معاشی کورونا، نوآبادیاتی کورونا

ندیم اکرم جسپال  پير 18 مئ 2020
کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہر طرف خوف کا پہرہ ہے۔ آدمی آدمی سے ڈر رہا ہے۔ بازاروں کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ ڈاکٹر اور سائنسدان اپنی پوری سعی کررہے ہیں کہ اس وبا کا کچھ توڑ کیا جاسکے، مگر ہنوز سب لاحاصل۔

کورونا صرف وبائی مرض ہی نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کی معیشت کو برباد کرنے والا ناسور بن چکا ہے۔ کیا ترقی پذیر ممالک اور کیا ترقی یافتہ، سبھی اس کے نشانے پر ہیں۔ پوری دنیا میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف امریکا میں 1 کروڑ ستر لاکھ لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں شرع نمو منفی میں رہے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ حکومت پر اخراجات کا بوجھ بڑھ گیا ہے، جبکہ آمدن کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے۔ کمزور طبقوں کو ریلیف پیکیج پر حکومت کے اربوں روپوں کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ اسپتالوں میں سہولیات کو بہتر کرنے کی مد میں اخراجات الگ اور اس موذی وبا سے لڑنے کےلیے ہنگامی اخراجات الگ، اور معیشت کا پہیہ چلانے کےلیے مختلف شعبوں کو اربوں کی سبسڈی دینا پڑے گی۔ جبکہ دوسری طرف سرکاری آمدن میں مختلف اندازوں کے مطابق 70 فیصد تک کمی آئے گی۔

کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس محصول میں کمی ہوگی۔ برآمدات 50 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹیکس کی آمدن میں کمی ہوگی۔ روپے کی قدر کم ہوگی اور مہنگائی کی ایک نئی لہر سر اٹھائے گی۔ بے روزگاری کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کم ہوگی اور اس کی وجہ سے طلب کم ہوگی۔ نتیجتاً رسد میں کمی کی جائے گی، جس سےکاروبار مزید مندا ہوگا۔

جو نوجوان اس سال ڈگریاں مکمل کرکے مارکیٹ میں آئیں گے، ان کے سامنے بے روزگاری کا بھوت کھڑا ہوگا۔ ملازمت کا حصول بہت مشکل ہوگا اور اگر کسی پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور اس کی ملازمت ہو بھی گئی تو وہ بھی کم تنخواہ اور غیر مناسب لوازمات کے ساتھ ہی ممکن ہوگی۔

کساد بازاری اور بے روزگاری کے عالم میں نوجوانوں کے پاس کیا راستے بچتے ہیں؟ اپنے ہنر اور ڈگریوں کے ساتھ بیرون ملک کا راستہ لیں یا مقامی منڈی میں روزگار تلاش کریں۔ پوری دنیا میں کہیں بھی حالات مختلف نہ ہوں گے، کیونکہ ورلڈ بینک اس کساد بازاری کو 1930 کی مندی کے ساتھ ملا رہا ہے۔ یہ مندی پوری دنیا کو یکساں متاثر کرے گی۔ ایسے میں کاروبار واحد راستہ ہے۔ نوجوان ملازمتیں ڈھونڈنے کے بجائے مالک بنیں۔

کورونا کے بعد دنیا ایک تبدیل شدہ دنیا ہوگی، جہاں پہلے سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہو گا۔ ایسے میں آئی ٹی کے کسی شعبہ میں مہارت حاصل کرکے نوجوان خود بھی بہترین روزگار کمائیں گے اور ملک کےلیے زرمبادلہ بھی۔ آنے والے وقتوں میں لوگ ماحولیات کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہوں گے۔ ایسے میں ماحول دوست اشیا بناکر ملکی اور بین الاقوامی مانگ پوری کی جاسکتی ہے۔

سی پیک آنے والے چند برسوں میں بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ سی پیک سے فائدہ اٹھائیے۔ ایک ارب سے زائد چین کی آبادی کو پھل، سبزیات، گندم اور چاول پہنچائیں۔ غیر آباد زمینوں کو آباد کیجئے، زراعت میں جدت لائیے۔ زراعت آج ’’پینڈو‘‘ لوگوں کا شعبہ گردانا جاتا ہے، پڑھا لکھا نوجوان جس سے منسلک ہونے میں عار سمجھتا ہے۔ نوجوان زراعت کو پھر سے قابل فخر شعبہ بنائیں۔ زراعت میں اسرائیلی ماڈل سے سیکھیے، کیسے انہوں نے بنجر زمینوں کو آباد کیا اور آج دنیا میں فی ایکڑ سبزیات کی سب سے زیادہ کی پیداوار لینے والا ملک بن گیا ہے۔

اس سے حاصل یہ ہوگا کہ چند سال بعد پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ بھی مضبوط قدموں کے ساتھ کھڑا ہوگا، جو آج کے وقت میں دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کےلیے بہت اہم ہے۔ صحت عامہ کا شعبہ اور علاج معالجے کی سہولیات آج سے ہزار درجے بہتر ہوں گی اور ادویات کی درآمد کےلیے ہمیں انڈیا اور یورپ کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ خوراک کی پیداوار میں پاکستان نہ صرف خودکفیل بلکہ برآمد کرنے والے ملکوں کی صف میں ہوگا۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوان نوآبادیاتی خیالات ترک کرکے، سرکاری کلرک بننے کے خواب چھوڑ کر میدان عمل میں آئیں۔ آسان اور ’’پکی‘‘ نوکری کو چھوڑ کر نئی راہیں پیدا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندیم اکرم جسپال

ندیم اکرم جسپال

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے انتظامی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کرکے ایک غیر سرکاری ادارے میں بطور ہیومن ریسورس پروفیشنل کام کررہے ہیں۔ لکھنے کا آغاز فقط شوق کی تسکین کےلیے چند سال قبل سوشل میڈیا سے کیا تھا، اور قوی امید ہے کہ یہ شوق مستقبل قریب میں پیشے کی شکل اختیار کرلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔