’انکل جیدی‘ بھی ہم سے جدا ہوگئے!

علیم احمد  اتوار 10 مئ 2020
اطہر شاہ خاں مرحوم نے ریڈیو، فلم، ٹی وی، کالم نگاری، غرض ہر شعبے میں منفرد نقوش چھوڑے ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

اطہر شاہ خاں مرحوم نے ریڈیو، فلم، ٹی وی، کالم نگاری، غرض ہر شعبے میں منفرد نقوش چھوڑے ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب اسکرین گریب)

مہینے بھر کی بات ہے… احفاظ صاحب گئے، سرحد پار سے عرفان خان اور رشی کپور بھی پرلوک سدھار گئے، اور آج ’’انکل جیدی‘‘ بھی ہم سے جدا ہوگئے! یہ تحریر اطہر شاہ خاں، المعروف ’’مسٹر جیدی‘‘ کے بارے میں ہے۔

****

حسن شہید مرزا: جیدی صاحب! ہمارے ایک سامع نے انگریزی لفظ نائٹ میئر (nightmare) کا ترجمہ پوچھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بھوت پریت اور آسیب وغیرہ جیسی چیزوں کو انگریزی میں نائٹ میئر کہا جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے جیدی صاحب؟

جیدی (اپنی مخصوص باریک آواز میں): آپ کا خیال بالکل غلط ہے جناب! بلکہ اب میں کیا بتاؤں کہ میں خود بھی نائٹ میئر رہ چکا ہوں۔

حسن شہید مرزا (ہنستے ہوئے): آپ کب اور کیسے نائٹ میئر رہے ہیں؟ ذرا ہمیں بھی بتائیے؟

جیدی: بات دراصل یہ ہے کہ لندن میں ایک نہیں دو میئر ہوتے ہیں۔ دن کے وقت والے میئر کو ’’ڈے میئر‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ رات والا میئر ’’نائٹ میئر‘‘ کہلاتا ہے۔ تو میں کچھ سال تک لندن کا نائٹ میئر رہا ہوں۔

اسی کے ساتھ ریڈیو پروگرام میں حسن شہید مرزا اور شریک میزبان (خاتون) کے قہقہے گونجنے لگے۔

مجھے اس ریڈیو پروگرام کا نام تو یاد نہیں آرہا لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ ’’حامد میاں کے ہاں‘‘ اور ’’تلقین شاہ‘‘ کے علاوہ یہ اُن معدودے چند ریڈیو پروگراموں میں شامل تھا جو بچپن/ لڑکپن میں بصد شوق سنا کرتے تھے۔

اطہر شاہ خاں، المعروف ’’مسٹر جیدی‘‘ سے میرا پہلا تعارف یہی تھا۔ جب ریڈیو پروگرام میں جیدی صاحب انگریزی کی ٹانگ توڑتے تو بہت لطف آتا… لیکن اس میں انگریزی سے نفرت کا کوئی دخل ہر گز نہ تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ اطہر شاہ خاں صرف کوئی صداکار یا اداکار نہیں بلکہ وہ تو اپنے آپ میں ایک کہنہ مشق مصنف اور شاعر بھی ہیں۔

غالباً 1990 کے عشرے کی بات ہے، جناب محمود شام کا ایک انٹرویو پڑھا جس میں انہوں نے ماہنامہ ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ سے وابستہ کچھ یادیں بھی بیان کی تھیں۔ شام صاحب کے بقول، ٹوٹ بٹوٹ میں ہر ماہ بچوں کی کہانیاں لکھنے والوں کا مقابلہ ہوتا تھا، جس میں اوّل آنے والے قلمکار کو نقد انعام دیا جاتا تھا۔ ’’میرے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کہ حسینہ معین اور اطہر شاہ خاں کی کہانیوں میں سے ایک کو اوّل اور دوسری کو دوم نمبر دوں۔ اس لیے میں ایک مہینے حسینہ معین کی کہانی چھاپتا تھا اور دوسرے مہینے میں اطہر شاہ خاں کی کہانی۔ اس طرح باری باری ان دونوں کو اوّل رکھتا تھا،‘‘ شام صاحب نے بتایا۔

مشاعروں میں بھی جناب اطہر شاہ خاں کی مزاحیہ شاعری ایک منفرد انداز لیے ہوتی تھی۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:

داخلہ اُس نے کالج میں کیا لے لیا​
لڑکیوں میں بڑا معتبر ہو گیا​
کھڑکیوں سے نظر اُس کی ہٹتی نہیں​
میرا بیٹا تو بالغ نظر ہو گیا​

’’صاحب زادے کرتے کیا ہیں؟‘‘ لڑکی والوں نے پوچھا
’’جب دیکھو فارغ پھرتے ہیں یا پیتے تمباکو ہیں!‘‘
لڑکے کی اماں یہ بولیں ’’کام کرے اس کی جوتی!‘‘
دو بھائی بھتہ لیتے ہیں ابا خیر سے ڈاکو ہیں

رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا!

یوں تو جیدی صاحب نے کئی پروگرام اور ڈرامے بھی تخلیق کیے جن میں ریڈیو پروگرام ’’رنگ ہی رنگ، جیدی کے سنگ‘‘ اور ٹی وی کےلیے برگر فیملی اور پرابلم ہاؤس شامل ہیں۔ تاہم ڈرامہ سیریل ’’باادب، باملاحظہ، ہوشیار!‘‘ ان کے لکھے ہوئے یادگار ترین مزاحیہ ڈراموں میں شمار کی جائے گی۔ اس ڈرامے میں ’’انصاف ہوگا‘‘ کہنے والے بادشاہ (قاسم جلالی) کی ناانصافیوں اور رعایا پر مظالم بہت ہی خوبی کے ساتھ، پُرمزاح انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایک مؤرخ (سبحانی بایونس مرحوم) ہے جسے مجبور کرکے ’’سرکاری تاریخ‘‘ مرتب کروائی جاتی ہے لیکن وہ بڑی خاموشی سے سلطنت کی ’’اصل تاریخ‘‘ بھی مرتب کرتا رہتا ہے جبکہ ایک اتالیق (اطہر شاہ خاں) بھی مسلسل اس پریشانی کا شکار ہے کہ کس طرح نالائق شہزادے (ملک انوکھا مرحوم) کو پڑھنے لکھنے کی طرف مائل کرے۔

یہ ڈرامہ سیریل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جناب اطہر شاہ خاں نے کس طرح تاریخ اور مزاح کی آڑ لے کر حالاتِ حاضرہ پر طنز کے تیر چلائے ہیں۔

فلم نگری کی بات کریں تو مرحوم اطہر شاہ خاں نے بازی، ماں بنی دلہن اور گونج اٹھی شہنائی کے علاوہ کئی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے تحریر کیے۔ البتہ، بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لالی ووڈ کی مشہور پنجابی مزاحیہ فلم ’’منجی کتھے ڈاواں‘‘ کی کہانی بھی اطہر شاہ خاں ہی نے لکھی تھی۔ اس فلم کا مرکزی نغمہ ’’میں کیہڑے پاسے جاواں، میں منجی کتھے ڈاواں‘‘ آج بھی پرانے فلم شائقین کو ضرور یاد ہوگا۔ یہ ایک ایسے شخص (منور ظریف مرحوم) کی کہانی ہے جو اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر قابل بنانے میں پوری زندگی صرف کردیتا ہے لیکن بڑھاپے میں اس کی اولادوں کے عالیشان گھروں میں باپ کی ایک چارپائی (منجی) کےلیے بھی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ ایک سنجیدہ سماجی مسئلہ ہے جسے اطہر شاہ خاں نے بظاہر مزاحیہ لیکن درحقیقت چبھتے ہوئے طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔

خاں صاحب مرحوم کے چار بیٹے ہیں، جن میں سے تین بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ برسوں پہلے کسی نے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کو کیا بنانا چاہتے ہیں؟ تو سکون سے فرمانے لگے: ’’میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اچھے انسان بن جائیں۔‘‘

ویسے تو اطہر شاہ خاں نے کچھ عرصہ روزنامہ جنگ کےلیے کالم نگاری بھی کی لیکن یہ سلسلہ کچھ خاص طویل ثابت نہ ہوسکا۔

انکل جیدی ’’چین اسموکرز‘‘ میں شمار ہوتے تھے اور 2005 میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد بھی سگریٹ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔ دریں اثناء انہیں ذیابیطس (شوگر) نے بھی آن گھیرا جو آہستہ آہستہ ان کے گردوں کو ناکارہ بناتی گئی اور بالآخر آج یعنی 10 مئی 2020 کے روز جان لیوا ثابت ہوئی۔ انہوں نے 77 سال عمر پائی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔