پھانسی کے سایہ میں لکھے مضامین

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 10 مئ 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

مارچ 1922 میں جب گاندھی کو ہندوستان میں تحریک عدم تعاون کے قائد کی حیثیت سے گرفتار کیا گیا تو اس نے وکیل کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے جج کو ایک قابل اعتراض مواد کا بھی پتا بتا دیا جسے نظرانداز کردیا گیا تھا جب گاندھی نے عدالت میں بتایا کہ اس نے وفاداری و تعاون چھوڑ کر انحراف کی راہ کیوں اپنائی تو یہ مزیدگاندھی کا مقدمہ نہ رہا بلکہ سامراجی نظام کے مقدمے میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔

اس نے جج سے کہا کہ اگر یہ نظام ٹھیک ہے تو پھر یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کے لیے سخت سے سخت سزا کا فیصلہ سنائے لیکن اگر اسے کوئی خلش محسوس ہوتی ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ نوکری سے استعفیٰ دے۔ اس سے چند عشروں بعد ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں مارٹن لوتھرکنگ نے گاندھی کے ان ہی تصورات میں تھوڑی جمع تفریق کرکے ان پر عمل کرنا شروع کردیا اس نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ’’ناحق ملا دکھ نجات کا باعث ہوتا ہے‘‘ جبکہ سترہویں صدی میں انگلستان میں جارج فاکس نے کویکروں کی ایک تحریک کی بنیاد رکھی تھی انھوں نے پرامن عدم تعاون کی رسم ڈالی، جسے وہ نا انصافی کے خلاف بہترین ردعمل تصور کرتے تھے۔

گاندھی نے اسے ہی ایک سیاسی فلسفے میں تبدیل کیا تھا۔ کویکروں نے غلامی کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں دائرکیں بائیکاٹ کیے اور لوگوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’’کیا میں ایک انسان اور بھائی نہیں ہوں‘‘ عوامی احتجاج کی یہ پہلی بڑی تحریک تھی، اس کے بعد کے پچاس برسوں کے عرصے میں مظاہروں کا رواج پورے یورپ میں پھیلتا چلاگیا اور 1849 تک بے نوا لوگوں کے لیے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ایک پسندیدہ حربہ بن گیا۔ انسان جب تک خود کو تقدیر یا تاریخ کے رحم وکرم پر چھوڑتا رہا ذلیل وخوار ہوتا رہا اور جب جب اس نے ناانصافیوں، معاشی قتل عام، عدم مساوات کے خلاف بغاوتیں کیں اس نے لاتعداد سکھ پا لیے۔

اس لیے کہ بغاوت ہی ایک بے معنی زندگی کو معنی دینے کا واحد طریقہ ہے۔آج پاکستان کے بیس کروڑ انسان لوٹ کھسوٹ، ناانصافیوںکے غلیظ نظام کی چکی میں بری طرح پسے جا رہے ہیں، لیکن کہیں سے کوئی گاندھی، مارٹن لوتھرکنگ یا جارج فاکس نہیں آرہا ہے جو آکر کہے کہ اگر یہ نظام ٹھیک ہے تو پھر ان بیس کروڑ انسانوں کو اور سخت سے سخت سزائیں دو۔ لیکن اگر ہمیں کوئی خلش محسوس ہو تو پھر ہم سب بیس کروڑ انسانوں کا فرض بنتا ہے، ہم اس نظام کے خلاف بغاوت کردیں ’’کیا ہم ایک انسان اور بھائی نہیں ہیں‘‘ کیا ہمارے سینوں میں دل نہیں  پتھر لگے ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے پیٹ لکڑیوں کے بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے ذہن سیمنٹ اور گارے سے تشکیل شدہ ہیں ؟کیا ہمارے احساسات، جذبات اینٹوں اور بجری سے بنے ہوئے ہیں۔ کیا ہم سب  بائیس کروڑ مجسمے اور مقبرے ہیں؟ کیا اس ملک میں صرف چند ہزار امیر وکبیر انسان ہی بستے ہیں یا پھر یہ کہ ہم سب کروڑ لوگ اپنی اپنی قبروں میں لیٹے مردے ہیں جن کی کوئی خواہشیں، ضروریات، تمنائیں اور آرزوئیں نہیں ہیں اور جن کے پیٹ بھی مردہ ہوچکے ہیں۔

جن کو رہنے کے لیے گھروں کی نہیں بلکہ قبروں کی ضرورت ہے۔ ایلیٹ نے کہا تھا ’’جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہیں تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔‘‘  ذہن میں رہے کہ بوسیدہ دیواروں کو توڑکر ہی نئی عمارت کی تعمیرکی جاسکتی ہے اور شاید ایسا ہونے کی شروعات بھی ہوچکی ہے۔ فوچک چیکو سلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اور ایک ترقی پسند ادیب تھا جب جرمنوں نے چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا تو جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے –

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔