گھر تو آخر گھر ہوتا ہے

آصف محمود  جمعـء 15 مئ 2020
دارالامان پناہ تو فراہم کرسکتا ہے لیکن گھر کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دارالامان پناہ تو فراہم کرسکتا ہے لیکن گھر کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

افطاری کےلیے کھانا تیار کرتی عائشہ (فرضی نام) کی آنکھوں میں عجیب دکھ اور غم جھلک رہا تھا۔ اسے لاہور کے دارالامان میں آئے ہوئے 8 ماہ ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک اس کے کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا ہے۔

عائشہ کا تعلق پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب سے ہے۔ اس نے گزشتہ برس پسند کی شادی کی تھی۔ اس شادی کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ خونی رشتے خون کے پیاسے ہوگئے اور جن ہاتھوں نے عائشہ کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا، وہی ہاتھ اس کا گلا کاٹنے کے درپے تھے۔ ایک سال پہلے تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ عائشہ کے چھوٹے سے گھر میں خوشیوں کا ڈیرہ تھا۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ اس سے بڑا ایک بھائی جبکہ ایک بھائی اور دو بہنیں چھوٹی ہیں۔ والد کا خود کا کاروبار ہے جبکہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ عائشہ گریجویٹ ہے اور شاید تعلیم کی غرض سے کالج جانا اور پھر اس دوران اپنے علاقے کے ہی ایک نوجوان سے محبت اور پھر شادی، یہی اس کا جرم بن گیا تھا۔

گزشتہ برس اگست میں عائشہ نے اویس نامی نوجوان سے پسند کی شادی کی تھی، جس کے بعد حالات ایسے ہوگئے کہ اسے جان بچانے کے لیے لاہور کے دارالامان میں پناہ لینا پڑی۔ میری اس لڑکی سے ملاقات بھی دارالامان میں ہوئی۔ دارالامان میں عائشہ جیسی درجنوں لڑکیاں ہیں جن کی کہانیاں ملتی جلتی ہیں۔ کسی کا شوہر سے جھگڑا چل رہا ہے اور کوئی سسرالیوں کے ظلم کا شکار ہے۔ کسی کو اپنے ہی ماں باپ کی طرف سے جان سے مارے جانے کا خطرہ ہے۔

میں نے دارالامان لاہور کی سپریٹنڈنٹ مصباح رشید سے درخواست کی تھی کہ میں یہاں مقیم خواتین سے متعلق ایک اسٹوری کرنا چاہتا ہوں، رمضان المبارک میں اپنے گھر اور خاندان سے دور ان لوگوں کےلیے یہ شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟ انہوں نے اجازت دے دی، جس کے بعد ہم یہاں پہنچے اور ہماری عائشہ سے ملاقات ہوئی۔ عائشہ ایک فرضی نام ہے کیونکہ یہ لڑکی نہیں چاہتی کہ اس خاندان کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کہاں مقیم ہے، اس کےلیے مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سچ بتانے سے اس کے خاندان کی نام نہاد عزت پر داغ لگ جائے گا۔ اس کے والد اور بھائی جو پہلے ہی اس کی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں وہ اور غصے میں آجائیں گے۔

عائشہ کی عمر لگ بھگ 23 سال ہوگی۔ خوبصورت اور کچن کے کام میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اسی لیے رمضان المبارک دارالامان کی مکینوں کےلیے سحری و افطاری تیار کرنے والی ٹیم میں وہ رضاکارانہ طور پر شامل ہوگئی۔ ہم لوگ افطاری سے کچھ دیر قبل ہی یہاں پہنچے تھے اور کچن میں کھانا تیار کرتی عائشہ سے چند باتیں ہوئیں۔ عائشہ نے بتایا کہ گزشتہ برس رمضان المبارک میں وہ اپنے گھر میں تھی۔ اپنے ماں باپ کے پاس، اپنی والدہ اور چھوٹی بہنوں کے ساتھ مل کر سب کےلیے سحری و افطاری کا اہتمام کرتی تھی۔ پکوڑے تیار ہوتے، دہی بڑے، چاٹ، مشروب تیار ہوتا۔ سب گھر والے میرے کھانے کی تعریف کرتے تھے۔ یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئی اور ضبط کا دامن چھوٹ گیا۔ اس نے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کیے اور کہنے لگی اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے پسند کی شادی کی ہے۔ اس نے بتایا کہ گریجویشن کے دوران ہی اس کی اویس سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔ اویس کے گھر والوں نے رشتہ بھیجا مگر غیر برادری ہونے کی وجہ سے میرے والدین نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ حالانکہ اویس تعلیم یافتہ ہے اور ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی جاب ہے، لاکھ سے زیادہ ماہانہ تنخواہ ہے، اچھے اخلاق کا مالک ہے۔ مگریہ سب چیزیں میرے والدین کےلیے کافی نہیں تھیں، ان کےلیے برادری اہم تھی۔

عائشہ کے مطابق اس کے گھر والوں کو شک ہوگیا تھا کہ میں اور اویس ایک دوسرے کو جانتے اور پسند کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے جلدی سے میرے ہاتھ پیلے کرنے کی تیاری کردی اور برادری کے ایک شخص، جس کی عمر مجھ سے کوئی 20 سال زیادہ ہوگی، اس سے شادی کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ شخص شاید میٹرک پاس بھی نہیں تھا، بس زمنیں اور پیسہ تھا اس کے پاس۔ اس کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ ناصرف خود شراب کا عادی ہے بلکہ شراب فروخت بھی کرتا ہے۔ میں ایسے شخص کے ساتھ بندھن نہیں باندھ سکتی تھی۔ میں نے گھر والوں سے منتیں کیں، ہاتھ جوڑے کہ اس شخص سے میری شادی نہ کریں مگر وہ بضد تھے۔ اس وجہ سے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا اور میں نے اویس سے کورٹ میرج کرلی۔ گھر والوں نے اویس، اس کی والدہ پر میرے اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

میرے خاندان اور جس شخص سے میری شادی ہونا تھی اس نے مقامی پولیس کو ساتھ ملالیا تھا۔ پولیس نے اویس، اس کے بھائیوں اور والد پر تشدد کیا، انہیں دھمکیاں دیں۔ کئی روز تک اویس کو پولیس والوں نے غیرقانونی طور پر گرفتار کیے رکھا۔ مجھے پولیس والوں نے یہاں بھیج دیا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ میں عدالت میں بیان دوں کہ مجھے اویس اور اس کی فیملی نے زبردستی اغوا کیا اور میرے ساتھ زیادتی کی ہے مگر میں نے انکار کردیا۔ اب کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔ میں اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ امید ہے جلدی یہ فیصلہ ہوجائے گا۔ ابھی چونکہ لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے ملاقاتیں بھی بند ہیں اور ہمارے کیس کی سماعت بھی نہیں ہورہی۔

میں نے عائشہ سے پوچھا کہ جب آپ کو امید ہے کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوجائے گا اور آپ اپنے شوہر کے پاس چلی جائیں گی تو پھر اداس اور پریشان کیوں ہیں؟ عائشہ نے بتایا کہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ایسا سب کچھ ہوجائے گا۔ مجھ پر جان نچھاور کرنے والے ہی میری جان کے دشمن بن جائیں گے۔ یہاں دارالامان میں ہمیں سب بنیادی سہولتیں میسر ہیں، لیکن جب افطاری کے وقت سب لوگ بیٹھتے ہیں تو پھر گھر والوں کی یاد آتی ہے کہ کس طرح ہم لوگ بھی ایک دسترخوان سجاتے اور اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اپنا یہ دکھ کسی سے شیئر بھی نہیں کرسکتی۔ بس جب یہ یادیں پریشان کرتی ہیں تو پھر دارالامان کے ہی کسی کونے میں بیٹھ کر رو لیتی ہوں۔

دارالامان لاہور کی سپریٹنڈنٹ مصباح رشید سے ملاقات بھی خوشگوار تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ بہت ایکٹیو دکھائی دیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے یہاں جو لڑکیاں اور خواتین عدالتی حکم پر لائی جاتی ہیں، ان کی بات سن کر ان کی کونسلنگ کی جائے۔ ہمارے پاس یہاں نفسیات کی ماہر بھی موجود ہیں، جو ایسی خواتین کو مشکلات سے نکلنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار کرتی ہیں۔ لیکن ہم کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اپنے خاندان والوں سے صلح کےلیے مجبور نہیں کرتے۔ زیادہ تر لڑکیاں وہ ہیں جنہوں نے پسند کی شادی کی۔ بعض ایسی ہیں جنہوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی اور پھر چند ماہ بعد شوہر نے بھی چھوڑ دیا۔ عائشہ کی طرح کچھ ایسی ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہیں لیکن ان کے خاندان والوں کی طرف سے خطرہ ہے۔

دارالامان میں عام طور پر کھانا تیار کرنے کےلیے باقاعدہ باورچی موجود ہے لیکن یہاں چونکہ سب خواتین ہی مقیم ہیں تو رمضان المبارک میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کھانا تیار کریں۔ ہم مینو اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں سامان فراہم کردیتے ہیں اور پھر یہ خود ہی اپنے لیے سحری و افطاری تیار کرتی ہیں۔ اب چونکہ عید آنے والی ہے تو ہماری کوشش ہے ان کےلیے نئے کپڑوں، جوتوں، مہندی اور چوڑیوں کا انتظام کیا جائے۔ مصباح رشید نے کہا کہ بعض اوقات مختلف این جی اوز بھی ان خواتین کو عید گفٹ بھیج دیتی ہیں۔ ہوپ فاؤنڈیشن کی طرف سے خواتین اور ان کے بچوں کو تحائف دیے جاتے ہیں جبکہ این جی اوز کی کارکن ان خواتین کو مہندی بھی لگاتی ہیں تاکہ اپنے گھروں اور خاندان سے دور یہ خواتین اور ان کے بچے رمضان المبارک اور عید کی خوشیاں مناسکیں۔

کئی خواتین ایسی ہیں جن کے ساتھ ان کے بچے بھی یہاں مقیم ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ بچوں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مصباح کے مطابق وہ یہاں مقیم خواتین کو معیاری کھانا پینا، رہائش اور کپڑے تو دے سکتی ہیں، مگر جو خاندان کا پیار اور خوشیاں ہیں، وہ انہیں دینا ان کےلیے ممکن نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔