نئی مردم شماری سے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونیکا خدشہ

سید اشرف علی  جمعرات 5 دسمبر 2013
شماریات بیورو نے مشترکہ مفادات کمیٹی کو مردم شماری کیلیے 9ارب کی سمری بھیج دی. فوٹو؛فائل

شماریات بیورو نے مشترکہ مفادات کمیٹی کو مردم شماری کیلیے 9ارب کی سمری بھیج دی. فوٹو؛فائل

کراچی: قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں نئی مردم شماری کا مطالبہ اگر حکومت نے فوری طور پر منظور کرلیا تو ملک میں بلدیاتی انتخابات لمبے عرصے کیلیے موخر ہوجائیں گے۔

مردم شماری 5 سال سے التوا کا شکار ہے جس کے باعث قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نئی حدبندیاں نہیں ہوسکی ہیں، صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل میں کئی قانونی خامیاں سامنے آئی ہیں، سندھ وپنجاب میں بیشتر مقامات پر آبادی کم اور انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کی تعداد زیادہ ہے، نئی مردم شماری ہونے سے حلقہ بندیوں کا ابہام دور ہوجائے گا،ماہرین کا کہنا ہے کہ شہری ودیہی آبادیوں کے سماجی ومعاشی مسائل سے مکمل آگاہی ملے گی، ٹائون پلاننگ، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات طے کیے جاسکیں گے۔ بیورو آف شماریات نے مشترکہ مفادات کی کمیٹی کو سمری بھیجی ہے کہ ملک میں اگلے سال مارچ اپریل میں مردم شماری کرائی جائے جس کیلیے 9ارب روپے درکار ہوںگے۔ سماجی ومعاشی ماہرین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے ملک میں نئی مردم شماری کا مطالبہ ماننے سے بلدیاتی انتخابات لمبی مدت کیلیے موخر ہوجائیں گے جبکہ مردم شماری کے فیصلے پر عملدرآمد سے مثبت پہلو بھی نمایاں کیے گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر حکومت نے ملک میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کرلیا تو سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 2014 کے دوران بلدیاتی انتخابات ناممکن ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جمعے سے کیا جارہا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے سندھ کیلیے 18 جنوری ، پنجاب کیلیے 30جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے، کنٹونمنٹ بورڈز، اسلام آباد اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن فروری میں منعقد کرائے جائیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ فوری طور پر مردم شماری کرانے سے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخوں میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد موخر کرنا پڑے گا۔

سیاسی رہنمائوں کے مطابق ن لیگ اور پیپلزپارٹی پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں ہیں، ہر بار ایسے ایشوز اٹھائے جاتے ہیں جس کی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن کو ملتوی کرایا جاسکے، بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں ملک کی بڑی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے کیونکہ منتخب بلدیاتی نظام سے ان کے مفادات و اختیارات پر شدید ضرب پڑتی ہے۔ بیورو آف شماریات کے ذرائع نے بتایا کہ مردم شماری کے انعقاد سے3ماہ قبل ٹرانسفر پوسٹنگ روک دی جاتی ہے جبکہ علاقائی حد بندی بھی نہیں کرائی جاسکتی، خانہ شماری و مردم شماری کا فیلڈ ورک 15دن سے ایک ماہ میں مکمل کیا جاسکتا ہے تاہم حاصل ہونے والے مواد کو جامع طریقے سے ترتیب دینے میں 6 سے 8ماہ لگ جاتے ہیں۔

سماجی ومعاشی ماہرین نے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ملک میں مردم شماری جلدازجلد کرائی جائے تاکہ آبادی کا صحیح ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکے، مردم شماری کے ذریعے شہری ودیہی آبادیوں کے سماجی ومعاشی مسائل سے مکمل آگاہی ملتی ہے، اس کی بنیاد پر ٹائون پلاننگ، این ایف سی ایوارڈ، قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں، وفاقی نوکریوں میں صوبوںکا کوٹہ اور غیرملکی امداد کی تقسیم کی جاتی ہے، 1998کی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 13کروڑ سے زائد تھی جبکہ 15 سال کے دوران آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے، درست اعداد وشمار نہ ہونے کے باعث عوامی فلاح وبہبود سے متعلق صحیح پالیسی مرتب نہیں کی جارہی۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے کہا کہ مردم شماری کے نہ ہونے سے بلدیاتی انتخابات کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، مختلف حلقوں کی جانب سے مردم شماری کے حوالے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر حکومت سے درخواست کی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔