک کتاب دی، جس نے ان کی آتش شوق کو بھڑکا دیا۔ نعمان نیاز اپنی ٹیم میں اوپنر بلے باز کی حیثیت سے شامل تو رہے اور بہ وقت ضرورت اسپن باؤلنگ بھی کرلیا کرتے تھے مگر زیادہ معروف نہ ہوسکے۔ لاہور میں ان کا ننھیال راج گڑھ روڑ پر مقیم تھا، اس علاقے کی ٹیموں سے اشرف علی (وکٹ کیپر)، عاقب جاوید، عامر ملک اور وقار یونس جیسے کھلاڑی شامل سامنے آئے۔

نعمان یونی ورسٹی سطح تک کرکٹ تو خوب کھیلے مگر نام ور نہ ہو پائے، ایک وجہ اس کی غالباً یہ بھی رہی کہ وہ میڈیکل کی پڑھائی کی وجہ سے کھیل کو بھرپور وقت نہ دے پائے۔ ہوا یوں کہ نام ور ٹیسٹ کرکٹر مرحوم مقصود احمد (میری میکس) ایک انگریزی اخبارکے ایڈیٹر بن گئے، ڈاکٹر نعمان نے ایڈیٹر کے نام خط لکھنے شروع کردیے جو پذیرائی پانے لگے، لکھنے کے فن کو سمجھنے والوں نے ان کے لکھے ہوئے کی نوک پلک سنواری تو وہ پڑھنے والوں کو پسند آنے لگا، خطوط سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اخبار کے ادارتی عملے سے شناسائی میں بدل گیا، مقصود احمد صاحب کی تھپکی سے نعمان لکھنے لگے تو لکھتے ہی چلے گئے، اب تک لکھ رہے ہیں، اقرار کرتے ہیں ’’مجھے طبیب سے تجزیہ نگار بنانے میں اصل ہاتھ میڈیا کا ہی ہے، اگر صحافی میرے الٹے سیدھے لکھے کو پڑھنے کے قابل نہ بناتے تو میں بس ایک غیر معروف سا ڈاکٹر ہی ہوتا، میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ مجھے صحیح وقت پر صحیح لوگ ملے، اللہ ان سب لوگوں کو خوش رکھے، آج میںدرجن بھر سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور جرائد میں چھپ رہا ہوں، یہ سب ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے‘‘۔

ٹیلی ویژن پر کرکٹ کے تجزیہ نگار بننے کی کہانی کچھ یوں ہے ’’ سید طلعت حسین پی ٹی وی پر ’’سویرے سویرے‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کیا کرتے تھے ان کو ایک ایسے جرنلسٹ کی تلاش تھی، جو اس پروگرام میں کرکٹ سے متعلق تجزیہ کر سکے۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو موقع دیا مگر ان کی تشفی نہ ہوئی، انہوں نے مجھے موقع دیا، میَں نے کرکٹ کے مختلف کھلاڑیوں کے کھیل کو اس انداز میں پیش کیا کہ سب حیران ہوئے، اِسی دوران پی ٹی وی کے ایک ڈائریکٹر نوید ظفر مرحوم نے میری بہت تعریف کردی اور یوں 1996 کے ورلڈ کپ کے ساتھ ہی میں کرکٹ تجزیہ نگار کے طور پر الیکٹرانک میڈیا میں انٹر ہوا۔ 1997 میں طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان تھا تو وسیم اکرم نے ایک ملاقت میں مجھ سے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کی کرکٹ بورڈ کو اشد ضرورت ہے۔ مجیب الرحمٰن صاحب کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے تو انہوں نے مجھے بطور کرکٹ میڈیا کوآرڈی نیٹر رکھ لیا، پھر اس کے بعد جنرل توقیر ضیاء کے دور تک میَں کرکٹ بورڈ سے وابستہ رہا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میَں نے طب کی تعلیم کی خاطر کرکٹ بورڈ سے وابستگی کو خیرباد کہ دیا لیکن کرکٹ کے موضوع پر لکھنا نہ چھوڑا۔ اب پی ٹی وی کے ساتھ کام کررہا ہوں، یہ میرے لئے ایک چیلنج ہے کیوں کہ میَں اپنے دو کلینک چلانے کے ساتھ ساتھ اِس کام کو بھی احسن طریقے سے نباہنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔

اپنی کام یابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نعمان نیاز کہتے ہیں ’’جب میَں پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو اکثر اوقات اپنی کام یابیوں سے ڈر جاتا ہوں، مجھے علم ہے کہ یہ میری وجہ سے نہیں، سب اللہ کے کرم اور کسی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، نیت صاف ہو اور لگن سچی ہو تو پھر آپ کی کام یابی کو کوئی روک نہیں سکتا، آج بھی آئے دن میڈیا میں میرے خلاف بہت سی چیزیں شایع ہوتی ہیں لیکن میری کام یابیوں میں حائل نہیں ہوتیں، ان حرکتوں سے میں نہ ڈرا اور نہ ہی اللہ نے کبھی میرا نقصان ہونے دیا‘‘۔

ڈاکٹر نعمان نیاز خود کو خوش قسمت انسان تصور کرتے ہیں ’’زندگی میں مجھے ہر شے آئیڈیل سے قریب تر ملی، ماں نے ہمیشہ دعائیں دیں اور باپ نے کڑی نظر رکھ کر پالا، بہنوں نے لاڈ اٹھائے، اساتذہ اچھے ملے، پڑھائی کا ماحول بہترین رہا، کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے جاتا تو خوب انجائے کرتا، کیریئر شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ساتھ رہی۔‘‘

ڈاکٹر نعمان نیاز نے کہا ’’ہر بچے کو والدہ سے زیادہ اُنس ہوتا ہے لیکن میرے رول ماڈل میرے والد ہیں، وہ سیلف میڈ تھے، محنت، ایمان اور آگے بڑھنے کی لگن میَں نے ان ہی سے سیکھی۔ ایک بار انہوں نے مجھے سرکاری جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے نہ دیا، مجھے اچھا نہ لگا تو کہا ’یہ گاڑی میَں نے اپنی محنت سے حاصل کی ہے تم بھی محنت کر کے ایسی گاڑی حاصل کرو‘۔ ولایت پڑھنے گیا تو وہ والد صاحب نے پانچ سو پاؤنڈ دیے اور کہا ان ہی پیسوں میں امتحان پاس کرنا ہے، امتحان سے پہلے پیسے ختم ہو جائیں تو مجھے مت بتانا، مزید پیسے نہیں ملیں گے‘‘۔

بہ طور طبیب ڈاکٹر نعمان نیاز نے ایک کام یاب انسان کی تعریف جن لفظوں میں کی وہ کچھ یوں تھی ’’آپ جو کام کریں اُس کو وہ لوگ سراہیں جن کو آپ سے کوئی غرض نہ ہو اور جب آپ رات کو بستر پر لیٹیں تو آپ کو پُرسکون نیند آئے، میرے نزدیک یہ ہی کام یابی ہے‘‘۔ ڈاکٹر نعمان نیاز نے بڑے کھلاڑیوں سے متعلق باتوں باتوں میں ایک عجب بات کہی ’’اس پر ابھی تک باقاعدہ تحقیق تو نہیں ہوئی لیکن بہ طور طبیب میرا گمان ہے کہ بڑے کھلاڑی جینیٹک کیمیسٹری کے لحاظ سے بھی کہیں نہ کہیںدوسروں سے ضرور مختلف ہوتے ہوں گے‘‘۔ انہوں نے عظیم کرکٹر برائن لارا، وسیم اکرم، جاوید میاں داد، انضمام الحق، تیز ترین اولمپک اتھلیٹ جمیکا کے یوسین بولٹ کے حوالے دیے۔

دن کیسے گزرتا ہے؟ ’’وقت کی پابندی نہ کروں تو سارے دن کا شیڈول گڑبڑ ہو جاتا ہے، لمحہ لمحہ میرے لئے قیمتی ہوتا ہے‘‘۔ کھانے پینے کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب روایتی لاہوریے واقع ہوئے ہیں ’’میرا پسندیدہ کھانا سامنے ہو تو ڈاکٹری واکٹری ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور پل پڑتا ہوں، پہناوے کا بھی بہت شوقین ہوں، کھانے کا شوق باپ نے بڑی خوش اسلوبی سے پورا کیا لیکن پہننے کے شوق پر مجھے نصیحت کی گئی کہ اپنی حیثیت کے مطابق پہنا کروں، برینڈڈ کپڑے کسی کو دکھانے سے زیادہ، خود خوش ہونے کے لیے پہنتا ہوں‘‘۔

ڈاکٹر نعمان نیاز کے بہ قول ’’کسی کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں لیکن میَں اپنے بیٹے کو جب وقت نہیں دے پاتا تو وہ مجھ سے شکایت کرتا ہے تو بہت دکھی ہو جاتا ہوں، اس لیے ہفتے اور اتوار والا دن میَں مکمل طور پر اپنے بیٹے کے ساتھ گزارتا ہوں اور یہ دودن ، ہم دونوں باپ بیٹے کے بجائے جگری دوست بن جاتے ہیں۔ سوشل زندگی کے لیے وقت ہی نہیں ملتا البتہ مریضوں کے ساتھ بہت سوشل ہوتا ہوں بل کہ میری دوستیاں مریضوں ہی کے ساتھ ہیں اور میں اس معاملے میں امیر اور غریب کا فرق نہیں رکھتا، ایک ہفتہ بھی کلینک نہ کھولوں تو میرا مریض میرا ہی منتظر رہتا ہے، مجھے پنڈی والے کلینک پر زیادہ مزا آتا ہے‘‘۔ میڈیکل کے شعبے میں بدعنوانی کے حوالے سے وہ دکھی نظر آئے ’’ڈاکٹر واقعی مسیحا ہوتا ہے لیکن جب وہ مریضوں کی کھال اتارنا شروع کر دیتا ہے تو شیطان بن جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر نعمان نیاز کو وہ لوگ پسند ہیں ’’آدمی کو کھرا اور سچا ہونا چاہیے، اندر سے کچھ اور اور باہر سے کچھ اور نظر آنے والے لوگوں سے میری جان جاتی ہے، اللہ ایسوں سے سب کو محفوظ رکھے۔ باتونی لوگوں سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے، رات کا پچھلا پہر بہت اچھا لگتا ہے کیوں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان پر تخلیقیت طاری ہوتی ہے، جوانی میں مجھے راک بہت پسند تھا، کلاسیکی موسیقی سمجھ میں نہیں آتی البتہ نیم کلاسیکی موسیقی کے جادو کو مانتا ہوں۔ کبھی کبھی تنہائی میں زار و قطار رونے لگتا ہوں، کبھی اپنی غلطیاں اور کبھی بیتے لمحے یادآتے ہیں، اپنی بے وقوفیوں پر بے تحاشا ہنستا بھی ہوں، غصہ تب آتا ہے جب میری غلطی نہ ہو اور دوسرا اپنی غلطی ماننے کے بہ جائے مجھ پر چڑھائی کر رہا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔