اردو کی مختصر آپ بیتیاں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 15 مئ 2020

ڈاکٹر محمود احمد کاوش کے حواشی اور اضافے کے ساتھ مشفق خواجہ کا مقالہ ’’اردو کی مختصر آپ بیتیاں‘‘ راشد اشرف نے کتاب کی شکل میں شایع کیا ہے۔ خواجہ صاحب کا مقالہ1964میں بہاولپورکے جریدے ’’الزبیر‘‘ میں شایع ہوا تھا۔

مشفق خواجہ نے اپنے مقالے کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ خودنوشت سوانح عمری ’’انکشافِ ذات‘‘ ہو یا ’’پردہ ذات‘‘ یہ بہرحال ذات سے متعلق ہے اور اسی لیے اس کی دلچسپی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ انھوں نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ مقالے میں شامل آپ بیتیاں ان کی ہیں جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔

ڈاکٹر کاوش کی مرتب کردہ آپ بیتی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ مشفق خواجہ کے مقالے کا ہے جو ’’الزبیر‘‘ میں شایع ہوا تھا اور دوسرا حصہ ڈاکٹر صاحب کے جمع کیے ہوئے اضافی مواد پر مشتمل ہے۔

مشفق خواجہ نے اٹھاسی مصنفوں کی خودنوشت آپ بیتیوں کو اس مجموعے میں شامل کیا ہے۔ پہلی آپ بیتی محمد باقر آغا کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’اے بھائی! کہ یہ عاصی پندرہویں سال سے شعر کے ساتھ الفت و ارتباط رکھتا ہے اگرچہ شعر کہتا تھا اسی واسطے تخلص اپنا مدت تک مقرر نہیں کیا تھا۔ جب بعضے رسائل ہشت بہشت کے منظوم کیا لفظ باقرکہ جزو نام ہے، بجائے تخلص رکھا۔‘‘

میر امن لکھتے ہیں۔ ’’پہلے اپنا احوال یہ عاصی گناہگار میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کی رکاب میں پشت بہ پشت جاں فشانی بجا لاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے قدردانی جتنی چاہتے فرماتے رہے۔ جاگیر ومنصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کرکے مالا مال اور نہال کردیا۔‘‘

غالب لکھتے ہیں۔ ’’اسد اللہ خاں غالب تخلص، عرف مرزا نوشہ، قوم کا ترک سلجوقی سلطان برکی ارقی سلجوقی کی اولاد میں سے۔ اس کا دادا فوقان بیگ خاں شاہ عالم کے عہد میں سمرقند سے دلی میں آیا۔ پچاس گھوڑے اور نقارہ، شان سے بادشاہ کا نوکر ہوا۔ پھاسوکا پرگنہ جو آب سمرو کی بیگم کو سرکار سے ملا تھا وہ اس کی جائیداد میں مقرر تھا۔ باپ اس کا عبداللہ بیگ خاں دلی کی ریاست چھوڑ کر اکبر آباد میں جا رہا۔ اسد اللہ خاں اکبر آباد میںپیدا ہوا۔ سال ولادت 8رجب 1212 ہجری۔ روز یک شنبہ۔‘‘

امیر احمد مینائی لکھتے ہیں۔ ’’امیر تخلص، ہیچ میرز ہیچ مدان امیدوار رحمتِ یزدانی امیر احمد ابن مولوی کرم محمد، ننگ خاندان مخدوم شاہ مینا ادام اللہ برکاتہم فیا۔ فن شعر میں منشی ظفر علی صاحب اسیر کے تلامذہ میں داخل ہوا۔‘‘

خواجہ الطاف حسین حالی لکھتے ہیں ’’ میری ولادت 1837 بہ مقام قصہ پانی پت جو شاہجہاں آباد (دہلی) سے جانب شمال 13 میل کے فاصلے پر ایک قدیم بستی ہے واقع ہوئی۔ اس قصبے میں کچھ کم سات سو برس سے قوم انصار کی ایک شاخ، جس سے راقم کو تعلق ہے، آباد چلی آتی ہے۔ میں باپ کی طرف سے اسی شاخ سے علاقہ رکھتا ہوں اور میری والدہ سادات کے ایک معزز گھرانے کی بیٹی تھیں۔‘‘

نظم طباطبائی لکھتے ہیں۔ ’’میری اوائل عمرکا حال آپ کیا پوچھتے ہیں۔ فسانہ عجائب اور زہر عشق نئی نئی شایع ہوئی تھی۔ اس نظم و نثر نے طبقۂ اردو میں وہ زلزلہ ڈال دیا کہ مجھ ہی پر کیا موقوف ہے، اس زمانے کے لوگوں میں کوئی بھی اس کے برے اثر سے محفوظ نہیں رہا جس کے چرکے آج تک نہ مندمل ہوئے۔ میرزا دبیر مرحوم اور میر مونس مخفور کے نئے مرثیوں کی مجلسیں بھی یادگار زمانہ ہوئیں۔‘‘

ریاض خیر آبادی نے اپنے حالات ’’ریاض اپنے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’دس سال کی عمر سے اپنے والد ماجد کے ہمراہ گورکھپور گیا۔ وہیں عربی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا فارسی اپنے والد ماجد سے حاصل کی پندرہ برس کی عمر میں خیرآباد آکر مولوی سید نبی بخش کے مدرسۂ عربیہ میں داخل ہوا۔ یہی وہ نازک زمانہ ہے جس کا آغاز جتنا خوش آیند ہے، اتنا ہی خوف ناک بھی۔ شباب کی اٹکھیلیاں بچپن ہی سے ہو رہی تھیں کہ میں نے مدرسہ عربیہ کو خیرآباد کہا۔ تعلیم سے طبیعت کا اچاٹ ہونا اس وحشت کا نتیجہ تھا جو شاعری درس عشق کی طرف رجوع کرنے کو اپنے ساتھ لائی تھی۔‘‘

منشی پریم چند لکھتے ہیں۔ ’’میری زندگی ہموار میدان کی طرح ہے جس میں کہیں کہیں گڑھے تو ہیں لیکن ٹیلوں، پہاڑوں، گہری گھاٹیوں اور غاروں کا پتا نہیں ہے۔ جن حضرات کو پہاڑوں کی سیر کا شوق ہو، انھیں یہاں مایوسی ہوگی۔‘‘

سیماب اکبر آبادی لکھتے ہیں ’’شاعری میرا فطری ذوق اور پدری میراث ہے۔ کتب متداولۂ عربی و فارسی کی تکمیل کے بعد حضرت والد مرحوم نے مجھے انگریزی مدرسے میں داخل کردیا اور پھر کالج پہنچا تو مولوی سدید الدین قریشی، مولوی تحسین علی اجمیری اور مولوی عابد حسین کی عالمانہ اور فاضلانہ توجہات نے میرے اس ذوق شاعری کو بے حجاب کردیا جو میری فطرت میں ازل سے ودیعت تھا۔‘‘

ڈاکٹر رشید جہاں لکھتی ہیں۔ ’’میرے حالات کیا ہیں؟ میرے والد شیخ محمد عبداللہ ہیں۔ والدہ کا نام وحید جہاں جو عبداللہ بیگم کہلاتی تھیں۔ میرے اوپر صرف ادب ہی کا اثر نہیں پڑا ہے بلکہ ہندوستان کے ماحول کا، ہندوستان کی آزادی کا، عورتوں کے حقوق کے سوالوں کا دیگر مذہبوں کا اور سب سے زیادہ انسانوں کو جاننے اور ان سے ملنے اور تبادلہ خیالات کرنے اور ان کے حالات کا مطالعہ کرنے کا پڑا ہے۔‘‘

سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں۔ ’’عجب اتفاق ہے آج جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، میری سالگرہ کا دن ہے۔ میری بیوی کا اور میرا جنم دن ایک ہی ہے۔ چونکہ مجھے کبھی یاد نہیں رہتا اس لیے میں نے اس سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ آج ہی کے دن میں پیدا ہوا تھا۔ یہ غالباً میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے جو ہندوستان کے متعدد اخبار نویسوں کو 1935 سے پیش آ رہا ہے جب میں نے اپنا گندگی کریدنے والا قلم اٹھایا تھا۔‘‘

’’اردو کی مختصر آپ بیتیاں‘‘ کا دوسرا حصہ ڈاکٹر کاوش کے جمع کیے ہوئے اضافی مواد پر مشتمل ہے۔ پہلی آپ بیتی اختر انصاری کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’حالات زندگی؟ وہ کچھ زیادہ دلچسپ نہیں۔ مایوسی، ناکامی اور بربادی کی ایک مسلسل اور اسی لیے ایک غیر دلچسپ داستان ہے۔ میرا وطن دہلی اور سن پیدائش 1909 ہے۔ 1932 میں نظموں کا ایک مجموعہ ’’نغمہ روح‘‘ شایع کیا پھر نثر شروع کی اور افسانے کا میدان منتخب کیا۔‘‘

اوپندرناتھ اشک لکھتے ہیں ’’ 14 دسمبر 1910 کو جالندھر میں پیدا ہوا۔ مجھے بچپن ہی سے ایسی مصیبتوں سے گزرنا پڑا کہ میں اوائل عمر ہی میں Introvert ہو گیا۔ مجھے یاد نہیں میں نے کبھی کھیل کود میں محو ہوکر اپنے آپ کو بھلا دیا ہو۔ کھیل کود کے بجائے میری دلچسپی قصے کہانیوں سے زیادہ رہی ہے۔ پہلی بیوی کی بیماری اور موت دراصل میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ ہے اسی نے مجھے وہ کچھ بنا دیا جو میں ہوں۔‘‘

راجندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں۔ ’’یکم ستمبر 1915کو لاہور چھاؤنی میں پیدا ہوا۔ تنخواہ ملنے کا دن تھا، ظاہر ہے گھر میں سب لوگ خوش ہوں گے۔ بچپن کا پہلا حصہ دیہات میں بقیہ لاہور میں۔ ابتدا میں، میں نے انگریزی اور پنجابی میں لکھنا شروع کیا لیکن اپنے پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع کرنے کی غرض سے اردو میں لکھنے لگا۔ طبیعت میں تلون زیادہ ہے۔ انقلاب کو اپنی زندگی کا قانون سمجھتا ہوں۔‘‘

حفیظ جالندھری نے ’’بقلم خود‘‘ کے عنوان سے اپنی آپ بیتی لکھی ہے۔ فرماتے ہیں ’’نغمہ زار‘‘ میرے شعر و سخن کا اولین مجموعہ ہے۔ ان دنوں میں چوبیس برس کا جوان تھا، آج ستاون اٹھاون برس کا بوڑھا ہوں۔

جب عشق تیرا نہ تھا، اب عشق فسانہ ہے

وہ اور زمانہ تھا‘ یہ اور زمانہ ہے

حفیظ کی آپ بیتی مختصر نہیں، طویل ہے اور دلچسپ ہے۔

ن۔م راشد لکھتے ہیں۔ مولداکال گڑھ، گوجراں والا۔ پیدائش یکم اگست 1910۔ خاندان راجپوت جنجوعہ۔ دادا ڈاکٹر تھے، شاعر اور عربی فارسی کے عالم۔ والد گورنمنٹ ہائی اسکول لدھیانہ کے ہیڈ ماسٹر۔ شاعری سات برس کی عمر میں ایک ہجو سے شروع کی، پھر کچھ حمدیں اور نعتیں لکھیں، غزلیں اور انگریزی نظموں کے ترجمے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔