کارل مارکس: شاعری ،ادب اورفلسفے کا شناور

زاہدہ حنا  اتوار 10 مئ 2020
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آج اس فلسفی کا ذکر ہوجائے جو دوسوسال قبل 5 مئی 1818 میں اس وقت کے پروشیا اور آج کے جرمنی میں پیدا ہوا۔ ہم اس کارل مارکس کو جانتے ہیں جو برٹش میوزیم لائبریری میں سرجھکائے ’’داس کیپٹل ،کمیونسٹ مینی فیسٹو ،فرانس میں طبقاتی جدوجہداور ’اقتصادیات کی تنقید ‘لکھ رہا تھا‘ لیکن ایک کارل مارکس وہ بھی تھا جو ادب کی دنیا کا ایک بے مثال شناور تھا اور یہ شناوری اس کی اقتصادی اور فلسفیانہ تحریروں کو کیسے نادرو نایاب موتیوں سے آراستہ و پیراستہ کرگئی۔

شہنشاہی کی جابرانہ فرماں روائی کی دم گھونٹ دینے والی فضا میں یورپ کا تن بدن انقلاب فرانس کی اس شاندار بغاوت سے سرشار تھا،جس سے یورپی استبدادی قوتیں لرزاں وترساںتھیں جو سیاسی جبر، جمہور دشمنی، سنسر شپ اور وحشیانہ انتقام کے کوڑے برسارہی تھیں۔ آزادی تحریر وتقریر اور جمہوری رجحانات رکھنے والوں کی گرفتاری، بیروزگاری اور ملک بدری ایک روز مرہ تھی اور اسی روز مرہ نے فرانسیسی ، جرمن، برطانوی اور امریکی دانشوروں ، شاعروں ،ادیبوں کو خرد افروزی کی ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ایک ایسے ہنگامہ پرور دور میں کارل کی پیدائش ہوئی۔

مارکس کے ارد گرد کی خیال انگیز فضا میں ادب، شاعری، فلسفے اور صحافت کا غلغلہ تھا، نوجوانوں کے سینوں میں بغاوت کی آگ بھڑکتی تھی جس سے وہ پرانے نظام کو جلاکر راکھ کردینے کے لیے بے تاب تھے۔ کارل مارکس ایک ایسے گھرانے کا بیٹا تھا،جہاں کتابیں زندگی کا ایک اہم جزو تھیں۔ اس کے روشن خیال باپ ہنرخ کی زندگی کسب معاش کی مصروفیتوں کے بعد یونانی، فرانسیسی اور جرمن فلسفیوں کے افکار وخیالات اور اعلیٰ کلاسیکی ادب سے لطف اندوز ہو تے ہوئے گزرتی تھی۔ کارل نے آنکھ کھولی تو یہ علمی اور ادبی ماحول اس کے اندر رچ بس گیا۔

اسکول کے آخری برس میںپیشے کے انتخاب کے حوالے سے اس نے ایک طویل مضمون لکھا۔ اس کے خیالات نہایت واضح تھے اس نے لکھا کہ ’’اگر کوئی شخص فقط اپنی ذات کے لیے کام کرے تو بہت ممکن ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل انسان بن جائے یا وہ بڑا عارف یا شاعرہوجائے لیکن وہ انسانِ کامل یعنی عظیم انسان کبھی نہیں بن سکتا۔‘‘ یہ جملے اس لڑکے نے لکھے تھے جس کے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں کی سب سے بڑی آروز یہ تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پادر ی کے عہدے پر فائز ہوجائیں۔ ان لڑکوں میں سے 13 کیتھولک پادری،7 بیرسٹر اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار ہوئے، ان میں دو ڈاکٹر بھی ہوئے۔

1835میں سترہ برس کی عمر میں کارل بون یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس نے اپنے لیے قانون اور فلسفے کے موضوعات کا انتخاب کیا لیکن اس کے اندر ایک ایسا مضطرب نوجوان سانس لیتا تھا جو یونان و روما کی قدیم تاریخ اور ہومر کے رزمیوں کا عاشق تھا۔ ارسطو، افلاطون، دیوجانس کلبی، ایپی کیورس،پلوٹارک، سنیکا اور سسرو کو وہ پندرہ سولہ برس کی عمر میں پڑھ چکا تھا۔ شیکسپیئر ،اسکائی لس اور گوئٹے اس کے محبوب شاعر تھے، اسپارٹکس اور کپلر اس کے ہیرو تھے۔ اسکائی لس کی شاعری کا دلدادہ ہونے کی بناء پر وہ پرومی تھیس ایسے بے مثال باغی کردار کے بارے میں اسکائی لس کے شاندار کلام کو اپنے وجود میں جذب کرچکا تھا۔ ایک طرف بغاوت کی آگ تھی، دوسری طرف وہ اپنے شہر کی حسین ترین لڑکی جینی کے عشق بلاخیز کا گرفتار تھا۔

اس نے یہ چند برس شاعری کرتے ہوئے گذارے۔ آنے والے دنوں میں ایک نظریہ ساز فلسفی کے طور پر اس کی شہرت اور شخصیت اتنی بلند وبالا ہوئی کہ اس کی زندگی کے ابتدائی برس ، اس کے اشواق، اس کا تخلیقی وفور سب کچھ بھلا دیا گیا۔ ابتداء میں جینی کے لیے اس کی صرف دو نظمیں شائع ہوئیں‘ اس کی شاعری کی تین بیاضیں بہت بعد میں لوگوں کے علم میں آئیں، وہ بھی اس لیے کہ اس کی بہن صوفیہ نے کارل کی وہ بیاضیں اپنے سینے سے لگا کررکھی تھیں۔

ابتدائی برسوں میں شاعری سے اس کے شغف کا یہ عالم تھا کہ بون یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہی وہ وہاںکے نوجوان شاعروں کے حلقے کا رکن بن گیا اور اپنی نظموں پر داد وصول کرنے لگا۔ اس کے باپ کو اس کی شعر گوئی کی خبر ہوئی تو اس نے بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ اس کے عشق کی انتہا کا زمانہ تھا اور اس میں کارل نے نظموں کے ڈھیر لگادیے جن میں کچھ جینی کے لیے ہیں لیکن کئی دوسری نظموںمیں اس کے فکری ارتقاء کے اشارے نظر آتے ہیں ۔ کارل مارکس کی نظموں سے شغف کے سبب میںنے 1990 کی ابتداء میں اس کی چند نظمیں ترجمہ کیں جوشائع بھی ہوئیں۔

مارکس نے جینی کے لیے کئی نظمیں لکھیں۔ ان میں سے ایک ’’تلاش‘‘ ہے۔

’’سارے بندھن توڑ کر میں نے جب اپنی راہ لی

’’تو کدھر کو؟‘‘ ’’ڈھونڈنا ہے مجھ کو اک دنیا نئی‘‘

’’کیا کہا؟ کیا خوبصورت کم ہے تیرا جہاں

نیچے موجوں کا ترنم ، سرپہ تاروں کا سماں‘‘

’’یوں کہ میری روح سے ہو میری دنیا کا ظہور

اور اسی کے سینے سے لگ جائے ہوکر ناصبور

بحر اس کو ساتھ میرے ہر طرف سے گھیر لے

گنبد افلاک اس کا میری سانسوں سے بھرے‘‘

ہاتھ میں زائیدہ الفاظ دنیائیں لیے

جن میں جگمگ دھوپ تھی اور کھیلتی تھی روشنی

لیکن اک بجلی گری اور اب وہ دنیائیں نہیں (ترجمہ: تقی حیدر)

اس کو جلد ہی اس بات کا انداز ہوگیا کہ شاعری اس کے اضطراب کا اظہار تو تھی لیکن درحقیقت وہ اس میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ شاعری ترک کرکے فلسفے سے اپنی دائمی رفاقت کا فیصلہ کارل نے یقیناً کشف کی کسی ایسی گھڑی میں کیا تھا جس نے اسے تاریخ کی ایک نادر روزگار شخصیت بنادیا۔ اسی دوران باپ کے اصرار پر وہ بون سے برلن یونیورسٹی کا رخ کرچکا تھا،وہاں اس نے طے کیا کہ اس کا میدان فلسفہ ہے اور پھر وہ یونیورسٹی میں فلسفے کی انجمن کا سب سے کم عمر لیکن نہایت اہم رکن بن گیا۔

کلاسیکی ادب اس کی روح میں جس طرح اترا ہوا تھا اس کا اندازہ پال لافارج کی یادداشتوں سے ہوتا ہے جس میں اس نے لکھا کہ ’’ہائنے اور گوئٹے کا کلام اسے ازبر تھا اور وہ اپنی گفتگوؤں میں ان کے اشعار برمحل اور برجستہ سناتا جاتا۔ وہ تمام یورپی زبانوں کے ادیبوں کو پڑھتا۔ سال بہ سال وہ اسکائی لس کا مطالعہ قدیم یونانی زبان میں کرتا۔ اس کا کہنا تھا کہ شیکسپیئر اور اسکائی لس دنیا کے دو عظیم ترین ڈراما نگار ہیں اور ان کا ثانی پیدا نہیں ہوسکتا۔ وہ شیکسپیئر کے ڈراموں کے چھوٹے سے چھوٹے کردار سے واقف تھا اور اسے شیکسپیئر سے اتنی گہری وابستگی تھی کہ اس کے ہر ہر جملے سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس نے 1848 میں انگریزی پر عبور حاصل کرنے کے لیے انگریزی زبان کا دوبارہ سے مطالعہ شروع کیا۔

مارکس کا کہنا تھا کہ افراد کی ذہانت اور ان کی دانشورانہ گہرائی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عظیم ادب کا کتنا فہم رکھتے ہیں۔ اسی طرح ادیبوں کی تخلیقات کو وہ ان کے بارے میں پیش گوئی کرنے کا پیمانہ سمجھتا تھا، ایک جگہ شیلے اور بائرن کا موازنہ کرتے ہوئے وہ شیلے کو ایک مکمل انقلابی ٹھہراتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وہ 29برس کی عمر میں ختم نہ ہوگیا ہوتا تو سوشلسٹ تحریک کا رہنما اور مشعل بردار ہوتا جب کہ بائرن کے بارے میں اس نے یہ رائے دی کہ 36 برس میں بائرن دنیا سے اگرکوچ نہ کرتا تو ایک رجعت پسند کے طور پر سامنے آتا۔

سروانٹس کے ناول ’’ڈون کہوٹے‘‘ کو وہ ادبی شاہکار کہتا تھا ’’داس کیپٹل‘‘ میں اس نے ’’ڈون کہوٹے‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ مارچ 1882 میں اینگلز کے نام ایک خط میں اس نے خود کو ڈون کہوٹے سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’عظیم ڈون کہوٹے کی طرح نیند مجھے نہیں آتی،بھوک مجھے نہیں لگتی، بری طرح کھانستا رہتا ہوں، کچھ سراسیمہ رہتا ہوں اور گہری پژمردگی سے دوچار ہوں۔‘‘

مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے کئی ڈراموںکے مکالمے مجھے ازبر تھے۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومر کا سارا کلام سنایا تھا،اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائیں جن میں سروانٹس کی ڈون کہوٹے اور الف لیلہ سرفہرست ہیں۔

یہ وہی مارکس ہے جس کے لیے اقبال نے کہا تھا:

آں کلیمِ بے تجلی‘ آں مسیحِ بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔