ذمے دار نمازی ہوں گے

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 15 مئ 2020

پچھلے دنوں صدر مملکت عارف علوی صاحب نے ملک کے جید علما کو مدعو کیا اور ان کو موجودہ صورتحال میں جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پیدا ہوئی ہے نماز کی ادائیگی کے آداب پر گفتگو کی اور ان آداب میں جو تبدیلیاں ان کے خیال میں ضروری تھیں وہ پیش کیں جن کو علما نے مبینہ طور پر مکمل اتفاق رائے سے قبول کرلیا۔

ان آداب میں سب سے اہم مسئلہ نماز میں صف بندی کا ہے۔ طے یہ ہوا کہ ہر نمازی کے درمیان تقریباً 3 فٹ کا فاصلہ رکھ کر صف ترتیب دی جائے اور دو صفوں کے درمیان ایک صف چھوڑ کر صف بنائی جائے۔ اس طرح ظاہر ہے کہ مسجد میں خصوصاً نماز جمعہ میں جگہ کم پڑ جائے گی۔ اس لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا جمعہ کا اجتماع ایک مسجد میں ایک سے زیادہ بار ہو اور جماعت یکے بعد دیگرے ادا کی جائے تاکہ تمام لوگ باجماعت جمعہ کی نماز بھی پڑھ سکیں اور ’’سماجی فاصلے‘‘ کی روح بھی برقرار رہے جس کا برقرار رہنا انتہائی ضروری ہے۔

اس کے بعد علما نے پریس کانفرنس کی اور ان اقدامات پر اتفاق رائے سے قوم کو مطلع کیا گیا۔

مگر ساری جدوجہد کے باوجود بعض علما کا خیال ہے کہ صف بنتی ہی اس وقت ہے جب دو آدمی مل کر کھڑے ہوں۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ سنت سے ایک موقع پر ایک اور صورتحال کا علم ہوتا ہے۔ مدینہ میں انتہائی شدید بارش ہوئی اور لوگوں کا مسجد تک آنا دشوار نظر آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال سے کہا کہ اذان میں پکار دو ’’ صلوا علی بیوتکم ، صلوا علی رحالکم‘‘ یعنی نماز اپنے گھر یا اپنی سواری میں ادا کرلو، مگر اس پر اعتراض ہے یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صورتحال مسجد تک نہ پہنچنے کی صورت میں تھی۔ پہنچنے کے بعد صف بندی فاصلے سے نہیں ہوسکتی۔

متفقہ فیصلے کے علاوہ یہ دو نقطہ ہائے نظر اختلافی ہیں جو قابل غور ہیں۔

چند روز قبل صدر محترم نے مشہور اینکر کو ایک انٹرویو دیا جس میں مذکورہ متفقہ فیصلے کو ’’اجماع‘‘ قرار دیتے ہوئے اس سے انحراف کو گناہ قرار دیا اور یہ بات انھوں نے کئی بار زور دے کرکہی۔

اس بات پر غورکرنا ضروری ہے کہ علما کے جس اجلاس میں نمازکے یہ جدید آداب طے ہوئے اسے اجماع کہا بھی جاسکتا ہے یا نہیں۔ علما کے حلقے سے ہمارے علم کی حد تک اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ اگرچہ فیصلہ متفقہ تھا مگر اسے اجماع کہنا مناسب بھی ہے یا نہیں۔ہم عالم دین نہیں دین سے ہماری واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ایک عام مسلمان کو ہوسکتی ہے اس لیے ہم اس مسئلے پر رائے زنی کے لیے قطعاً مستحق نہیں البتہ ایک عالم دین سے جو مذکورہ بالا اجتماع میں شریک نہیں تھے ہم نے پوچھا کہ حضرت یہ ’’اجماع‘‘ کس طرح ہوا۔ وہ زیر لب مسکرائے اور فرمایا ’’اجماع‘‘ تو پوری امت مسلمہ کے علما کے درمیان ہو سکتا ہے ایک ملک کے ’’جید علما‘‘ کے اتفاق رائے کو اجماع نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح گویا اگر کوئی اس اجتماع کے مقرر کردہ آداب سے روگردانی کرنے تو وہ گنہگار نہیں کہا جاسکتا ’’خطاوار‘‘ ہو سکتا ہے۔

اب ہوا یہ ہے کہ جب سے مقررہ اصول و ضوابط کے تحت جب سے نمازوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ اگر اس کے بعد کورونا پھیلانا شروع ہوا تو مساجد کو بند کردیا جائے گا یا ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم ابتدا سے کہہ رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن ہماری قوم برداشت نہیں کرسکتی۔ اس صورت میں اگر لوگ کورونا سے نہیں مرے تو بھوک سے مر جائیں گے۔

چنانچہ علمائے دین سے اس معاہدے کے بعد خود وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا اور بعض پیشوں، بازاروں اور کارگاہوں کو بعض ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا اعلان کیا اور اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر ان اقدامات کے باوجود کورونا کی پھیلاؤ میں تیزی آئی تو مسجد کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی ہوگی اور مساجد میں نماز پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ تان آکر مساجد پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے آپ خود مختلف دنوں میں مختلف بازار کھول رہے ہیں۔ مختلف پیشوں کو مختلف اوقات میں کام کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کا ابتدائی نتیجہ اخبارات اور ٹیلی ویژن تصویری دستاویزات کی صورت میں دکھا رہے ہیں۔ مختلف فلاحی ادارے لوگوں میں راشن اور ضروریات زندگی کی اشیا تقسیم کر رہے ہیں۔ دو چار اداروں کے علاوہ ہر جگہ ضرورت مند اور بھوک کے مارے انسان الم غلم ہو رہے ہیں سبزی منڈی کراچی کا حال یہ ہے کہ ایک کے اوپر ایک آدمی چڑھا جا رہا ہے ، اب بازار کھلیں گے تو خواتین ’’عید کی شاپنگ‘‘ کے لیے نکلیں گی اور ایک دکان پر دو سے زیادہ نہ ہوں گی کیا؟ کراچی میں طارق روڈ اور خالد بن ولید روڈ کے بازار مقررہ دنوں اور وقت کے لیے کھولے جا رہے ہیں۔ کیا کورونا وائرس اتنا غریب و مسکین ہے کہ ان مہنگے بازاروں کا رخ نہ کرسکے گا۔ اور ان پر شاپنگ کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

اسی طرح گوشت اور سبزی کی دکانوں، افطاری فروشوں اور دیگر پیشوں کے لوگ جب اپنا کاروبار شروع کریں گے تو وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ تو ہوگا۔

تکنیکی لوگ تکنیکی بات کرتے ہیں چنانچہ سندھ کی وزیر صحت اور پنجاب کی وزیر صحت دونوں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ مئی کا مہینہ کورونا کے حملے کے لحاظ سے انتہائی اہم ہوگا اور اس ماہ مرض کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔ یہ بات وہ مساجد اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے قطع نظر کرکے بعض دوسرے عوامل کے سبب کہہ رہے ہیں۔

ادھر عالمی ادارہ صحت نے انتباہ دیا ہے کہ کورونا وائرس کا عمل دخل طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔ وائرس پر قابو پانے کے لیے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے یہ سفر طویل ہے۔ ایک اور حلقے نے یہ تحقیق جتائی ہے کہ گرمی کے بڑھنے سے وائرس کے اثرات میں تیزی سے کمی آئے گی حالانکہ اس سے قبل ایسی ہی تحقیق کے مطابق وائرس کا پھیلاؤ گرمی یا سردی کا مرہون منت نہیں۔

کہنا صرف یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے تحت افطار کے اوقات میں کوئی شخص باہر نہیں نکل سکے گا۔ آٹھ بجے تک لوگوں کو گھروں میں محدود رہنا ہے۔ روزے سے وہ یوں ہی بدحال ہوں گے۔ اب وہ عشا اور تراویح کے لیے ساڑھے آٹھ بجے کے بعد باہر نکلیں گے۔ مگر ہماری حکومت کی نظر انھی بے چارے نمازیوں پر لگی ہوئی ہے ان ساری بے احتیاطیوں اور نرمیوں کے باوجود کہا یہی جا رہا ہے کہ اگر اب بھی کورونا وائرس قابو میں نہ آیا تو نماز کے لیے مساجد کو بند کرنا پڑے گا اور دیگر پابندیاں لگانا ہوں گی۔

گویا نہ تو عید کی شاپنگ سے کوئی خطرہ ہے نہ بازاروں کے کھلنے سے ڈر ہے، ڈر ہے تو نماز پڑھنے سے کہ کہیں کسی کی دعا قبول نہ ہوجائے اور وائرس کا خطرہ ہی ٹل جائے۔ اللہ ہماری بصیرت کو ہماری بصارت پر حاوی فرما دے اور ہماری حماقتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا کرم فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔