جو ملی ہیں ’فرصتیں۔۔۔!

عارف مجید عارف  منگل 12 مئ 2020

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

آج کل دنیا میں ہر طرف کورونا وائرس کا چرچا ہے، جسے دیکھیے وہ اس معاملے پر اپنی قابلیت منوانے کے چکر میں ہے، کوئی اسے قدرتی آفات سمجھتا ہے تو کوئی اسے دنیا کے کسی بڑے ملک کی کوئی سازش گردانتا ہے اور کچھ تو سرے سے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں  کہ یہ بھی کوئی چیز ہے، جب کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ ان سب کی دانش وری کا محور صرف اور صرف اِدھر سے اُدھر نقل پر قائم ہے۔ بعض ’خوش مزاجوں‘ نے اس ’فرصت‘ پر لطیفے بھی باندھنے شروع کر دیے کہ ایک بسکٹ میں کتنے سوراخ ہوتے ہیں، کسی نے یہ معلوم چلا لیا کہ پنکھا بند ہونے کے بعد کتنی دیر میں ساکت ہوتا ہے اور کوئی تو یہ ’’تحقیق‘‘ بھی کر چکا ہے کا ایک لوٹا پانی سے کتنی دیر میں بھر جاتا ہے۔

لاک ڈاون کی وجہ سے بہت نقصان بھی ہوئے، لیکن اس کے کچھ فوائد  بھی ہیں کہ اچھے خاصے وہ حضرات جو کبھی کسی بھی گھر کے کام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اب سب ہی کام کر رہے ہے ۔ جھاڑو لگانا، برتن دھونا اور کپڑے دھونا وغیرہ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کی خبر کسی کو کرتے نہیں ہیں اور باہر احباب میں اپنی خودی کو بلند کرتے رہتے ہیں۔

اب آیے ایک اور ’’فائدے‘‘ کی طرف۔ ہم جو اقوام عالم میں اپنی بدعنوانی کی وجہ سے اولین درجوں  میں اپنا مقام رکھتے ہیں، اس لاک ڈاون کے بعد یقینا ہم اس میں کچھ بہتری لانے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ کورونا وائرس کے خوف نے ہمیں پکا مسلمان بنا دیا ہے؟ نہیں جناب بات صرف اتنی ہے کہ تمام سرکاری دفاتر عدلیہ اور دیگر وہ دفاتر جن سے عوام کا واسطہ پڑتا رہتا ہے، وہ سب بند ہیں، تمام کام بھی بند ہیں اس لیے رشوت کا بازار بھی بند ہے، شاید اسی وجہ سے ہم بدعنوانی میں کچھ درجے نیچے آجائیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بہت سے سرکاری ملازمین کو  ’صرف‘ تنخواہ میں گزارہ کرنا پڑے گا۔

ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا سارا وقت صرف موبائل فون میں گزرتا تھا۔ اس لاک ڈاؤن میں وہ موبائل استعمال کر کر کے بیزار ہو چکے ہیں۔ وہ اب اپنے موبائل کی اسکرین سے کچھ اجتناب کرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔

آخر میں اپنے نوجوان دوستوں کو ایک مفت مشورہ دیتا ہوں کہ یہی وقت ہے کہ جب تمام بیوٹی پارلر بند ہیں، شاید غالب انہی کے واسطے فرما گئے ہیں کہ ’’دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔۔۔‘‘ اس لیے قوی امکان ہے کہ جو دکھے گا، وہی ملے گا۔ ہماری فراغت کا یہ عالم ہے کہ لوگ نہ جانے کیا کیا کر رہے ہیں، بذات خود ہم بھی اس سے مبرا نہیں، پہلے شاعری کی ٹانگ توڑنے کی کوشش کی اس میں ناکام رہے، تو اب  نثر کے میدان میں کچھ ادیبوں کی ارواح کو تڑپانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہیں۔۔۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔