اصل کی طرف گامزن: مکلی

مزمل فیروزی  منگل 12 مئ 2020
مکلی قبرستان میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ (فوٹو: فائل)

مکلی قبرستان میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سندھ کی دھرتی وہ عظیم سرزمین ہے جہاں متعدد ثقافتی، تاریخی و قدرتی مقامات موجود ہیں، جو سیاحتی لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ یونیسکو کی جانب سے مرتب کی جانے والی فہرست میں پاکستان کے چھ تاریخی مقامات عالمی ورثے میں شامل ہیں، جس میں سندھ سے دو مقامات کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ ایک موہن جو دڑو اور دوسرا مکلی مانومینٹس۔ جبکہ محکمہ آثار قدیمہ سندھ جامع مسجد شاہجہان ٹھٹھہ، قلعہ رنی کوٹ جامشورو، بھنبھور، کوٹ ڈیجی خیرپور، جین مندر ننگرپارکر اور چوکنڈی قبرستان کراچی کو عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کرانے کےلیے متحرک ہے۔

عالمی شہرت یافتہ مکلی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر بار جانے پر ایک منفرد احساس و اطمینان ملتا ہے۔ یہ وہ واحد قبرستان ہے جہاں جا کر قبرستان میں ہونے کا یقین نہیں آتا۔ ہم نہ جانے کتنی بار مکلی جاچکے ہیں اب تو یاد بھی نہیں، مگر یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ یہ تو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ مقابر پر انتہائی نفیس انداز میں کندہ کی جانے والی قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگاری دیکھنے والے کو حیران کردیتی ہے۔ ہر بار ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے اور ہم اس کے حصار سے کئی دنوں تک نہیں نکل پاتے۔ الغرض ایک سحر ہے جو یہاں پر آنے والوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور دیکھنے والا صدیوں پرانی تاریخ میں کھو جاتا ہے۔ ہمارے قد سے اونچی قبریں اور بلند دیواروں والے مقبرے، جن پر کی جانے والے نقش و نگاری کا نفیس کام دیکھنے والے کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ سات صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ مقبرے جاہ و جلال اور شان و شوکت سے کھڑے ہیں۔ یہاں پر چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں دس لاکھ سے زائد مسلمان مدفن ہیں۔

مقابر کی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ قبروں کے تعویز اور ستونوں پر اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا اس وقت کے عظیم کاریگروں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مکلی ہمیشہ سے ہی عالمی محققین اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہم مکلی گئے ہوں اور ہماری وہاں کسی غیر ملکی سیاح سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔

عالمی ورثہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سیاح اور محققین مکلی کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اور مکلی ہمیشہ سے ہرعام و خاص کی نظر میں بھی رہتا ہے۔ 2016 میں جب ری ایکٹیو مانیٹرنگ مشن نے مکلی کے چوتھے دورے پر وارننگ دی تھی کہ اگر دی گئی تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا تو مکلی کو ورلڈ ہیریٹیج سے خارج کردیا جائے گا۔ اس کے بعد اسٹیئرنگ کمیٹی کی میٹنگ محکمہ آثارقدیمہ اور نوادرات کے ڈائریکٹر جنرل منظور احمد کناسرو کی صدارت میں ہوئی تھی۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مشن کی دی ہوئی تجاویز پر مکمل عمل کیا جائے گا، پھر 2017 میں عملی طور پر اس پر کام شروع کیا گیا، جب کہ جون 2017 میں ہی کراکو پولینڈ میں یونیسکو کی جانب سے ہونے والی کانفرنس میں عبوری رپورٹ پیش کی گئی۔

اس میں صوبائی وزیر ثقافت، سیاحت اور نوادرات سید سردار علی شاہ اور ڈائریکٹر جنرل نوادرات منظور احمد کناسرو نے شرکت کی اور مکمل عمل درآمد کےلیے دو سال کا وقت مانگا اور اس کے بعد باقاعدگی سے کام کیا گیا، دی گئی تجاویز پر عمل کیا گیا اور 2019 میں باقو میں یونیسکو نے ورلڈ ہیریٹیج کانفرنس کے تینتالیسویں سیشن میں مکلی کو ڈینجر لسٹ سے نکال کر دوبارہ بحال کردیا۔ 2019 میں ہی جب ری ایکٹیو مانیٹرنگ مشن کی دو ممبر پر مشتمل ٹیم نے دوبارہ معائنہ کیا تو انہوں نے کیے جانے والوں کام پر اطمینان کا اظہار کیا۔

2017 سے اب تک بحالی و بچاؤ کے کام کی تفصیل بتاتے ہوئے مکلی کے آرکیالوجیکل کنزرویٹر سرفراز نواز جتوئی نے بتایا کہ 35مقبروں اور یادگاروں پر کام کیا گیا، جن میں مرزا باقی بیگ، مرزا طغرل بیگ، عیسیٰ خان، دولہا دریا خان، ولی محمد، دیوان شرفاخان، میران بائی، لالی کا مقبرہ، غیرت خان، فردوس، جام جاٹی، قوث سلطانی، بارہ دری، مدرسہ اور تقریباً 21 کے قریب گمنام مقبرے اور قبریں جن پر محکمہ آثار قدیمہ نے بحالی اور مرمت کا کام کروایا ہے اور ان کی اصل حالت بحال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ابھی دوسرے مقبروں کی جائزہ رپورٹ بنائی جارہی ہے، جس میں علی محمد کا مقبرہ، آنسہ بائی کا مقبرہ اور دوسرے گمنام مقابر شامل ہیں۔

مکلی کے اس دورے پر ہم نے بڑے بڑے مقابر پر وقت گزارا۔ ہم نے دیکھا کہ مقبروں پر کی جانے والی جابجا چاکنگ کا خاتمہ کیا جاچکا ہے جگہ جگہ بورڈز آویزاں کیے گئے ہیں، جن پر درست تاریخی معلومات کا اندارج کیا گیا ہے، جگہ جگہ ڈسٹ بن لگائے گئے ہیں، مقبروں کو جانچنے کےلیے کریکر مانیٹر یونٹ لگائے گئے ہیں۔ یونیسکو کی ہدایت کے مطابق موسمی اسٹیشن بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ بارشوں، سورج کی تپش اور ہوا کے دباؤ کو مانیٹر کیا جاسکے اور سب سے بڑھ کر مکلی کا مکمل ماسٹر پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جو قیمتی پتھر اور ٹائلز بکھرے پڑے ہوتے تھے ان کو اکٹھا کرکے خاص اسٹور میں جمع کردیا گیا ہے۔ مکلی میں آمدورفت کی ایک بڑی وجہ یہاں کے 10 سے زائد مزارات ایسے ہیں جن پر میلے لگتے ہیں، جو قبرستان کے اندر گاڑیوں کی آمدورفت کی بڑی وجہ تھے اور اس آمدورفت سے نقصان کا بہت خدشہ تھا۔ اس وجہ سے عام گاڑیاں اندر لانے کی ممانعت ہے، جبکہ محکمہ نوادرات نے تین گاڑیوں پر مشتمل شٹل سروس شروع کی ہے جو 150 فی کس کے حساب سے پورے قبرستان کا دورہ کراتی ہے۔

تحقیق کےلیے آنے والوں کےلیے یہاں پر ایک گیسٹ ہاؤس بھی بنایا گیا ہے، جو بین الاقوامی محققین کےلیے فری ہے۔ حفاظتی انتظامات کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مکلی کو قبضہ مافیا اور جانوروں سے بچانے کےلیے چاروں طرف سے دیوار بنائی جارہی ہے، جو تقریباً 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے اور دوسری طرف 24 گھنٹے مقبروں پر نظر رکھنے کےلیے چوکیداروں کو موٹرسائیکلیں دی گئی ہیں جو راؤنڈ دا کلاک گھومتے رہتے ہیں۔ سیاحوں کو معلومات دینے کےلیے بڑی ایس ایم ڈی لگائی جارہی ہے۔ مقبروں کو رات کو روشن رکھنے کےلیے اسپاٹ لائٹس بھی لگائی جارہی ہیں۔

2017 میں انٹرنیشنل کانفرنس کرائی گئی۔ مکلی ویب سائٹ بنائی گئی اور گائیڈ بک بھی تیار کی گئی ہے۔ عبداللہ شاہ اصحابی سے جام نظام الدین سموں تک راستہ صاف کیا گیا ہے۔ تین سو سے زائد پودے اور درخت لگائے گئے ہیں۔ بہت جلد ٹھنڈے پانی کی ایس ایم ڈی مشین لگائی جائے گی اور سولر پلیٹیں بھی لگائی جائیں گی۔

محکمہ آثارقدیمہ و نوادرات کے ڈائریکٹر جنرل منظور احمد کناسرو کے مطابق مکلی میں نئی تدفین پر 144 قانون لگا کر بالکل بند کردیا گیا ہے۔ مکلی کے نزدیک نیا قبرستان بنایا گیا ہے، اب مکلی کے قرب وجوار کے لوگ وہاں تدفین کرسکیں گے۔ قومی ورثے کو نقصان پہنچانے، بدصورتی پیدا کرنے، خطرے سے دوچار کرنے یا یہاں پر تعمیرات کرنے کے عمل پر سندھ کلچرل ہیریٹیج پریزرویشن ایکٹ 1994 کی دفعہ18 کے تحت غیر قانونی اور قابل سزا عمل ہے جس پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا۔

یہ قدیم ورثے ہماری تہذیب و ثقافت کی پہچان ہیں۔ ان کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مکلی کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی حفاظت وخیال اپنے گھر کی طرح رکھیں۔ کیونکہ مہذب اقوام اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھ کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں اور یہی قومی ورثے آنے والی نسلوں کےلیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مزمل فیروزی

مزمل فیروزی

بلاگر انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایک مقامی روزنامہ میں بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @maferozi پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔