کورونا نے لوگوں کی زندگیوں کو کیسے متاثر کیا؟

تحریم قاضی  اتوار 17 مئ 2020
دنیا کو تہہ وبالا کر کے رکھ دینے والی وباء کے انسانی زندگیوں پر اثرات کے حوالے سے سروے رپورٹ ۔  فوٹو : فائل

دنیا کو تہہ وبالا کر کے رکھ دینے والی وباء کے انسانی زندگیوں پر اثرات کے حوالے سے سروے رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس روزبروز خطرناک سے خطرناک تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اب تک (آخری معلومات) دنیا بھر میں اکتالیس لاکھ سے زائد افراد کورنا وباء سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ اڑھائی لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

کورونا کے وسیع تک اثرات سے نامعاشرہ بچ سکا نہ معیشت، صنعت و تجارت ٹھپ ہوچکے جبکہ کاروبار زندگی بھی معطل ہے۔ ڈراور خوف کے زیر سایہ افراد یہ نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ آنے والے وقت میں کیا ہوگا۔ پاکستان میں بھی کرونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے۔

کورونا کا زور ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ ایسے حالات میں زندگی عام روش سے ہٹ کر چل رہی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے کورونا زندگی  میں بریک لانے کا سبب بنا ہے جبکہ کچھ ایسے بھی افراد ہیں جن کی زندگی کورونا میں ایک ٹف ٹاسک بن چکی ہے۔ وہ دوہری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی پر کورونا کس طرح اثر انداز ہوا ہے یہ جاننے کے لیے ایک تحقیقی سروے کیا گیا جس میں یہ جاننا مقصود تھا کہ کورونا کی وجہ سے ان کی نجی و پیشہ وارانہ زندگی کیسے متاثر ہورہی ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ کورونا سے انہوں نے کیا سیکھا؟

گھر میں الگ سے کرفیو لگاہوا ہے

کورونا وائرس نے جہاں تمام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے ونہی خاتون خانہ کی زندگیوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ کورونا کے ہاس وائف کی زندگی کی بابت جب ہم نے سروے کیا جس کی تفصیل قارئین کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگی۔ شکیلہ (فرضی نام) ایک ہاس وائف ہیں۔ ان کے شوہر شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور آج کل آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ ان کے دو بچے بھی ہیں جوکہ سیکنڈری سکول کے سٹوڈنٹس ہیں۔ شکیلہ کہتی ہیں ’’جب سے لاک ڈان شروع ہوا میں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہوں۔

چار کمروں پر مشتمل گھر میں تین کمروں پر میرے شوہر اور بچوں کی حکمرانی ہے۔ میرے حصے میں کچن اور ڈرائنگ روم آتے ہیں۔ تینوں سارا سارا دن آن لائن کلاسز کے چکر میں لگے رہتے ہیں اور میں سوچتی ہی رہتی ہوں آخر کس سے بات کروں۔ میں اور گھر میں کام کرنے والی ملازمہ آپس میں بات کرتے بھی ہیں تو ایک دوسرے کو اشاروں سے بات سمجھاتے ہیں کہ وہاں وہ لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔ یوں لگتا ہے گھر میں الگ کرفیو لگا ہو‘‘

شکیلہ کہتی ہیں ’’ایک روز میں نے فرخندہ (ملازمہ) سے کہا چلو قریبی پارک چلتے ہیں۔ وہاں رش نہیں تھا سو میں نے فرخندہ سے کہا مجھ سے اونچی اونچی آواز میں باتیں کرو، پھر میں نے اور فرخندہ نے خوب باتیں کیں اور کھل کر سانس لیا۔ہمیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ سب گھر میں ہوکر بھی گھر میں نہیں۔ ہاں مگر اس بات کی خوشی ہے کہ میرے شوہر نہایت دیانت داری سے پڑھاتے ہیں اور روزق حلال کماتے ہیں۔ اللہ جلد کورونا کو ختم کرے۔‘‘

جیوفزیسٹ کامران جاوید کہتے ہیں کہ ’’کورونا نے میری پروفیشنل لائف کو بہت کم متاثر کیا۔ کیونکہ میرے کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ کورونا سے اس پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ بس لوگوں سے میل جول میں ایک ڈر سا لگا رہتا ہے۔ مگر جو اہم بات سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ انسان بے بس ہے چاہے ترقی کہ جتنے مرضی زینے طے کرے، آسائشوں کے انبار لگالے کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔‘‘

عادل فاروق ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’کورونا کے بعد ٹائم مینجمنٹ اور ڈسپلن میں بہتری محسوس کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ آپس میں کمیونیکیشن بہت بہتر ہوئی۔ جہاں تک سیکھنے کی بات ہے تو میں نے زندگی کی ناپائیداری، گھر میں رہنے کے فوائد و نقصانات، آسائشات زندگی سے چھٹکارا، نظم و ضبط، رابطے میں رہنے کے فوائد اور اپنی ذات کو وقت دینے کی اہمیت کو سمجھا ہے۔‘‘

شائستہ (فرضی نام) ایک مڈ وائف ہیں وہ کہتی ہیں کہ ’’کورونا ہمارے پر یہ ذمہ داری بڑھا دی ہے کہ ہمیں اپنے ملک اور خاندان کا خاص خیال رکھنا ہے اور متحد ہوکر اس وائرس سے لڑنا ہے، اس پھیلنے سے روکنا ہے۔‘‘

کورونا وباء میں جہاں ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر کام کررہے ہیں وہیں نرسز بھی۔ پیش پیش ہیں اعظمی (فرضی نام) نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور کورونا کے اثرات کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’’کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارا ورک لوڈ بڑھ گیا ہے۔ کورونا کیمپس میں ہماری ڈیوٹیز لگائی گئی ہیں جوکہ بہت مشکل روٹین تھی۔ خوشی ہے کہ فرنٹ لائن پر کورونا کہ مریضوںکو ڈیل کیا اور کرونا کا مقابلہ کیا اور یہ کہنا چاہوں گی کہ کسی بھی وبائی مرض کے پھیلنے پر میڈیکل فیلڈ سے وابستہ افراد کو متحد ہوکر کام کرنا چاہیے اور ڈٹ کر مقابلہ کرکے شکست دینی چاہیے۔‘‘

اس ضمن میں جب ایک لیڈی ڈاکٹر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’جب تک ہم سب مل کر اس کا مقابلہ نہیں کریں گے یہ روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اورحالات کے مقابلے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔

ویکسین اس صورت حال میں ناگزیر ہے۔ ‘‘

جہاں ڈاکٹرز ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی طبیب ہیں جوکہ آن لائن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر شیرین چیف منسٹر سندھ ٹیلی ہیلتھ انیشیٹو کوویڈ۔19 آئسولیشن مانیٹرنگ سیل کے زیر اہتمام ای ڈاکٹرز پروگرام کے تحت کام کررہی ہیں یہ پروگرام خصوصاً لیڈی ڈاکٹرز چلا رہی ہیں جوکہ یہ کام رضا کارانہ طور پر کررہی ہیں۔ ناصرہ کا کہنا ہے ’’کراچی شیفٹنگ اور بچوں کی وجہ سے میری پریکٹس میں چار پانچ سال کا وقفہ آگیا تھا پھر میں نے اپنی فیلڈ کے آن لائن کورسز جاری رکھے اور یوں میں اس پروگرام کا حصہ بنی۔ پہلے کبھی سوچا نہ تھا کہ آن لائن سب اکٹھا ہوں گے۔ بہت سی خواتین کومسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے وہ پہلے بھی جاب نہیں کررہی کہ وقت دینا مشکل ہوجاتا ہے لیکن جن ڈاکٹرز حضرات کا اپنا رجحان تھا انہوں نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ گو کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل طے کررہا ہے مگر ابھی کورونا کے بارے میں بھی کوئی حتمی معلومات آپ کو کہیں سے نہیں مل سکتیں۔ سو ہم کام کررہے ہیں اور خدمت خلق کے لیے کوشاں ہیں۔ جو چیز سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ اتحاد بے حد ضروری ہے۔ ایسے موقعوں پر بھی سیاست کرنے والے صرف انتشار پیدا کرتے ہیں۔ مایوسی کی صورت حال پیدا ہونے سے ہمت ہارنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ تو سب کو متحد رہنا چاہیے‘‘

شاہد علی جو پیشے کے لحاظ سے ایک اکانٹنٹ ہیں کہتے ہیں کہ ’’آفس مکمل طور پر بند ہے اور پیشہ وارانہ کام اور روپے پیسے کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا سے میں نے یہی سیکھا ہے کہ زندگی کی ترجیحات میں صرف آفس ہی ضروری نہیں بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آگئے۔ ‘‘

  دکھ ہے کہ ٹورازم کا شعبہ پوری دنیا میں بہت پیچھے چلا گیا

ٹی۔ڈی۔سی۔پی ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد تنویر جبار بیسویں گریڈ کے سرکاری ملازم ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’کورونا سے فائدہ بھی ہوا لیکن نقصان زیادہ ہوا ہے۔ ایک تو جو ٹارگٹس پروفیشنل لائف کے حوالے سے سیٹ کررکھے تھے وہ میٹ اپ نہیں ہوئے۔ گو کہ میں جس شعبے سے منسلک ہوں وہ ضروریات زندگی میں نہیں شامل مگر وہ لوگوں کو جہاں ریفریشمنٹ دیتا ہے وہیں معاشی فائدہ بھی دیتا ہے۔

مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کو ایک طویل عرصے بعد ٹورازم کی صورت میں ایک آنرشپ(اعزاز) ملی اور پاکستان دنیا میں ان اہم مقامات میں نمایاں حیثیت بنا رہا تھا مگر اب پوری دنیا میں یہ شعبہ بہت پیچھلے چلا گیا ہے۔ جس کو شاید دوبارہ بحال ہونے میں وقت لگے گا۔ اس کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ شاید یہ اللہ پاک کی جانب سے ہی ہے کہ ہمیں سبق ملاا کہ ڈیجٹلائزیشن جانب جانا چاہیے۔

بجائے اس کے کہ آپ اتنی دور دور میٹنگز میں جائیںلوگوں کو کلاس روم میں بیٹھا کر پڑھائیں تو بہت سی چیزیں ڈیجٹلائزیشن سے ہوسکتی ہیں جس سے ناصرف آسانی ہوتی ہے بلکہ آپ کا سرمایہ بھی محفوظ ہوتا ہے۔ تو اب ہمیں مینول سے ڈیجیٹل کی جانب شفٹ ہونے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

خوش قسمتی سے میں ڈائریکٹر جنرل ماحولیات بھی رہ چکا ہوں تو اچھی بات یہ ہوئی کہ آلودگی کم ہوئی پھر اس کے ساتھ ساتھ ہی اہم بات یہ ہے کہ اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس وقت پلاسٹک کا استعمال ختم نہ کیا، احتیاط نہ کی اور قدرت سے محبت کرنے والے نہ بنے تو اس قسم کی بیماریاں آتی رہیں گی۔ تو یہ خدا کی طرف سے ایک اشارہ اور تنبیہ ہے کہ محتاط ہوجائیں اور فطرت سے پیار کریں۔

آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو مذہب نے کہا اور جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تھی کہ وباء میں شہر نہ چھوڑیں وہ نیویارک کی دیواروں پر لکھی ملتی ہے۔ تو بہت تھوڑے پہلو ہیں جو منفی ملتے ہیں۔‘‘

ذاتی زندگی پر کورونا کے اثرات سے متعلق محمد تنویر کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے میرے لیے گھر پر رہنا بے حد مشکل کام تھا۔ مشکل سے دس روز گھر ٹھہرا پھر دفتر کا رخ کیا۔  لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ اس وقت کو میں نے ضائع نہیں کیا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا، مثلاً فوٹو شاپ کرنا، ویب سائٹ بنانا اور اپنے طور پر ٹورازم کی ایک ویب سائٹ بنانا شروع بھی کردی ہے۔ جو وقت پہلے نہیں ملتا تھا وہ چیزوں میں صرف کیا۔

موسیقی کا شوق پورا کیا۔ لیکن شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے میرے اندر ایک خوف بھی تھا۔ دن میں تین چار مرتبہ اگر چھینک آگئی یا جب اپنی والدہ کے پاس بیٹھا ہوتا اور سر میں درد ہورہا ہوتا تو سوچتا تھا پتا نہیں مجھے کورونا ہو ناگیا ہو! احتیاط بھی ہے لیکن اللہ پر بھروسا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس نے میری زندگی کو بہت منفی انداز میں متاثر کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں آپ کی زندگی میں خوشیاں آپ کے پروفیشنل لائف کے گولز حاصل کرنے سے جڑی ہوتی ہیں۔

مجھے اس بات کا بہت قلق ہے کہ ہم جس تیزی سے اوپر جارہے تھے اسے روکنا پڑا۔ لیکن ا نشاء اللہ ہم اسے جلد بحال کریں گے۔ اقوام متحدہ کی گائیڈ لائنز کے مطابق میں ایک کتابچہ ترتیب دے رہا ہوں جس میں لوگوں کو یہ آگاہی فراہم کرنا مقصود ہے کہ ہم نے کیسے اس صورتحال سے نکلنا ہے، کیسے اجتماعی اصول ہوں گے، کیا طریقہ کار ہوگا۔ مثبت بات یہ ہے کہ میں نے اپنے منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر بہت سے ڈویلپمنٹ پروگرام بنائے اور اپنا نیکسٹ پلان بنایا، وہ بہت خوبصورت ہے۔

تو اگر انسان کی نیت ٹھیک ہو تو کورونا کچھ نہیں کرتا۔ پروفیشنلی کورونا مجھے کچھ پیچھے لے گیا ہے۔ مگر میں نے اسے شکست دی ہے، ایسے کہ ہم نے جو سمری بنائی ہے اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جن پر ہمیں مستقبل میں عمل پیرا ہونا ہے۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ میں اس سے ڈرگیا ہوں تو ایسا قطعاً نہیں ہے۔‘‘

جب ان سے کورونا سے سیکھنے کی بابت دریافت کیا تو محمد تنویر کا کہنا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک وارننگ ہے، کیونکہ جب دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اورقدرت کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے۔ یہ سیکھا کہ آج سے صدیوں پہلے ہمارے پیغمبر ؐ نے جو کہا ہے آج درست ثابت ہو رہا ہے۔ پاکیزگی نصف ایمان ہے تو آج دنیا نے دیکھا کہ بارہا ہاتھ دھونے کا کہا گیا۔

تو ہم بھی اللہ کے احکامات پر عمل کریں تو جو وضو کی صورت پانچ مرتبہ تلقین کی گئی وہ بے معنی نہ تھی۔ پھر ان لوگوں کو ملنے کی فہرست ملی جن کو ہم نے اگنور کررکھا تھا، ان لوگوں کا احساس ہوا جن کے پاس روپیہ نہیں تھا، ہر آفت کے اندر ایک پیغام چھپا ہوتا ہے تو میں اس سے ایمپاور (Empower) ہوا ہوں گو کہ کچھ وقت کے لیے میں ڈپریس ہوا لیکن اب میرے پاس ایک روڈ میپ ہے کہ ہم نے کیا کیا اور کیا کرنے جانا ہے۔ اب تو میں ڈرتا بھی نہیں کیونکہ موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ لیکن احتیاط لازم‘‘۔

کورونا سے پتا چلا کہ ہمارا پروفیشن کتنا ڈیمانڈنگ ہوسکتا ہے

شعبہ طب کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت فرنٹ لائن پر کام کرنے والے افراد کاحوصلہ قابل تحسین ہے۔ انسانیت کے محسن اپنی جانوں کی پرواہ کیے بنا کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔

ڈاکٹر واسع اعظم سی۔ایم۔ایچ راولپنڈی میں کوویڈ19 سپیکٹ وارڈ میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کورونا کے آنے سے پروفیشنل لائف مجموعی طور پر تھوڑی مشکل ہوگئی ہے۔ شفٹس کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ مریضوں کو سکریننگ کے بعد دوسرے وارڈز میں منتقل کرنا ہوتا ہے اور یہ ایک بہت خطرناک بیماری ہے جس سے بچنا بے حد مشکل ہوتا ہے اور دوران ڈیوٹی اپنی بھی حفاظت کرنا ہوتی ہے تو ہم پر دہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔

کورونا آنے کے بعد لائف بہت ٹف اور چیلنجنگ ہوگئی ہے۔ شفٹوں کا دورانیہ مریضوں پرمنحصر ہوتا ہے جیسے جیسے زیادہ مریض آتے جائیں تو اس حساب سے ہمیں وقت دینا ہوتا ہے۔ پہلے اگر ہم آٹھ گھنٹے کی شفٹ کرتے تھے تو اب بارہ سے چودہ گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ مریضوں کو ٹریس کرنا ہوتا ہے۔ پی۔سی۔آر، چیسٹ ایکس رے اور سی ٹی سکین کرنے تک آپ فری نہیں ہوسکتے۔‘‘

جب ڈاکٹر واسع سے پوچھاکہ اس ساری صورتحال میں آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ’’بنیادی طور پر یہی فیلنگز ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس مرض کو جلد سے جلد ختم کرے تاکہ ملک میں حالات پھر سے معتدل ہوجائیں کیونکہ اس سے ناصرف ہماری معیشت کو خسارہ ہورہا ہے بلکہ بادی نظری میں تمام شعبہ زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں۔ تو ہماری فیلنگز یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد سے جلد ٹھیک کردے اور زندگی معمول پر لوٹ آئے‘‘

طبی عملے کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی موجودگی و اہتمام کی بابت ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری ایک حفاظتی کٹ ہوتی ہے جسے پہننے کے بعد سر سے پاں تک ڈھانپنا ہوتا ہے۔ جب بھی سکریننگ کے لیے جانا ہوتا ہے تو اسے پہنتے ہیں اور شفٹ کے آخر میں اسے ڈسکارڈ کردیا جاتا ہے۔ اس کٹ کو پہننے کے بعد ویسے تو ہم محفوظ ہوتے ہیں لیکن ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ اس کے اندر بہت پسینہ آتا ہے اور کھانا کھانے یا پانی پینے نجی ضروریات پورا کرنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔

اگر اس دوران پانی پینا ہو یا کھانا ہو تو اس کے لیے الگ کمرے بنے ہوتے ہیں لیکن اس میں بہت وقت لگتا ہے اور یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے تو ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو مرتبہ جائیں یا شفٹ کے اختتام پر۔ گھر آنے کے بعد کچھ کر نہیں پاتے کیونکہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں۔

لیکن حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ آپس میں کولیگ وغیرہ بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ہمت بڑھتی ہے اور ٹیم کی بہت سپورٹ ہے۔‘‘ ڈاکٹر واسع سے جب کورونا سکریننگ کے لیے آنے والوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ درست ہے کہ لوگوں کی اکثریت کورونا سے ڈری ہوئی ہے مگر سکریننگ کے لیے آنے والوں میں بھی آگے دو مختلف رویوں کے لوگ ہیں۔

کچھ لوگ بہت تعاون کرتے ہیں اور وہ ہماری مشکلات اور باقی معاملات کو سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف کے لوگ بہت ہائپر ہوجاتے ہیں جوکہ اصل میں کورونا کے ڈر کی وجہ سے نفسیاتی دبا میں مبتلا ہوکر بوکھلائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس گزشتہ ہفتے تک آٹھ کورونا پازیٹو کیسز آئے جنھیں آئسولیشن وارڈجبکہ باقی نتائج نیگیٹو والوںکو متعلقہ وارڈ میں شفٹ کردیا گیا۔ کورونا مریض کی ونگز میں ان کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور باقی مریضوں کی طرح تمام چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔

کیونکہ وہاں سب کورونا پیشنٹ ہوتے ہیں تو ان کے آپس میں کانٹیکٹ کا مسئلہ نہیں ہوتا مگر جو سٹاف وہاں جاتا ہے مثلاً نرسز، ڈاکٹرز تووہ باقاعدہ طور پر کٹس میں جاتے ہیں۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ گھر والوںسے دور رہیں۔ موبائل فونز تو ان کے پاس ہوتے ہی ہیں مگر کھانا وغیرہ ہسپتال کی جانب سے ہی دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لوگوں میں ڈر ہے مگر وہ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے۔‘‘

’’کورونا سے ہمیں پتا چلا کہ ہماراکام کس قدر اہم ہے اور یہ کہ فرنٹ لائن پر ہم نے کیسے آنا ہے اور یہ سیکھا کہ کوئی بھی مشکل آئے تو انسان کو اس کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے تب ہی وہ دور ہوسکتی ہے۔‘‘

 چلتی گاڑی کا پہیہ رکا ہوا ہے

کاروبار اس وقت کورونا سے متاثر ہونے والی فہرست میں اہم شمار ہوتا ہے۔ کورونا کے بزنس پر اثرات کے حوالے سے تعمیرات کے شعبے سے منسلک عثمان علی خان کا کہنا ہے ’’میں کنسٹرکشن سے متعلقہ خدمات دیتا ہوں۔ پیشہ وارانہ زندگی کی بات کریں تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اگر میں کچھ کرنا بھی چاہوں تو دوسروں کی مدد کے بنا اکیلے  نہیں کرسکتا۔ پہلے ہی لاک ڈان کی وجہ سے سارے پروجیکٹس متاثر ہیں۔

اسی طرح ڈیزائن کا سیکشن ہے وہ بھی یوں ہی متاثر ہے۔ مشکلات اس طرح سے نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ایک نظام ہے۔ ہاں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ  چلتی گاڑی کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ مجھے زیادہ تکلیف یہ ہوتی ہے کہ میرے جو جونیئر متاثر ہیں یا جو سٹاف یا لیبر ہے یا جو پروجیکٹس سے متعلقہ ایسوسی ایشن ہیں وہ سب پریشان ہیں۔‘‘

عثمان علی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر یہ صورت حال مزید طوالت اختیار کرتی ہے تو آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور کیا آپ کے پاس اتنا مارجن ہے کہ اگلے چھ ماہ بغیر کاروبار کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا، ’’دیکھیں اس طرح کا محفوظ سر مایہ کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہماری زندگی میں اس طرح کا تجربہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

تاریخ میں پڑھا کرتے تھے کہ فلاں جگہ طاعون کی بیماری آئی تھی تو کتنی تباہی ہوئی، لیکن اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرتی ہے تو ہمیں بہت سی قربانیاں دینا ہوں گی اور بہت ساری چیزیں پیچھے چھوڑنا پڑیں گی۔ مجھے لگتا ہے جو ایک ڈیڑھ ماہ گزرا ہے اس میں ہم ایک ڈیڑھ برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ دراصل یہ وقت کا نقصان ہے۔ اگر چیزیں جہاں کھڑی ہیں میں وہیں سے شروع کرتا ہوں تو میرا کام تو پھر سے شروع کرنے کے مترادف ہوگا۔

میرے ایک دوست سٹیل مل اونر ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے باہر سے شپمنٹ کروائی تھی ’’تین ماہ پہلے بکنگ کروائی جاتی ہے، اب مجھے کسٹم بھی پے کرنا ہے، ٹیکسز بھی دینے ہیں، چاہے میرے پاس کچھ ہے یا نہیں ہے۔ تو میری شپ منٹس آئی جارہی ہیں۔‘‘ یہاں تو عام حالات میں لیبر تین دن عید کی چھٹیوں پر جائے تو بارہ دن بعد آتی ہے اب تو ایک لمبے عرصے بعد ان کے جو تانے بانے تھے وہ بکھرگئے ہیں۔ اب دوبارہ ہر پروجیکٹ کو چاہے وہ کتنا ہی مکمل ہونے کے قریب تھا اسے زیرو سے شروع کرنا ہے۔

لیکن اگر یہ عرصہ لمبا جاتا ہے تو میں اسے آئن لائن سسٹم کے اندر بدلنے کی کوشش کروں گا۔ ایک ایسا سسٹم بناں کے مجھے گھر بیٹھے سب مل جائے۔ مثلاً سائٹ پر کچھ ایسے پروپوزلز دوں گا کہ جیسے ایک سائٹ پر لیبر آئسولیٹ ہوگی۔ مہینہ مہینہ کرکے کام کروایا جائے اور وہاں تمام خام مال مہیا کیا جائے۔ جو مہینے یا دو ماہ کے بعد چھٹی پر جانا چاہیے تو وہ واپسی پر سکریننگ کرواکر جائے گا۔‘‘

مزید کہنا تھا کہ ’’میں نے کورونا سے دین سیکھا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتیں مجھ پر واضح ہوگئیں کہ مجھے خود کو صاف ستھرا رکھنا ہے، مجھے اللہ کو تنہائی میں یاد رکھنا ہے، اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا ہے، مجھے کیسے صبر کرنا ہے اور کیسے دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ان دنوں میں نوٹ کی وہ یہ کہ اگر ہم سادہ زندگی ان دنوں میں گزار سکتے ہیں تو عام دنوں میں کیوں نہیں گزار سکتے۔ سب کھا، پی رہے ہیں۔

زندگی کا سفر رواں ہے مگر جو غیر ضروری سرگرمیاں تھیں وہ ختم ہوگئیں لیکن اس سے زندگی کتنی پرسکون ہوگئی۔ نہ دھواں ہے نا آلودگی ہے نہ افراتفری، نا ایکسیڈنٹ کی وہ شرح ہے نہ ٹریفک کا بے ہنگھم شور تو مجھے لگا کہ اگر عام زندگی میں بھی ایسے گزارہ کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔‘‘

ہم وہ نسل ہیں کہ ہم نے اللہ کی لاٹھی چلتے دیکھی

محمد احمد صہیب پیشے کے لحاظ سے ایک جیوفزیسٹ ہیں اور انرجی سیکٹر سے منسلک ہیں۔ ان کا کام تیل و گیس کا سروے کرنا ہے۔ کورونا کے دوران ان کے کام کی کیا صورتحال رہی انہی کی زبانی جانتے ہیں، ’’حکومت نے انرجی سیکٹر کو ایک دن کے لیے بھی نہیں روکا، اس میں بجلی کی پیداوار، تیل اور گیس کے ادارے ہیں۔

ہمارے لیے حکومت کی جانب سے خاص حکم نامہ جاری کیا گیا تھاکہ انہیں بالکل نہ روکا جائے۔ شروع شروع کے دنوں میں بہت مسئلہ ہوا، پولیس والے روکتے تھے اور ہمارے لیٹر دکھانے پر کہتے تھے تم فون کرا ہم کہتے تھے آپ کروائیں اس طرح لڑ جھگڑ کر گھنٹے ڈیڑھ میں ہم آگے نکل جاتے تھے۔ ہمارا کام تو نہیں رکا مگر ہمیں یہ آرڈر ملا کہ جو فیلڈ مین ہیں وہ فیلڈ میں رہیں اور جو گھر میں ہیں وہ گھر رہیں۔

تو یوں ہم روٹین سے ہٹ کر دو سے اڑھائی ماہ وہاں رہے ۔ فرق یہی پڑا کے ہماری چھٹیاں بند ہوگئیں اور دوسرا ایک خوف کی فضاء تھی کیونکہ ہم روزانہ کی بنیاد پر لیبر اٹھاتے جہاں ہمارا کام ہوتا۔ اب لوکل لیبر اٹھانے سے ہم خطرے کی لپیٹ میں آجاتے کیونکہ اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بندہ رات کہاں رکا، کس سے ملا۔ زیادہ سے زیادہ ہم ہاتھ دھلوا دیتے۔ اسی دوران ایک دو گاں میں کورونا کے کیسز بھی نکل آئے۔ ان علاقوں پر فوج کا کنٹرول ہے کیونکہ یہ وہی علاقے ہیں جہاں ضرب عضب ہوا۔ تو ان گاں میں جانے سے منع کردیا گیا جس کا دورانیہ ہفتے دو پر مشتمل تھا۔

ہم دوسرے علاقوں میں کام کرتے رہے۔ مگر اس دوران اس کے بعد جب دوبارہ ٹیسٹ کروائے گئے تو پھر ہمیں جانے دیا گیا۔ Limitations اور Resrictions بڑھتی جارہی تھیں مگر منسٹری کی جانب سے مسلسل آرڈر آرہے تھے کہ کام نہیں روکنا۔ جیسے ڈاکٹر کام کرنے پر مجبور ہیں ہم بھی مجبور تھے کیونکہ اس شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کا عمل دخل ہے تو اس کو روکنا کٹھن ہے۔‘‘

’’میں تقریباً دو ماہ بعد گھر واپس لوٹا ہوں اور وہ بھی اس شرط پر کہ اپنی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے اہتمام سے گھر لوٹوں۔ اسی طرح آنے والے واپس آسکتے ہیں لیکن اگربیماری لے کر آئے تو پر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ بیماری کی صورت میں آنے سے منع کردیا گیا ہے۔ جس بندے پر شک ہوا اسے وہاں بنائے گئے سینٹر میں منتقل کیا جائے گا۔ یہ وہ محکمہ ہے جو کسی کی نظر میں نہیں مگر اس محکمے کی جو خدمات ہیں، وہ بہرحال کم نہیں ہیں۔ ڈاکٹر تو پھر بھی ماسک پہن کر کام کرتے ہیں اور حفاظتی کٹس کے ساتھ تو لوکل لیبر جن کو شاید پتہ بھی نہیں کہ کورونا کیا ہے ان کے ساتھ کام کرنا انتہائی رسک تھا۔ آہستہ آہستہ ہم نے انہیں سمجھا ہی دیا۔‘‘

’’سیکھنے کی بات کریں تو لفظ ’فانی‘ کا مطلب صحیح معنوں میں سمجھ آیا۔ کبھی سنا کرتے تھے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، تو ہم وہ نسل ہیں کہ ہم نے وہ لاٹھی چلتے دیکھی۔

ہم سے پہلے تین چار نسلیں کشمیریوں پر ظلم دیکھتے چلی گئی ہیں، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ظلم پر قدرت نے سخت ایکشن لیا ہے۔ جہاں زندگی کی بے ثباتی دیکھی وہیں اللہ کی قدرت کا اظہار بھی دیکھا ہے۔ ہماری نسل ہوش کے عالم میں کورونا کا مشاہدہ کررہی ہے تو کم سے کم ہماری نسل کورونا سے سبق حاصل کرلینا چاہیے۔‘‘

 سب سمجھتے ہیں کہ شاید گھر پر بیٹھے ہیں تو بالکل فارغ ہیں

شعبہ تدریس سے وابستہ ڈاکٹر عامر سعید یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لا ہورکہ سکول آف بزنس اینڈ اکنامکس میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جب ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’جمعہ کے روز لاک ڈان کا فیصلہ ہوا تو یہ ایک پریشان کن صورتحال تھی مگر انتظامیہ کی جانب سے فوراً اس کرائسز سے نکلنے کا بندوبست کیا گیا اور شدید آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ پیر کی صبح آٹھ بجے ہم آن لائن کلاس لے رہے تھے‘‘ عامر سعید کہتے ہیں کہ ’’گو کہ آن لائن سسٹم ہمارے لیے ایک نیا تجربہ ہے اور اس میں سٹوڈنٹس کے لیے کلاس روم جیسا ماحول فراہم کرنا مشکل چیلنج ہے مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے طلباء بھی بھرپور انداز میں شرکت کرتے ہیں۔

گو استاد کے لئے طلباء کے بی ہیویئر کی اسسٹمنٹ کرنا بہت کٹھن ہے کہ آیا واقعی کوئی تکنیکی ایشو ان کی سمجھ میں بات نہ آنے کی وجہ ہے یا وہ وقت لینا چاہ رہے ہیں۔ لیکن جو خوش کن بات ہے وہ یہ ہے کہ ہر کاس میں ایوریج اٹینڈنٹس 90 فیصد سے کم نہیں ہوتی۔ ہاں دیکھا جائے تو اساتذہ کے لئے مشقت بڑھ گئی ہے کہ پہلے جو بات ایک بار کہنا ہوتی اب تین سے چار مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔

سسٹم کی بہتری کے لیے ہم نے آن لائن ویڈیو کانفرنسز ایپ کا لائسنس ورژن خرید لیا ہے، جس میں مسائل کم سے کم ہوں‘‘ نجی زندگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’گو کہ کورونا میں سوشل ڈسٹیننگ ضروری ہے اور گھر سے کلاس لینا ایک اچھا تجربہ ہے مگر اس سے سب سمجھتے ہیں کہ شاید گھر پر بیٹھے ہیں تو بالکل فارغ ہیں۔ اب تو سیچر ڈے اور سنڈے کو بھی آن لائن میٹنگز ہورہی ہوتی ہیں اور بعض اوقات تو رات بارہ بجے بھی کوئی مسیج آجاتا ہے۔ اب تو کسی چھٹی کا تصور ہی نہیں‘‘

’’جہاں تک کورونا سے سیکھنے کی بات کا تعلق ہے تو کورونا نے انسان کو اس کی اوقات یاد دلادی ہے۔ یہ واضح کررہا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے بے بس ہے اور ایک اہم سبق یہ کہ مشکل حالات میں ہاتھ پاں چھوڑ دینے کے بجائے ان میں بہتری کے لیے جدوجہد کرنا اہم ہے۔‘‘

مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے

یونیورسٹی آف سرگودھا، انچارج ڈیپارٹمنٹ آف کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سٹڈیز نعمان یاسر قریشی کہتے ہیں کہ ’’یقینا یہ ایک مشکل وقت اور صورت حال تھی مگر یہ بات قابل تحسین ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وائس چانسلر نے ایک اہم فیصلہ لیا کہ طلباء کا وقت اور تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔ اسی ضمن میں لاک ڈان کے پہلے ہی ہفتے آن لائن کلاسز شروع کردی گئیں۔ اس سلسلے کو میں ایک خوش آئند کے طور پر دیکھتا ہوں کیونکہ جلد یا بدیر ہم نے آنے والے وقتوں میں اس سسٹم کو اپنانا ہی تھا۔

اس وباء کے آنے سے جو کام شاید ہم نے آج سے دس برس بعد کرنا تھا وہ ہم آج کررہے ہیں۔‘‘ طلباء کے رسپانس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’گوکہ شروع شروع میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو بہت سی پیچیدگیاں تھیں، طلباء اور اساتذہ کی اکثریت اس انداز میں کام سے آشنا نہ تھی مگر جب یہ طے کرلیا کہ ہمیں ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے تو مسائل کا حل سمجھائی دینے لگا۔ ابھی بھی شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے جو دو سے تین فیصد طلباء ہیں ان کے لیے نیٹ ورک سے رابطے کے مسائل ہیں مگر ہم بھرپور تعاون کررہے ہیں۔‘‘

کورونا کے ان کی ذاتی و پروفیشنل زندگی کے متعلق اثرات پر انہوں نے کہا کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ اب ذمہ داریاں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ بطور استاد تو اپنے فرائض سرانجام دینے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بطور چیئرپرسن مجھے اپنی ٹیم کو بھی لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ پھر یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی رابطے میں رہنا انہیں بریف کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ہم مسلسل اس تگ و دو میں ہیں کہ آن لائن سسٹم کو بہتر سے بہتر انداز میں تمام طلباء و طالبات کی رسائی میں لاسکیں۔

چیلنجز تو ہیں مگر ہمیں ان سے نمٹنا ہے۔ یقینا اس صورت حال میں گھر میں رہتے ہوئے گھر والوں کو وقت دینا مشکل ہورہا ہے مگر ایسے میں ان کی جانب سے تعاون نے چیزوں کو سہل بنا دیا ہے۔ کیونکہ گھر والے بھی ہمیں اور ہماری پوزیشن کو سمجھ رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے کورونا سے سیکھنے کی تو سب سے پہلے یہ کہ ہم سب خواہ کتنا ہی طاقتور ہونیکا دعویٰ کریں مگر سب اللہ کے سامنے بے اختیار ہیں۔ حتمی طاقت و اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس سے رجوع کرنے میں فلاح ہے اور دوسری اہم چیز یہ کہ مشکل حالات میں ہمت نہیں ہارنی اور سسلہ روز و شب کو چلتے رہنے دینا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔