کچھ تو عجیب ہورہا ہے

خرم علی راؤ  بدھ 13 مئ 2020
کورونا کے حوالے سے سندھ حکومت کی کارکردگی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے ریمارکس قابل غور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کورونا کے حوالے سے سندھ حکومت کی کارکردگی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے ریمارکس قابل غور ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دراصل کسی بھی سطح کے کاروبار میں جس طرح سے گُڈ وِل یا کریڈیبلیٹی کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور زبانی کلامی ہی لاکھوں کروڑوں کے سودے صرف گُڈ وِل کی بنیاد پر ہوجایا کرتے ہیں، ویسے ہی کاروبار زندگی کے سب سے اہم شعبوں میں سے ایک یعنی سیاست کے کاروبار میں بھی گُڈ وِل یا اعتماد بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس سیاسی جماعت پر، جس سیاسی رہنما پر، جس سیاسی سوچ اور فکر پر لوگوں کو ایک مرتبہ اعتماد اور یقین ہوجاتا ہے وہ پھر اس کی ہر بات مان لیتے ہیں۔ بے شمار مثالیں اور واقعات ایسے موجود ہیں کہ اپنے سیاسی رہبر یا اپنی سیاسی جماعت، جو کہ کریڈیبلیٹی کی حامل ہو اور لوگوں کا اس پر یقین اور اعتماد بنا ہوا ہو تو پھر لوگ اس کی خاطر جانیں تک دے دینے پر آمادہ ہوجایا کرتے ہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا کرتے۔ تو مسئلہ کچھ یہ ہے (بڑی معذرت کے ساتھ) پاکستان کا موجودہ اشرافیائی بنیادوں کا حامل سیاسی نظم و نظام اور اس کی اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں اپنی گُڈ وِل اور اعتماد کھو چکے ہیں۔

اگر سچ کہا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معدودے چند کے سوا تمام سیاسی رہنما، چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، اپنی کوئی سیاسی ساکھ نہیں رکھتے اور اپنی کریڈیبلیٹی کو بری طرح برباد کرچکے ہیں۔ اسی لیے ان کی کہی ہوئی باتوں پر، ان کے دیے گئے بیانات پر اور ان کی دردمندانہ اپیلوں پر کوئی بھی عوامی سطح پر کان دھرنے کےلیے تیار نہیں ہوتا اور ان کی ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کم و بیش یہی حال بین الاقوامی سیاسی دنیا اور کاروبار سیاست کا بھی ہے کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہاں سچ بولا جارہا ہے، کب جھوٹ بولا جارہا ہے، کہاں سچ کو گھما پھرا کر بیان کیا جارہا ہے اور کہاں سچ اور جھوٹ کو ملاکر بڑے سلیقے سے پیش کیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا کے نتیجے میں ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی حفاظتی اقدامات کیے گئے اور اس سلسلے میں صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان اور عجیب و غریب بے ربطی دیکھنے میں آئی، خاص طور پر صوبہ سندھ کی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان تو غیر معمولی بیانات کا تبادلہ کچھ ایسے دیکھنے اور سننے میں آیا کہ گویا پاکستانی قوم کو کسی آفت سے بچانے کے بجائے دونوں حکومتیں سیاسی جنگ لڑ رہی ہیں۔ سندھ حکومت کے بارے میں جو عوامی تاثر زبان زد عام ہے اسے لکھنے کی ضرورت نہیں اور ہر خاص و عام اس سے آگاہ ہے کہ مبینہ طور پر نااہلی اور کرپشن کے جو ریکارڈز اس ہونہار حکومت نے پچھلے چند برسوں سے قائم کئے اور عوامی بربادی کےلیے انتھک محنت سے جو معیار مقرر کیے، ان تک پہنچنا یقیناً کسی بھی مستقبل کی صوبائی حکومت کےلیے آسان نہیں ہوگا۔

میں ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کسی بھی عوامی عہدے پر فائز بدعنوان زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے یا پھر نااہل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے، لیکن ہم کیسے خوش قسمت یا بدقسمت لوگ ہیں کہ ہماری حکومتوں میں دونوں عناصر باافراط پائے جاتے ہیں۔

چاہے لاک ڈاؤن کے معاملے میں وفاق اور صوبہ سندھ میں رسہ کشی اور متضاد بیانات کا معاملہ ہو یا پھر امدادی سامان ملنے نہ ملنے کے متعلق بیانات ہوں، چاہے امدادی سامان اور رقوم کی عوامی تقسیم کے معاملات ہوں یا پھر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلیے مگرمچھ کے آنسو بہا کر درد بھری اپیلیں کرنا یا اور دیگر متنازعہ معاملات۔ دونوں حکومتوں نے الجھن، بدحواسی اور سیاسی خانہ جنگی میں ہر قسم کے گولہ بارود کے استعمال کی نت نئی ہنر مندیوں کے خوب نظارے پیش کیے اور بے چارے عوام کالانعام ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے کراہتے رہے اور اب بھی کراہ رہے ہیں۔ ابھی ڈاکٹر فرقان کی وفات نے سندھ حکومت کے وینٹی لیٹرز کی دستیابی کے حوالے سے کیے جانے والے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ سوشل میڈیا گوکہ بہت زیادہ قابل اعتبار نہیں لیکن پھر بھی اس پر نشر ہونے والی بیشتر ویڈیوز سندھ میں صحت و صفائی کے معاملات کا کچا چٹھا خوب کھول رہی ہیں۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ چاہے وجہ وفات کورونا کے علاوہ کوئی بھی اور مرض ہی کیوں نہ ہو، اسے زبردستی کورونا میں ڈالا جارہا ہے۔ یہ سب کیا معاملہ ہے؟ اور کچھ نہ کچھ تو عجیب ضرور ہورہا ہے اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

پھر کورونا وائرس سے پیداشدہ صورتحال پر عزت مآب عدالت عظمیٰ کے لیے گئے ازخود نوٹس کی مختلف سماعتوں پر حکومتی کارکردگی خصوصاً صوبہ سندھ کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے دیے گئے سرزنش کے حامل ریمارکس، کمنٹس یا تبصرے بھی قابل غور ہیں۔

صاف بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کا اعتماد حکومت پر کم سے کم ہوتا ہوا اب نہ ہونے کی حد تک پہنچ سا گیا ہے۔ اگر صوبہ سندھ کی بات کریں تو بلاشبہ لفاظی میں اور اپنی بے معنی اور لایعنی کارکردگی کی لیپاپوتی کرکے اسے بہترین بناکر پیش کرنے میں ان کی مہارت قابل داد ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ لفاظی کرنا تو بڑا ہی آسان کام ہے اور ہمارے جہالت اور تعصب کے مارے معاشرے میں کوئی بھی ٹھوس کام کیے بغیر صرف زور بیاں سے خود کو ہیرو ثابت کرنا کیا مشکل ہے اور سندھ حکومت کے نمائندگان فی الحال صرف یہی کام بہت خوبی سے کرتے نظر آرہے ہیں۔ لوگ ڈریں، مریں، پولیس کے بہیمانہ تشدد کا فیملی سمیت شکار بنیں، کورونا کے علاوہ دیگر امراض کا شکار ہونے والے چاہے ادھر ادھر رلتے رہیں، کیا فرق پڑتا ہے؟ بس اپنے کھاتے اور کھانچے بند نہیں ہونا چاہئیں۔

ایک حکومتی ذمے دار کے کیا فرائض ہوتے ہیں اور شرعی اعتبار سے اسے کیسے حقوق العباد کے مشکل ترین معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا ہے، یہ وہ سب حضرات یعنی سرکاری نمائندگان ہم اور آپ سے شاید بہتر طور پر جانتے ضرور ہیں لیکن شاید مانتے نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔