موجودہ حکومت معاشی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے

شاہد حمید  اتوار 17 مئ 2020
اگر اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں،پاکستان میں آباد تمام قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔  فوٹو : فائل

اگر اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں،پاکستان میں آباد تمام قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ۔ فوٹو : فائل

آفتاب احمد خان شیرپاؤ میدان سیاست کے چمکتے، دمکتے آفتاب ہیں جو سیاست کے داؤپیچ سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بساط سیاست پر بچھی شطرنج کا منجھا ہوا کھلاڑی سمجھا جاتاہے اور جس انداز اور طریقے سے وہ سیاسی معاملات سے نمٹتے ہیں وہ ثابت بھی کرتا ہے کہ انہیں سیاسی امور سے نمٹنے میں یدطولیٰ حاصل ہے۔

پیپلزپارٹی میں تھے تو پارٹی کی سیاست کا محور تھے، پیپلزپارٹی شیرپاؤ بنائی تو اپنا الگ انداز اپنایا اور جب قوم پرست سیاست کا رخ کیا تو اے این پی جیسی قوم پرست سیاسی جماعت کی موجودگی میں نہ صرف پارٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ ثابت کیا کہ اگر کوشش کی جائے تو سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے اپنا مقام بنایا جاسکتا ہے۔

یہ ان کے قد کاٹھ ہی کا اثر ہے کہ پیپلزپارٹی جسے چھوڑے ہوئے انہیں بیس سال سے زائد ہوچکے ہیں وہ اب بھی آفتاب شیر پاؤ کو نہیں بھول پائی اور وقتاً فوقتاً انہیں پارٹی میں واپس لانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور گئے ماضی کو واپس بلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم آفتاب شیر پاؤ سیاست کو جس ڈگر پرلے کر چل رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب ان کا اوڑھنا بچھونا قومی وطن پارٹی ہی ہے۔

پیر صابر شاہ کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت بناکر ثابت کیا کہ کوئی بھی کام ناممکن نہیں بس کھیلنے کا طریقہ آنا چاہیے۔ ان کے سیاسی داؤپیچ اور مہارت کو جاننے والے اسی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک پر آفتاب شیر پاؤ ہی کی سیاست کی چھاپ ہے اور جو سیاسی تربیت انہوں نے آفتاب شیرپاؤ کے ساتھ رہتے ہوئے حاصل کی اسی مہارت کی بدولت انہوں نے اپنی حکومت کو بخوبی چلایا، لیکن خود آفتاب شیر پاؤ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ گذشتہ عام انتخابات خیبرپختونخوا سے قومی اور صوبائی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے والے سیاسی راہ نماؤں کے لیے کچھ اچھے ثابت نہیں ہوئے اور کئی راہ نما انتخابی بازی ہار کر میدان سے باہر بیٹھ گئے۔

تاہم ان کی پارٹیاں پارلیمان اور اسمبلیوں میں نمائندگی کرنے کے لیے موجود ہیں لیکن قومی وطن پارٹی کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا۔ لیکن آفتاب شیرپاؤ اس صورت حال سے دل شکستہ نہیں بلکہ ان کے حوصلے جوان اور وہ نئی سیاسی اننگ کھیلنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ان تمام امور کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ نے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے ساتھ نشست کی جس کا احوال قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس: ملک میں اٹھارھویں ترمیم کے خاتمے کی جو باتیں ہورہی ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوپائے گا، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: جی ہاں موجودہ حکومت نے بارہا اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑنے کی بات کی ہے۔ اس ترمیم کو ہوئے دس سال مکمل ہوگئے ہیں جس کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور محنت کی تھی۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے لیے ہم نے کمیٹی کے سو کے لگ بھگ ریگولر اور سو ہی کے قریب غیررسمی اجلاس منعقد کیے۔

سول سوسائٹی اور دیگر تمام طبقات سے بھی رائے لی اور متفقہ طور پر اس ترمیم کی منظوری حاصل کی جس کے ذریعے آمروں کی جانب سے حاصل کردہ اختیارات پارلیمان کو واپس لوٹا دیے گئے۔ ان اختیارات کے صوبوں کو منتقلی سے وہ مضبوط ہوئے اور دس سال سے صوبے خوش اسلوبی سے ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سارا کام چلارہے ہیں، لیکن اب موجودہ حکومت یہ الزام عائد کررہی ہے کہ صوبوں کے پاس اختیارات تو ہیں لیکن وسائل نہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ اپنے معاملات کو چلاسکیں۔

کیوںکہ یہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو وسائل کی فراہمی نہیں کرنا چاہتے۔ ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ اٹھارھویں ترمیم سے قبل جاری ہوا تھا جس میں قومی وسائل کی تقسیم کرتے ہوئے صوبوں کا حصہ 57.5 فی صد جب کہ مرکز کا حصہ 42.5 فی صد مقرر کیا گیا لیکن اب مرکز صوبوں کو دیے گئے یہ وسائل واپس لینے کا خواہاں ہے، حالاںکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مرکزی حکومتوں نے انہی کم وسائل کے ساتھ اپنا نظام چلایا لیکن اللہ جانے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔

اب جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غیرمعمولی قسم کی صورت حال پیدا ہوئی ہے تو یہ اٹھارھویں ترمیم کو چھیڑنا چاہتے ہیں، درحقیقت ڈالر کی قیمت بڑھی ہے تو اس سے مرکزی حکومت پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا ہے، اس لیے اب مرکز، صوبوں پر بوجھ ڈالنا چاہتا ہے جس کے اثرات انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے اور یہ کسی بھی طور قابل برداشت نہیں ہوگا۔ موجودہ مرکزی حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت بھی نہیں کہ وہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کو چھیڑ سکے۔

انہیں نیا این ایف سی ایوارڈ لانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اب دسواں قومی مالیاتی ایوارڈ جاری ہونا چاہیے۔ یہ درحقیقت آمرانہ نظام چاہتے ہیں۔ فیڈریشن میں تو مرکز کو سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اس سے راہ فرار اختیار کررہی ہے لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر اٹھارھویں ترمیم کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔

حکومتِ سندھ نے کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے جس میں کوئی شک نہیں ایسے میں دیگر صوبوں کو چاہیے تھا کہ وہ سندھ کی پیروی کرتے ہوئے اس کی طرح کام کرنے کوشش کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مرکز کا کام ہوتا ہے پالیسی دینا لیکن مرکز تنقید کرنے میں جُت گیا جس سے صورت حال خراب ہوئی ہے۔ مرکز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال کرنا چاہیے تاکہ اس فورم کے ذریعے مرکز اور صوبوں میں پیدا شدہ مسائل کو حل کیا جاسکے۔

ایکسپریس: موجودہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے اورنیا پاکستان بنانے میں کس حد تک کام یاب ہوسکی ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: اس حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہوگئے ہیں، جب اقتدار سنبھالا تو پہلے مسائل کو حل کرنے کے لیے سو دنوں کی بات کی جس کے بعد چھ ماہ کی بات کی گئی۔ انہیں سب جماعتوں نے وقت دیا تاکہ یہ ملک وقوم کو درپیش مسائل حل کرسکیں لیکن یہ کام نہیں کرسکے، کنٹینر پر تو کھڑے ہوکر یہ سارے کے سارے مسائل چٹکی بجاتے ہوئے حل کردیا کرتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد معاملہ الٹ ہوگیا۔ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی اپنی ٹیم ناکام ہوگئی جس کے بعد یہ ٹیکنوکریٹس کو میدان میں لے آئے لیکن صورت حال یہ ہے کہ حکومت معاشی طور پر مکمل ناکام ہوچکی ہے۔

انہوں نے جتنے بھی وعدے کیے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے پچاس لاکھ گھر بنانے کر دینے اور ایک کروڑ نوکریاں عوام کو دینے کا اعلان کیا تھا، کہاں ہیں وہ گھر اور کہاں ہیں وہ نوکریاں؟ کورونا وائرس کے حوالے سے جو صورت حال بنی ہے اس میں ثابت ہوگیا ہے کہ یہ لوگ مکمل طور پر ناکام ہیں جس کی وجہ سے پوری قوم بھی مایوسی کا شکار ہے، سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کورونا کی صورت حال اور دیگر معاملات میں ناکام ہوچکے ہیں جب کہ سندھ نے کورونا کو کنٹرول کیا۔ یہ لوگ نیا پاکستان کیا بناتے ان سے تو پرانا پاکستان بھی گیا جسے انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنی اطلاعات کی ٹیم کو بار، بار تبدیل کیا لیکن کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ لوگ اب ان سے مایوس ہوچکے ہیں۔

ان کی معاشی پالیسیاں فیل ہوچکی ہیں۔ گندم اور چینی کا اسکینڈل سامنے آیا کیوںکہ جب آپ کے اپنے ملک میں چینی کم ہو تو آپ کیسے اسے برآمد کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے ایسا کیا اور پھر مہنگے داموں چینی باہر سے درآمد کرائی گئی۔ انہوں نے اس اسکینڈل کی ادھوری رپورٹ پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اب اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے اور جو لوگ اس اسکینڈل میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو سارے کے سارے ان ہی کے اپنے لوگ ہیں۔

یہ معاملہ تو مفادات سے تصادم (Conflict of Interest ) کا ہے۔ یہ جو دوسروں کی میٹروز پر تنقید کیا کرتے تھے۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں ان کی اپنی بی آرٹی مکمل نہیں ہوپارہی۔ بلین ٹری سونامی منصوبے میں بھی مسئلے، مالم جبہ کرپشن کیس الگ سے لیکن ان کے کیس نہیں کھل رہے اور یہ دوسروں سے سیاسی انتقام لینے کی راہ پر گام زن ہیں۔ ان کے خلاف جو کیس ہیں وہ سب فائلوں تک محدود ہیں جب کہ دوسروں کے خلاف کیس چل رہے ہیں، یہ ملک کیسے بچائیں گے کہ ان کی صورت حال کل تک یہ تھی کہ یہ کہتے پھرتے تھے کہ ہم کشکول نہیں اٹھائیں گے لیکن آج سب سے بڑا کشکول انہوں نے ہی اٹھارکھا ہے اور ہر جگہ کشکول اٹھائے مانگ رہے ہیں اور چندے کی اپیلیں کررہے ہیں۔

یہ لوگ بہت ہی جلد ایکسپوز ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں سے ملک نہیں چل سکتا اور نہ ہی چل پارہا ہے اس لیے عمران خان اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں، کیوںکہ اس وقت پارلیمان جام ہے جو کسی قسم کی قانون سازی نہیں کررہی۔ حکومت اور اپوزیشن میں کسی قسم کی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں، جب آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ ہوا تو پوری کی پوری سیاسی قیادت ایک صفحے پر آگئی۔ اسی طرح جب وزیرستان میں آپریشن کرنا مقصود تھا اس وقت بھی ساری پارٹیاں اکٹھی تھیں لیکن انہوں نے نہ تو کشمیر ہاتھ سے جانے کے معاملے پر سیاسی قیادت کو یکجا کیا اور نہ ہی آج کورونا کے معاملے پر اکٹھ ہورہا ہے۔ عمران خان تو اسمبلی تک آنے کے لیے تیار نہیں کیوںکہ وہ اب تک کنٹینر والی سیاست ہی چلارہے ہیں جب کہ ملک کی حالت یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں، غربت بڑھی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ایکسپورٹ کم ہوگئی ہے۔

ایکسپریس: افغانستان میں پاور شیئرنگ فارمولا حتمی مراحل میں ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوسکے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: پہلے بھی جب افغانستان میں انتخابات منعقد ہوئے تو ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اسی طرح تنازعہ پیدا ہوا اور پھر دونوں پاورشیئرنگ فارمولے پر متفق ہوگئے جس کے مطابق اشرف غنی صدر جب کہ عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹیو بن گئے۔

یہی صورت حال اب پھر موجود ہے اور ایک ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اشرف غنی نے بطور افغان صدر حلف بھی اٹھایا ہے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر یہ دونوں مل بیٹھتے ہیں اور اکٹھے ہوتے ہیں تو طالبان سے بات کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے لیکن اگر یہ اکٹھے نہیں ہوتے تو اس کا فائدہ کسی اور کو نہیں وہاں کے طالبان کو جاتا ہے۔ اس لیے انہیں اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ افغانستان میں قیام امن ممکن بنایاجاسکے اور یہ دونوں مل کر ہی اس مسئلے کا بہتر حل تلاش کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان میں پختون قوم پرست یکجا کیوں نہیں ہوپاتے، کیا شخصیات کے ٹکراؤ وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوپارہا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: ہم تو ہر صورت پختونوں کا اکٹھ اور ان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں کیوںکہ پختون قوم کو بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ قبائلی علاقہ جات اب انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے مسائل اب ہمارے مسائل ہیں جہاں ٹارگٹ کلنگ بھی ہورہی ہے اور دیگر مسائل بھی موجود ہیں۔ اس لیے مشترکہ طور پر کوشش کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے، جہاں تک پختون قوم کے اکٹھ اور مجموعی طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے کا تعلق ہے تو یہ سب کچھ یک دم اور راتوں، رات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے، یعنی سب مل کر بات کریں اور مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں۔ بنیادی ایشوز کو پہلے حل کرنا چاہیے۔

میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری یا میری پارٹی یا میرے ساتھیوں کی جانب سے اس ساری کوشش کی قیادت کرنے یا کریڈٹ لینے کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ نہ ہی ہمیں کسی دوسرے کی قیادت میں کام کرنے میں کوئی عار ہے، بھلے کوئی بھی اس ساری تحریک کی قیادت کرے، ہم اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں اناؤں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ ہم تو پختون قوم کے مسائل کا حل چاہتے ہیں کیوںکہ پختون قوم مایوس ہوچکی ہے اور اس کی مایوسیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ پاکستان میں قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: یہ تو ہم نے اپنی پارٹی کے منشور میں کہا ہوا ہے کہ پاکستان میں آباد تمام قومیتوں کے مابین نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، جب سابق وزیراعظم نوازشریف کو ان کے عہدے سے نااہل قرار دیتے ہوئے ہٹایا گیا تو انہوں نے بھی یہی بات کی تھی۔ ملک میں آباد قومیتیں مل بیٹھ کر ایک تحریری معاہدہ کریں اور اسے قانون تحفظ دیں کیوںکہ آج صورت حال یہ ہے کہ پشتون مایوس ہیں، بلوچ بدظن، سندھیوں کی اپنی مشکلات اور پنجاب میں بسنے والوں کے اپنے الگ مسئلے۔ اس لیے نیا عمرانی معاہدہ ضروری ہے جس میں سب کے مفادات کا تحفظ بھی ہونا چاہیے اور سب کو نمائندگی بھی ملنی چاہیے تاکہ کوئی بھی قومیت مایوسی کا شکار نہ ہونے پائے۔

ایکسپریس: ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کیسے اور کیوںکر کم کیا جاسکتا ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں اصل قیادت نہ ہو اور وہ اپنا کردار ادا نہ کرپائے تو اس صورت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کرنا مشکل ہوجائے گا، اگر قوم کی قیادت کرنے والے راہ نما کم زرویوں کا شکار ہوں اور کسی کے اشاروں پر چل رہے ہوں تو پھر تو معاملات ایسے ہی چلیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کی سب کو ماننی پڑے گی لیکن اگر اصل قیادت سامنے ہو تو وہ اداروں کی طرف نہیں بلکہ ادارے اس کی طرف دیکھیں گے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پارلیمان خودمختار ہو اور درست طریقے سے چلے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، تمام اداروں کا نظام درست ہوجائے گا۔

ایکسپریس: قومی وطن پارٹی گزشتہ عام انتخابات میں جس طریقے سے باہر رہی، آئندہ انتخابات میں کم بیک کیسے کیا جائے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: گذشتہ عام انتخابات میں قومی وطن پارٹی کو کیسے آؤٹ کیا گیا اور انتخابات میں کیسے دھاندلی کی گئی، اس پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور جو بھی ہوا وہ سب کے سامنے بھی ہے، اس لیے اس پر اب مزید کیا بات کریں۔ ہمارے صوبے کی اپنی ایک روایت رہی ہے کہ جو بھی پارٹی ایک مرتبہ اقتدار میں ہوتی ہے وہ مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آپاتی اور اگلا الیکشن ہار جاتی ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پانچ سالوں میں کیا بھی کچھ نہیں اور دوبارہ دو تہائی اکثریت لے کر کام یاب بھی ہوگئی اور اس کی اس کامیابی کی زد میں ہم سب آئے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کی گذشتہ عام انتخابات میں جس طریقے سے راہ روکی گئی اس کے خاتمے کے لیے ضروری تھا کہ ہم منظم انداز میں کام کریں اس لیے ہم نے اپنی پارٹی کی نچلی سطح سے تنظیم سازی کی اور پوری کی پوری پارٹی قیادت کو ہرہر معاملے اور ایشو پر تمام امور سے آگاہ رکھا ہے تاکہ جس دھاندلی کا شکار ہم ایک مرتبہ ہوئے ہیں، دوبارہ اسی صورت حال سے دوچار نہ ہوں اور جس انداز میں ہم اپنی پارٹی کو استوار کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ جو کھیل ایک مرتبہ ہمارے ساتھ کھیلا گیا ہے وہی دوبارہ کھیلا جائے گا۔

ایکسپریس: کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں انہیں آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کا نقصان ہوا تو ظاہر ہے کہ پاکستان کو بھی اس کا شدید نقصان ہوا ہے کیوںکہ ہم پہلے ہی سے کم زور معاشی صورت حال میں تھے جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جو دھچکا لگا ہے اسے سنبھالنا مشکل ہے، یہ حکومت کوروناوائرس سے پہلے بھی معیشت کو نہیں سنبھال پارہی تھی نہ ہی کوئی یکساں پالیسی سامنے لائی گئی اس لیے جو معاشی مسائل اور مشکلات اس وقت پیدا ہوئی ہیں وہ آئندہ چار، چھ سال رہیں گے۔ مانگے تانگے سے کام نہیں چلے گا، اس سلسلے میں سب کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ سب مل کر مشکل کی اس گھڑی سے نجات کی راہ تلاش کرسکیں۔

ایکسپریس: خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیے گا؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے جو بھی ہے سب کے سامنے ہے۔ محمودخان دو سال سے حکومت کررہے ہیں لیکن انہوں نے کون سا ایسا بڑا کارنامہ کیا ہے جسے بیان کیاجاسکے۔ ان کے اپنے تین وزراء نے ان کی حکومت پر یہ کہہ کر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت میں کرپشن بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس پر عمران خان نے ان تینوں وزراء کو نکال باہر کیا حالاںکہ اصولی طور پر ان کی بات سننی اور اس کی جانچ کروانی چاہیے تھی اور اگر ان کی باتوں میں صداقت پائی جاتی تو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ موجودہ حکومت تو گذشتہ جاری ترقیاتی منصوبے بھی مکمل نہیں کراسکی۔

صوبے میں غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے، حالاںکہ سندھ میں6.7 فی صد، پنجاب میں3 فی صد اور بلوچستان میں ایک فی صد غربت کم ہوئی، صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں غیرمعمولی انداز اور طریقے سے کام ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، جس سے وسائل سول اداروں اور حکومت سے لے کر سیکیوریٹی اداروں کے حوالے کیے گئے تاکہ ان کا درست اور مناسب استعمال ممکن بنایاجاسکے۔

ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان حالات میں سب نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو فوکس کررکھا ہے لیکن کسی کی بھی توجہ محمودخان پر نہیں حالاںکہ ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ حقائق سامنے لائے جاسکیں کہ یہاں وسائل کیسے استعمال کیے جارہے ہیں جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں اور مجھے تو یہ لگتا ہے کہ اگر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرگئی تو اس صورت میں شاید ہی صوبہ واپس اپنی جگہ آسکے کیوںکہ یہ اتنا پیچھے جاچکا ہوگا۔

ایکسپریس: کیا شریف برادران کا ملکی سیاست میں کردار ختم ہوگیا ہے یا ابھی ایک اور اننگ باقی ہے؟

آفتاب احمدخان شیرپاؤ: شریف برادران صرف شخصیات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پوری پارٹی کا نام ہے، ایسی پارٹی کہ جس کی جڑیں عوام میں ہیں جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آج پنجاب میں انتخابات کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو یہ پارٹی وہاں سے دو تہائی اکثریت لے کر آجائے گی۔ نہ تو شریف برادران ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن)، ان کی اپنی بنیادیں ہیں اور اپنی حیثیت لیکن اس وقت اس پارٹی اور شریف برادران کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ایکسپریس: خیال کیا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک آپ کے سیاسی شاگرد ہیں، حقیقت کیا ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: بھٹوصاحب کو ایوب خان کا شاگرد قرار نہیں دیا جاسکتا حالاںکہ لوگ ایسا کہتے ہیں، سیاست میں ہر ایک کا اپنا طریقۂ کار ہوتا ہے۔ پرویزخٹک کا بھی اپنا کردار ہے، اس کو موقع ملا، اسے مضبوط اپوزیشن نہیں ملی، ہم نے تو ایک ووٹ کے فرق سے حکومت بنائی، یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں، وہ نوشہرہ کی بنیاد پر سیاست کررہا ہے۔ یہ شکر کرے کہ ایسی اپوزیشن ملی جو اتنی فعال نہیں اور نہ ہی اس نے وہ کردار ادا کیا جو اپوزیشن ادا کرتی ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ کے اور پیپلزپارٹی کے دوبارہ ایک ہونے کے راستے بند ہوگئے ہیں؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میں سیکڑوں مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میری اور پیپلزپارٹی کی سیاست الگ نہج پر ہے۔ ہماری سوچ الگ ہے، ہم قوم پرست سیاست کرتے ہیں جب کہ ان کی الگ سوچ ہے، جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ اس کمٹمنٹ پر ہیں کہ ہم نے قوم پرستانہ سیاست کرنی ہے۔

ہم اب ان سے کیسے الگ ہوسکتے ہیں، بیس سال سے زائد سال ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے سے جدا ہوئے، اب اس میں کیا صداقت ہوسکتی ہے کہ میں واپس جارہا ہوں، پیپلزپارٹی ایک لبرل ماڈریٹ پارٹی ہے جو صوبے میں اپنی سیاست کرے جو اس کا حق ہے ہم اس کو ختم نہیں کرنا چاہتے کہ کہیں یہ تاثر نہ ملے کہ لبرل لوگوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ ہماری اپنی سیاست اور پی پی پی کی اپنی سیاست ہے۔ یہ پی پی پی کی خواہش ہوسکتی ہے جس کا میں احترام کرتا ہوں لیکن ہماری کمٹمنٹ ایک پروگرام سے ہے، پشتون قوم سے ہے جس سے میں ہل نہیں سکتا۔

ایکسپریس: آپ کے بے نظیر بھٹو شہید سے کیا اختلافات تھے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میرا بی بی کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اختلاف رائے آجاتا ہے۔ بی بی جن کو انکلز کہتی تھیں ان کو پہلے ہی دور کردیا، میں نے بی بی کا پہلا سیاسی دورہ مارشل لا میں کراتے ہوئے ان کی سیاست کا آغاز کرایا۔ جب دونوں مرتبہ حکومت بنی اس نے صوبے میں کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی ،1997ء کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کے حالات بہت خراب تھے۔ پورے ملک سے قومی اسمبلی کی 18سیٹیں تھیں جو صرف سندھ سے تھیں دیگر صوبوں سے کوئی نشست نہیں ملی اور کرپشن کے الزامات تھے۔ خیبرپختونخوا سے صوبائی صرف چار نشستیں تھیں، کیوںکہ جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے دیر سے نشستیں حاصل ہوئیں۔

میری بے نظیر بھٹو کو یہ تجویز تھی کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں تاکہ ورکروں کی مایوسی ختم ہوجائے اور وہ متحرک ہوجائیں انہوں نے اتفاق کیا، ہم نے طریقۂ کار بھی بنالیا لیکن ان کے ذہن میں کسی نے بٹھادیا کہ میں صوبے میں کسی اور کو آگے نہیں آنے دیتا اور پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں، میں عوامی سیاست سمجھتا ہوں کہ پی پی پی بھٹو کے نام کے بغیر کیسے چل سکتی ہے؟ ایسی کوئی کوشش نہیں تھی مجھے جب سنیئر وائس چیئرمین بنایا گیا تو میں نے اس وقت بھی کہا کہ آئندہ وزیراعظم بھی بے نظیر بھٹو ہی ہوں گی۔

لیکن ایک دن مجھے بلائے بغیر بی بی نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں خود کو پارٹی کا تاحیات چیئرپرسن قرار دے دیا جس پر میں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ جمہوری رویہ نہیں، کیوںکہ اس سے خراب تاثر پیدا ہوگا۔ یہ اختلاف آگے بڑھتا گیا، کچھ لوگوں نے بھی درمیان میں زیادہ اختلافات پیدا کیے جو بڑھتے گئے، کیوںکہ میری جگہ کچھ اور لوگ لینا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی بی ان کی باتوں میں آگئیں۔

میں نے پارٹی نہیں چھوڑی انہوں نے مجھے ڈی نوٹیفائیڈ کیا، اس دن کے بعد سے لے کر جب تک بی بی زندہ تھیں میں نے کبھی ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی۔ ہمیشہ احترام کیا، وہ ایک ایسے عظیم لیڈر کی بیٹی تھیں جو ہم سب کا لیڈر تھا اور میرا بھائی اس پارٹی میں شہید ہوا۔ میں نے پانچ سال قید کاٹی،2007 ء میں21دسمبر کو عید کے موقع پر میرے حلقے کی مسجد میں نماز عید میں بم دھماکا ہوا جس میں 53 افراد شہید اور150زخمی ہوئے میرا بیٹا بھی شدید زخمی ہوا جو پمز اسلام آباد میں زیرعلاج تھا۔ شہادت سے دو دن پہلے انہوں نے پیغام بھجوایا کہ آپ کے بچے میرے سامنے بڑے ہوئے ہیں اور مجھے آپ کے بیٹے کے زخمی ہونے پر بڑا دکھ ہے۔ میں نے بھی شکریہ ادا کیا۔ دو دن کے بعد ہی وہ شہید ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی اب بھی مجھے واپس لانے کی بات کرتی ہے تو یہ ان کی مہربانی ہے۔

ایکسپریس: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا اختلاف صدرمملکت کے عہدے کے لیے نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے شروع ہوا؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: نہیں ایسا نہیں بی بی تو مجھے صدر مملکت بنانا چاہتی تھیں، میں پشاور آیا فیملی مسائل کے حوالے سے تو انہوں نے میرے لیے جہاز بھجوایا اور مجھے صدر مملکت بنانے کی بات کی لیکن میں نے انکار کیا۔ فاروق لغاری کا نام تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آیا ان کے ایک خاص آدمی کی جانب سے جس کے بعد وہ صدر بنائے گئے۔ ان کے لیے ہم نے کام کیا، فاروق لغاری میرا رشتہ دار ہے ، جب بی بی اور فاروق لغاری کے اختلافات ہوئے تو میں مصالحت کرارہا تھا، جس رات کو حکومت ختم ہونی تھی اس شام میں دیر سے واپس آیا تو وزیراعظم کا فون آیا کہ لغاری صاحب کے ساتھ دو دنوں میں ملاقات ہونی چاہیے لیکن پھر حکومت ختم ہوگئی تو بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے مجھے اطلاع دی، شاید لوگوںنے اس کے بعد کہانیاں بنائی ہوں، فاروق لغاری نے میرے خلاف کیس بنائے، جب ایسا ہوا تو یہاں کے گورنر نے استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے نیا گورنر لگانا تھا جس کے لیے گراؤنڈ بھی بنانا تھا، نئے گورنر نے یہاں صوبے میں حکومت ختم کرنے کے لیے کیا اندازہ لگایا ہوگا اسی لیے تو ان کی سہولت کے لیے کیس بنائے گئے، اگر ہم مستعفی ہوجاتے تو ان کے لیے آسان ہوجاتا لیکن ہم نے ان پر چھوڑا اور ان کا اقدام کورٹ میں چیلینج کیا۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ جب 1988ء میں پیپلزپارٹی جیت کر آئی تو اسے حکومت بنانے نہیں دی جارہی تھی اور ایسا تب ہی ممکن ہوپایا کہ جب بے نظیر بھٹو سے کچھ ضمانتیں لی گئیں کیا یہ درست ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: پاکستان کی سیاست اور ایوب، ضیاء الحق اور مشرف کے ادوار کو دیکھا جائے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سویلین سیٹ اپ کم زور ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی تو تھی جو مضبوط ہوئی اور اب بھی ہے، اسی لیے جب پی پی پی 1988ء میں جیتی تو غلام اسحاق خان ہمیں حکومت نہیں دینا چاہتے تھے۔ جب الیکشن ہوئے تو کافی دنوں تک ہمیں حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی ہم پریشان تھے لیکن انہوں نے صاحبزادہ یعقوب خان اور جعفری کو شامل کرایا تو پھر حکومت بنانے کی دعوت دی گئی۔ جونیجو نے بھی پہلے حکومت سنبھالی پھر مارشل لا ختم کرایا۔

اسی طرح بے نظیر بھٹو نے بھی پہلے حکومت سنبھالی پھر اقدامات کیے، عوام کی توقعات بہت زیادہ تھیں، حکومت نہ لینے کی باتیں بھی تھیں تاہم یہ مناسب نہ ہوتا، یہ مشکل وقت تھا اس سے عوام میں مایوسی پھیل جاتی۔

ایکسپریس: کیا بے نظیر بھٹو سے یہ گارنٹی بھی لی گئی تھی کہ وہ ضیاء الحق کے خاندان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گی؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: میرے علم میں نہیں کہ بی بی نے ضیاء الحق خاندان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی گارنٹی دی تھی، انہوں نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے طور پر شاید یہ کام نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس سے مزید کشیدگی پیدا ہوجاتی جو وہ یہ نہیں چاہتی تھیں، وہ مضبوط ہونا چاہتی تھیں۔

ایکسپریس: آئی جے آئی، پیپلزپارٹی کے خلاف بنائی گئی جس کے لیے اسامہ بن لادن اور آئی ایس آئی کی جانب سے فنڈنگ کے تذکرے ہوئے، حقیقت کیا ہے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: اسامہ والی بات بعد میں آئی لیکن ضرور اسٹیبلشمنٹ اور غلام اسحاق خان خوش نہیں تھے اور ان کے گٹھ جوڑ سے اٹھاون ٹو بی کے استعمال کی بجائے ان ہاؤس تبدیلی کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو ناکام ہوئی تو پھر پیپلزپارٹی کی حکومت ہٹائی گئی۔

ایکسپریس: کیا آپ کو سیاست میں لانے والے ذوالفقارعلی بھٹو تھے؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: جب حیات شیر پاؤ شہید ہوئے تو بھٹوصاحب دوسرے دن تعزیت کے لیے آئے، ممتاز بھٹو بھی ساتھ تھے جنہوں نے مجھے الگ کمرے میں لے جاکر کہا کہ آپ کے کیا ارادے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میرے کوئی ارادے نہیں نہ سیاست میں ہوں نہ ہی کوئی شوق ہے، جب نصر اللہ خٹک کے خلاف ری ایکشن شروع ہوا تو لوگ اس طرف آنے لگے کیوںکہ پی پی پی میں طریقہ ہے کہ جو عہدے پر ہوتا ہے اس کے خلاف سب ہوجاتے ہیں چلا جاتا ہے تو سب اسے یاد کرتے ہیں، پی پی پی کے پشاور میں ملک گیر کنونشن میں بھٹو صاحب کی موجودگی میں نصر اللہ خٹک کے خلاف باتیں ہوئیں حالاںکہ نصر اللہ خٹک زیرک انسان تھے۔

تاہم جیسے لوگ چاہتے تھے وہ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے تھے، حیات شیر پاؤ رات دن کام کرتے تھے، حیات شیرپاؤ کے گورنر بننے پر لوگوں نے گورنر ہاؤس پہلی مرتبہ اندر سے دیکھا ورنہ پہلے تو گورنر لارڈ صاحب ہوتا تھا گورنر ہاؤس کی طرف کون دیکھ سکتا تھا، پھر اس کے بعد حیات شیر پاؤ شہید سنیئر وزیر اور وفاقی وزیر بنے تو رات دن کام کرتے تھے کیوںکہ یہ ان کا جنون تھا، نصر اللہ خٹک ایسا نہ کرسکے جس کی وجہ سے ورکروں میں مایوسی پیدا ہوئی، بھٹو صاحب نے مجھے پھر بلایا اور مجھے صوبائی نائب صدر بنادیا اور کہا کہ اب یہ ضروری ہے۔

ایکسپریس: آپ کے بڑے بھائی حیات شیر پاؤ کو بم دھماکے کے ذریعے شہید کرنے کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کچھ لوگوں کے نام سامنے آئے، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

آفتاب احمد خان شیرپاؤ: حیات شیر پاؤ کے قاتلوں کے بارے میں پوچھا جاتاہے، اس ملک میں جتنے سیاسی قتل ہوئے کس کے قاتل پکڑے گئے؟ لازمی بات ہے کہ ہمیں بھی پتا ہے کہ جو لوگ باتیں کررہے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ہوگی، ہمیں پتا ہے کہ کیا صورت حال تھی، یہ بات واضح ہے کہ ان کو ختم کرنا اس وقت کچھ لوگوں کی ضرورت تھی کیوںکہ وہ ان کی شہرت اور مقبولیت سے خائف تھے اور سمجھتے تھے کہ ان سے چھٹکارا پانا ضروری ہے لیکن نتیجہ کچھ اور نکلا کیوںکہ لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کے خون کی وجہ سے پی پی پی مزید مضبوط ہوئی کہ لوگ اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔