آج کا کام کل پر چھوڑنے کا مزا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 14 مئ 2020
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو ہم نے اپنے بہت سارے راز آپ کو بتائے ہوئے بھی ہیں مثلاً یہ کہ ہم نے یہ اتنی ساری حماقتیں اپنے دانا دانشوروں سے سیکھی ہیں اور اتنا سارا علم اس لیے حاصل کیا ہے کہ سقراط کی ہمسری کر سکیں یعنی میں نے ساری عمر میں یہ جان لیا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے سقراط کی طرح اس صدمے کی وجہ سے زہر کا پیالہ نہیں پیا، دوسرے ہی ہمیں پلاتے رہتے ہیں۔

بہرحال یہ راز ہم نے آپ کو بالکل بھی نہیں بتایا ہے کہ آج کا کام کل پر چھوڑنے کو ہم نے ’’اپنا کام‘‘ بنایا ہوا ہے وہ کام ہوتے ہیں وہ تو ہم بڑی آسانی سے کل یا پرسوں یا ’’برسوں‘‘ پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن جو ’’کام‘‘ ہوتا ہی نہیں اسے بھی ہم کل پر چھوڑ دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کوئی کام تلاش کرتے ہیں صرف اس لیے کہ اسے کل پر چھوڑنے میں کامیاب ہو جائیں مثلاً ہم نے یہ کام جو ہے ہی نہیں کل پر چھوڑا ہوا ہے کہ کسی دن دوسروں کو سدھارنے کی بجائے خود بھی سدھر جائیں گے اور پورے ستر اکہتر سال سے ہم اس میں کامیاب ہو رہے ہیں کہ ناموجود کام کو بھی کل پر چھوڑ رہے ہیں اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہم ہوبہو اپنے ملک پر گئے ہیں کہ ستر سال ہو گئے کل پر چھوڑتے چھوڑتے لیکن وہ کام جو کبھی تھا ہی نہیں۔

ویسے بھی انسان بیک وقت صرف ایک ہی کام کر سکتا ہے کہ یا تو باتیں بنائے یاکام کرے سو ہم نے باتیں بنانے کو اولین ترجیح بنایا ہوا ہے اور ’’کام‘‘ کو صرف کل پر چھوڑنے کے لیے رکھا ہوا ہے، ان ستر اکہتر سالوں میں ملک اور ہمارا اسکور بالکل ہی برابر رہاہے، یعنی نہ ہونے والے کام کو کل پر چھوڑنا ۔ آپ شاید سوچنے لگے ہوں جو بالکل غلط ہے سوچنا بھی تو ایک کام ہے اور اسے کل پر چھوڑنا اس سے بھی بڑا کام ہے ۔

ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے

غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں

دراصل اس سلسلے میں ہمارا مقابلہ ایک اور بزرگ ’’سائیں کبیر‘‘ سے ہے، وہ بات بات پر روتا رہتا تھا اور چنانچہ اس نے ایک بڑی نامعقول سی بات کہی ہے اور اگر وہ ہمارے ملک یا ہمارے دسترس میں ہوتا تو اب تک مارا جا چکا ہوتا، کہتا تھا ’’جوکل کرے سو آج جو آج کرے سو اب‘‘ خود ہی انصاف کیجیے کہ یہ کتنا ’’نظریہ پاکستان ‘‘ کا مخالف و متضاد نظریہ ہے۔

ہم نے کبیر اور اس قبیل کے دوسرے مخالف نظریہ پاکستان بزرگوں کے اقوال سنے تو سب سے پہلے تو ان کے مخالف اپنا ایک قول زریں لانچ کر دیا کہ ۔ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ پھر مزید اپنے ’’نظریہ پاکستان‘‘ کو پختہ کرنے کے لیے یہ قول ارشاد کیا جواب کرے سو آج جو آج کرے سو کل اور جو کل کرے وہ پرسوں برسوں۔اچھا ہوا کہ اپنے ہم وطنوں نے ہم سے مکمل اتفاق بلکہ ’’یک جہتی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے اس قول کو گانٹھ باندھ لیا۔ جواب کرے سو آج  جو آج کرے سو کل جو کل کرے سو پرسوں برسوں۔ اور اس پر ستر اکہتر سال سے برابر عمل بھی ہو رہا ہے ’’کل کل‘‘ میں اکہتر سال تو بڑی خیریت سے گزر گئے باقی بھی جتنے نصیب میں ہیں اسی طرح گزر جائیں گے کیوں کہ ’’آج ‘‘ کا کام کل پر چھوڑنے میں ہم اچھے خاصے  تجربہ کار اور ماہر ہو گئے ہیں۔

بلکہ اب کے برس ساون میں۔ یعنی موجودہ تیزگام تبدیلی نے یہ تبدیلی بھی لانچ کر دی ہے کہ کل کو بھی گولی مارئیے پرسوں ترسوں اور برسوں کو بھی۔ سب کچھ آج ہی میں ڈال کر ختم کر دو۔ چنانچہ جتنے بھی کرنے یا کرنے والے کام تھے یا ہو سکتے ہیں وہ سب ہو چکے ہیں بلکہ ’’آج‘‘ اور آنے والی کل سے بھی ’’پہلے‘‘ گزشتہ کل میں کیے جا چکے ہیں ، کرپشن کی اینٹ بجائی جا چکی ہے ، سارے چور پکڑے جا چکے ہیں، قرضے اتارے جا چکے ہیں، مہنگائی بھگائی جا چکی ہے ، کشمیر پر دنیا کا ضمیر جگایا جا چکا ہے ، مطلب یہ کہ سارے کرنے اور نہ کرنے والے کام گزشتہ کل میں کیے جاچکے ہیں، بنیادیں ڈالی جا چکی ہیں، ادارے سیدھے کیے جا چکے ہیں، اینٹیں، سیمنٹ، سریا، ریت ڈھیر کی جا چکی ہے صرف معمار کا انتظار ہے جو فی الحال کہیں اور کسی اور تعمیر میں مصروف ہے اور آیا ہی چاہتا ہے ۔

مطلب یہ کہ راوی، چناب، جہلم، ستلج اورسندھ سب کے سب چین ہی چین لکھتے ہیں اور ہم نہایت آرام سے اپنے ستر سالہ شغل میں مصروف ہیں جو اب کرے سو آج جو آج کرے سو کل جو کل کرے سو  پرسوں ترسوں اور برسوں۔ بندہ پریشان تو خدا مہربان  کہیں نہ کہیں سے کوئی رشتے دار ایسا نکل آئے گا جسے ہم یاد دلا سکیں کہ ہماری مدد اس کا فرض ہے ،

بڑے مزے کا اورنہایت دلچسپ کام ہے تجربہ کر کے دیکھیے مزانہ آیا تو پیسے واپس اپنی جیب میں ڈال لیجیے۔ آج کا کام کل پر چھوڑنے میں جو مزا ہے وہ کام کرنے میں کہاں۔ ہائے کم بخت تم نے پی ہی نہیں۔

جو مزا کبوتر پر جھپٹنے میں ہے وہ مزا کبوتر کے خون میں بھی نہیں۔ غم کے کھانے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے اور کام نہ کرنے میں تو اور بھی زیادہ مزہ ہے۔

آپ یقین کریں ایسے بہت  سے لوگ ہیں جن کو بہت  پہلے چھریاں بھونک بھونک کر یا کلاشن مار کر مارنا چاہیے تھا لیکن ہم نے انھیں نہیں مارا اورآج کا کام کل پر چھوڑنے کا مزہ لیا اور بدستور لے رہے ہیں روزانہ ان کو مارنے کا ارادہ کرتے ہیں او پھر چھوڑ دیتے ہیں چنانچہ ستر سال سے وہ بھی مزے میں ہیں اور ہم بھی۔۔

ارادہ باندھ لیتے ہیںارادہ چھوڑدیتے ہیں

کہ دل ہی دل میں ہم دل کے پھپھولے پھوڑ دیتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔