امتحاں ہے زندگی

شکیل فاروقی  منگل 12 مئ 2020
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اب سے دو ماہ قبل فروری کے مہینے میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔کسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اور پھر اچانک  کورونا کی صورت میں نازل ہونے والی بلائے ناگہانی نے چین کے شہر ووہان سے نکل کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

قدرتی آفت کی اس زبردست صدائے بیداری (Wakeup Call) نے دولت اور طاقت کے نشے میں چور اقوام عالم کا سارا نشہ ایک ہی جھٹکے میں ہرن کر دیا اور سپر پاورز کے سارے گھمنڈ کو چکنا چور کرکے یہ باور کرادیا کہ کائنات کی واحد اور اصل سپر پاور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کووڈ 19 کی  ہلاکت خیز وبا جھوٹ، بددیانتی، بے حیائی اور حرام کمائی کی غلاظت میں لت پت نوع انسانی پر نازل ہونے والا عذاب الٰہی اور قہر خداوندی ہے۔ یہ ہمارے کرتوتوں اور گناہوں کی معمولی سی سزا ہے۔ یہ محض ایک تازیانہ عبرت ہے تاکہ ہم  راہ راست پر آکر صحیح معنوں میں انسان بن سکیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام

انسان بنو!

دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے گا بس نام

انسان بنو!

کورونا کی وبا نے  ’’گلوبل ولیج‘‘ کی اصطلاح کو نئے معنی دیے ہیں۔ کئی اعتبار سے یہ خوفناک وبا ایک خیر مستور بھی کہی جاسکتی ہے۔ جس طرح ایک چھوٹے سے مچھر نے خدائی کے دعوے دار نمرود کا جینا حرام کردیا تھا اسی طرح آج ایک نادیدہ وائرس نے دور حاضر کے مغروروں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ لیکن منکرین خدا ایک نادیدہ وائرس کے وجود کو تسلیم کرکے اس کے خوف سے تو تھر تھر کانپ رہے ہیں لیکن خالق کائنات کے وجود  کو ماننے سے اس لیے عاری اور انکاری ہیں کیوں کہ یہ بصیرت سے محروم ہیں اور ان کی آنکھوں پر عقل ناقص کی عینک چڑھی ہوئی ہے۔ کاش ان عقل کے اندھوں کو غالب کے اس شعر کے معنی سمجھ میں آجائیں:

نہ تھا جب کچھ خدا تھا‘ کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

یہ خبر تو اب پرانی ہو چکی کہ کڈ(Kidd) نامی امریکی بحریہ کے جہاز پر سوار ملاحوں کو بھی کورونا کے عفریت نے گہرے سمندر میں جاکر دبوچ لیا۔ بے شک رب کائنات کی گرفت بڑی دراز ہے اور کوئی خواہ کہیں بھی ہو اس سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ عافیت اسی میں ہے کہ انسان اس کی حاکمیت اعلیٰ کو صدق دل سے تسلیم کرے اور اس سے پناہ مانگتا رہے۔ نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے:

ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قذاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

حالات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ دنیا کے تمام ممالک اپنے تمام اختلافات کو فراموش کرکے بنی نوع انسان کی بقا کی خاطر کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوجاتے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے درد مند سیکریٹری جنرل کی پرزور اپیل بھی صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی۔ واقعی انسان بہت خسارے میں ہے اور یہ دنیا جو محض ایک سرائے فانی ہے درحقیقت صرف دھوکے کا گھر ہے۔ خوب فرمایا ہے مرزا غالب نے:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

کسی اور کو کیا دوش دیں محشر کی اس گھڑی میں ہمارے جمہوریت کے حسن کے متوالے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آرہے۔ وہی الزام تراشیاں، وہی اختلاف برائے اختلاف اور وہی جوتیوں میں دال بٹنا۔ افسوس صد افسوس:

وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا

کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

حزب اختلاف کو تو چھوڑیے، خود حکمراں جماعت میں گندے انڈے موجود ہیں۔ دلی والوں کی ایک مشہور کہاوت یاد آرہی ہے۔ ’’اٹھاؤ میاں مونڈھا، تمہارا تو سارے کا سارا کنبہ ہی بھونڈا۔‘‘ افسوس کہ وطن عزیز میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سیاست کیا تجارت کے شعبے کا حال بھی کچھ کم برا نہیں۔ ہمارے کلمہ گو تاجر اور بیوپاری خوف خدا سے عاری ہیں۔ وہ رمضان المبارک کا استقبال ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری سے کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا:

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ہمارا خیال تھا کہ شاید اس سال ایسا نہ ہوگا۔ ہمارا مفروضہ یہ تھا کہ سروں پر کورونا کی تلوار ہر وقت لٹکی رہنے کی وجہ سے خوف خدا سے نہ سہی کورونا کے باعث کسی بھی لمحہ واقع ہو جانے والی ناگہانی موت کے خوف سے وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں گے۔ مگر دولت کے پجاریوں نے اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہمارے مفروضے کو بری طرح پاش پاش کردیا۔ ان گراں فروشوں، ضمیر فروشوں،ایمان فروشوں اور عاقبت نااندیشوں کو لمحہ بھر کے لیے بھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

ہر سال رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ رونقوں کی باد نو بہار آیا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ ہر طرف ایک بے نام اداسی چھائی ہوئی ہے اور ہو کا عالم ہے۔ گلی کوچے سنسان اور بازار ویران پڑے ہیں۔ اس حوالے سے ایک فی البدیہہ نظم پیش خدمت ہے جس کا عنوان ہے ’’کورونا کا جبر‘‘:

حال یہ ہے کہ کوئی بات نہیں ہو سکتی

اپنے پیاروں سے ملاقات نہیں ہوسکتی

دل گرفتہ ہی نہیں روح گرفتہ بھی ہیں ہم

اس سے بڑھ کر تو حوالات نہیں ہوسکتی

ڈر رہا ہوں کہ کہیں یہ بھی ہدایت نہ ملے

اب تو خود سے بھی ملاقات نہیں ہو سکتی

دل تو پاگل ہے بھلا کیسے اسے سمجھائیں

دل سے پابندی جذبات نہیں ہو سکتی

خوب توبہ کریں‘ انسان بنیں‘ رب سے ڈریں

ورنہ تبدیلی حالات نہیں ہو سکتی

کورونا کی وبا نے ہمیں خواب غفلت سے جگا دیا ہے۔ اس نے ہمیں یاد دلا دیا ہے کہ صفائی اور صحت لازم و ملزوم ہیں۔ صفائی کو اسی لیے نصف ایمان کہا گیا۔ دن بھر میں پانچوں وقت کی نمازوں کی ادائیگی کے لیے باوضو ہونے کی لازمی شرط دین اسلام میں صفائی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتی ہے۔کورونا کی وبا نے خطرے کی گھنٹی بجا کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو کئی پیغامات بھی دیے ہیں جن میں بقائے باہمی کا پیغام سرفہرست ہے۔ اس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو یہ باور کرایا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر کی بے پناہ قوت کے آگے ان کی ساری حربی طاقت ہیچ ہے ۔ کورونا سے بچاؤ کی خاطر تنہائی اور سماجی فاصلوں کا جبر بھی انسانی رشتوں کی ناقدری کی سزا ہے۔ بات محض سمجھنے کی ہے:

سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں

نہ سمجھیں جو اناڑی ہیں

کورونا کی وبا ہماری مادی ترقی اور ہمارے معاشی معاشرتی اور سیاسی نظام کی قوت کار کا بھی کڑا امتحان ہے۔ بقول اقبال:

اس زیاں خانہ میں تیرا امتحاں ہے زندگی

کاش ہم اس امتحان میں کامیاب اور کامران ہو جائیں اور حالات کی اس بھٹی سے کندن ہوکر نکلیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔