کورونا وائرس: لاک ڈاؤن نے ریٹیل بزنس کی دنیا بدل دی

عبید اللہ عابد  اتوار 17 مئ 2020
صارفین تیزی سے آن لائن شاپنگ کی طرف جانے پر مجبور، آن لائن ریٹیلرز نے بھی دروازے کھول دئیے ۔  فوٹو : فائل

صارفین تیزی سے آن لائن شاپنگ کی طرف جانے پر مجبور، آن لائن ریٹیلرز نے بھی دروازے کھول دئیے ۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، ری ٹیل بزنس کی دنیا میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ فروخت کرنے اور خریدنے والوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوئیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں لوگ  پہلے کی نسبت زیادہ آن لائن خریداری کررہے ہیں، رہے ترقی پذیر ممالک وہاں یہ رحجان پہلے کم تھا تاہم  اب بڑھ رہاہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر حکومتیں لوگوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت گھر پر رہیں۔ دوسری طرف دکان داروں( ریٹیلرز) سے کہاگیاہے کہ وہ اپنے آن لائن شاپنگ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور وسیع کریں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں اپریل2020ء میں گزشتہ  برس کی نسبت گروسری کی آن لائن  سیل میں37 فیصد اضافہ ہواہے، مارچ میں جب  حساب کتاب کیا گیا تو اضافہ25 فیصد تھا۔ اگرچہ امریکا میں کتابیں اور الیکٹرانکس کا سامان پہلے ہی آن لائن خریدا جاتا تھا، اسی طرح خوراک کے لئے بھی موبائل ایپلیکیشنز ہی پر آرڈر  دیے جاتے تھے۔ امریکی صرف گوشت اور سبزی خود سٹورز پر جاکر خریدنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس کی آمد کے بعد منظرنامہ یکسر بدل گیا۔ اب مختلف سٹورز میںگروسری کا سامان، تازہ پھل اور زیادہ کھائی جانے والی سبزیوں کے اس قدر زیادہ آرڈر وصول ہورہے ہیں کہ سٹورز ڈیمانڈ پوری کرنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں۔کورونا وائرس سے خوفزدہ صارفین گھروں  میں رہنا چاہتے ہیں، اپنی ضروریات اس طرح پوری کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا دیگرانسانوں سے رابطہ کم ازکم ہو۔

جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس نے تباہی پھیلانا شروع کی تو صارفین کی ضروریات ان کے گھر کی دہلیز پرکرنے کی خاطر علی بابا، جے ڈی داٹ کام،  پی ڈی ڈی اور ایم ٹی ڈی پی جیسی ریٹیل کمپنیوں نے فوری طور پر اپنے آن لائن سسٹم اور ہوم ڈیلیوری سسٹم کو مزید  بہتر بنایا۔ اور لاک ڈاؤن کے پورے عرصہ میں  ووہان کے ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کو اشیائے ضروریہ ڈیجیٹل انداز ہی میں فراہم کیں۔

چین میں یہ نظام راتوں رات نہیں تشکیل پایا بلکہ اسے بنانے میں برسوں کا عرصہ لگا۔ یہ نظام اس قدر مضبوط ہوگیا کہ گلی محلوں میں موجود جنرل سٹورز، ریسٹورنٹس، کتابوں کے سٹورز اور دیگر  دکانوں نے بھی ڈیجیٹل خرید وفروخت شروع کردی۔کاروبار کو اس قدر نچلی سطح پر ڈیجیٹلائز کرنے کا ہمارے ہاں کبھی سوچا بھی نہیںگیا۔ ووہان میں صرف ایک ایپلی کیشن کی بنیاد پر سارا نظام چلایا گیا، انھیں الگ الگ چیزیں خریدنے کے لئے الگ الگ ایپلی کیشنز میں الجھنا ہی نہیں پڑا۔ دنیا کے دیگر آن لائن ری ٹیلرز نے بھی اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق تیار کیا۔ لاک ڈاؤن کے بعد ’امازون‘  نے اپنی رینج ایسی اشیا تک بھی بڑھائی جو عمومی طور پر آن لائن سٹورز کا حصہ نہیں بنتیں۔اس کے پیچھے زیادہ سے زیادہ صارفین کی ضروریات بہترین اندازمیں پوری کرتے ہوئے اپنے دائرہ صارفین کو بڑھانے کا جذبہ تھا۔

لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ری ٹیل بزنس کی دنیا میں بے شمار اہم تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ مثلاً امریکا سے یورپ تک روایتی ری ٹیلرز، ای کامرس اور ڈیلیوری سروسز دینے والوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہوا ہے چونکہ وہاں کورونا وائرس کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے اس لئے وہاں یہ تعلقات دنیا کے دیگرحصوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوئے۔ برطانیہ نے ری ٹیلرز کے کاروباری اوقات کے حوالے سے ضابطوں میں ترمیم کی ، انھیں موقع فراہم کیا کہ وہ رات کے وقت بھی سٹورز کھولیں اور اپنے سٹاک کا کام کرسکیں۔

فرانس میں ’فرین پرکس‘ (ریٹیل کمپنی) نے ڈیلیورو( آن لائن فوڈ ڈیلیوری کمپنی ) کو اپنے ساتھ ملالیا اور ’کیری فور‘(ریٹیل کمپنی) نے اوبر ایٹس(آن لائن فوڈ ڈیلیوری کمپنی ) کے ساتھ مل کر صارفین کی ضروریات ان کے گھر کی دہلیز پر پوری کیں۔ مذکورہ بالا ریٹیل کمپنیاں ہوم ڈیلیوری دینے والی ان کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کرنے پر اس لیے مجبور ہوئیں کہ کسٹمرز کی ڈیمانڈز میں بے پناہ اضافہ ہورہا تھا۔’کیری فور ‘ نے میڈیکل سٹاف اور بڑی عمر کے افراد  کے لیے  الگ سے مخصوص اوقات مقرر کئے۔ بڑے سٹوروں نے’اِن سٹور پک اپ‘ کا بھی نظام قائم کیا بالخصوص ان سٹوروں نے اس شعبے میں زیادہ توجہ دی جن کے ہاں ہوم ڈیلیوری کا نظام زیادہ وسیع اور مضبوط نہیں تھا۔’اِن سٹور پک اپ‘ میں صارف اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے مطلوبہ ریٹیلر کو آرڈر اور ادائیگی کرتاہے البتہ سامان اٹھانے کے لئے سٹور میں آتا ہے۔

بھارت میں ایک کروڑ بیس لاکھ کریانہ سٹورز ہیں۔ یہاں90 فیصد سپلائی چینز غیرمنظم انداز میں کام کررہیتھیں تاہم بڑے ملٹی نیشنل ریٹیلرز اور سپلائی چین کے آ نے سے  اس شعبے میں کافی بہتری آئی ہے۔ اب یہ کریانہ سٹورز ڈیجیٹلائزڈ ہورہے ہیں، انھوں نے ای کامرس شروع کردی ہے۔ وہاں ڈیجیٹل پے منٹ کا انتظام کرنے والی کمپنیاں بھی اپنی خدمات میں تیزی پیدا کررہی ہیں، اسی طرح بڑے ری ٹیلرز پوائنٹ آف سیل(پی او ایس) سسٹم  متعارف کروا رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کی ان کوششوں سے بھارت کے کریانہ سٹور جدید سٹورز کی شکل اختیار کررہے ہیں۔

کورونا وائرس کے خوف کی شکار لوگ غیرمعمولی طور پر تیزی سے آن لائن شاپنگ کی طرفگئے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا میں بڑی ریٹیل کمپنیوں ’انسٹاکارٹ‘ ، ’وال مارٹ‘ اور ’شپ‘  کی ایپلیکیشنز کی ڈاؤن لوڈنگ میں یکسرغیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مارچ میں ’انسٹاکارٹ‘ کی ایپلی کیشنز 218 فیصد، ’وال مارٹ‘ کی 160 فیصد اور’شپ‘ کی 124 فیصد زیادہ ڈاؤن لوڈ ہوئیں۔اس کا واضح مطلب ہے کہ کسٹمرز نے سمجھ لیا کہ اب ان کے پاس آن لائن شاپنگ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس کے آنے کے بعد41 فیصد امریکیوں نے پہلی بار آن لائن خریداری کی۔ ان لوگوں میں60 سال سے زائد عمر کے افراد زیادہ تھے۔ یاد رہے کہ 2019ء میں صرف چار فیصد امریکی صارفین نے آن لائن گروسری خریدی تھی۔

ہمیشہ ڈیزاسٹر کے دنوں میں کسٹمرز کے رجحانات میں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے، ایسے دنوں میں لوگ نئی مہارتیں سیکھتے ہیں۔ لوگوں کو آج جس آفت کا سامنا ہے، اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ سیکھ رہے ہیں کہ آن لائن شاپنگ کیسے کی جاتی ہے؟ دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ’گوگل‘ کے ٹرینڈز کے مطابق  یکم مارچ2020ء سے 25 اپریل تک ’’آن لائن شاپنگ کیسے کی جاتی ہے؟‘‘ کا جواب گوگل پر تلاش کرنے والوں میں گزشتہ مہینوں کی نسبت 100گنا اضافہ ہوا۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ انہیں آن لائن خریداری نے مزہ اور فائدہ دیا تو کورونا وائرس کے بعد بھی وہ آن لائن خریداری ہی کریں گے۔ ’فائدہ‘ سے ان کی مراد ہے کہ اگر اشیائے ضروریہ سستے داموں ان کے گھر تک پہنچیں اور اسی معیار کی ہوں جو وہ چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہو تو خریدار سٹور تک جانے اور آنے کا وقت اور اخراجات بچائے گا۔

عمومی طور پر سمجھا گیا کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ریٹیل بزنس پر بھی بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم ریٹیل بزنس کی دنیا میں کچھ عجیب تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ مثلاًبرطانیہ میں لوگوں نے گروسری کی شاپنگ پر524 ملین پونڈز معمول سے زیادہ خرچ کیے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سپرمارکیٹوں میں خریداروں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے جبکہ چھوٹے سٹوروں کی طرف  جانے والے خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں چھوٹی دکانوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے والوں کی تعداد میں40 فیصد اضافہ ہواہے، اس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے خود ہی زیادہ رش والی جگہوں کے بجائے اپنے علاقے کی چھوٹی دکانوں پر جانا شروع کردیاہے۔ برطانیہ میں بھی لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گھر ہی میں گزار رہے ہیں، کھانے پینے کی خاطر بھی کم ہی باہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گھر میں استعمال ہونے والی اشیائے صرف کی خریداری کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

سپرمارکیٹوں جیسے ٹیسکو کے منتظمین کا کہناہے:’’ اگرچہ ان کے ہاں آنے والے خریداروں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن آنے والے خریداروں نے شاپنگ معمول سے دوگنا زیادہ کی۔ مثلاً پہلے ایک خریدار ایک ماہ کے دوران میں اوسطاً ایک سٹور پر 17بار جاتا تھا تاہم اپریل2020ء میں وہ 14بار آیا۔ اب وہ  جب بھی آیا تو اس نے معمول سے سات گنا زیادہ مقدار یا تعداد میں چیزیں خریدیں۔

٭صارفین اب کیا خریدتے ہیں؟

لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ جو کچھ خریدتے ہیں، اس میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب وہ ایسی اشیا خریدتے ہیں جن سے گھروں میںرہ کر لطف اندوز ہوا جاسکے۔ مثلاً اب بیکنگ کا زیادہ سامان خریدا جارہا ہے، معمول سے115فیصد زیادہ ۔ اپریل 2020ء میں اپریل 2019ء کی نسبت چینی کی فروخت میں46 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ رائے عامہ کے ایک جائزہ کے دوران میں لوگوں کی اکثریت کا کہناہے کہ وہ گھر میں زیادہ تر بیکنگ کرتے ہیں۔ا عدادوشمار کے مطابق گزشتہ 12ہفتوں کے دوران میں گروسری کے سامان کی فروخت میں9.1  فیصد کا اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں بھی آن لائن گروسری منگوانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔ مجموعی خریداری میں  اس کا حصہ پہلی بار 10فیصد سے زیادہ ہوا ہے۔

برطانیہ میں بھی بڑے سٹور اپنے آن لائن شاپنگ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، اسی طرح وہ ہوم ڈیلیوری کے سسٹم میں بھی اضافہ کررہے ہیں کیونکہ  آن لائن خریداروں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ گروسری کے شعبے میں ماہ اپریل2020ء میں آن لائن شاپنگ کا حصہ 10.2فیصد تھا جوکہ مارچ 2020 ء میں سات اعشاریہ چار فیصد تھا۔

اب ترقی یافتہ ممالک میں بڑی بڑی سپرمارکیٹیں ایسے سٹورز بھی کھول رہی ہیں جو بظاہر سپرمارکیٹ ہی نظر آتی ہے تاہم وہ دراصل ان کے وئیرہاؤس ہوتے ہیں، وہاں ہوم ڈیلیوری کے لیے سامان تیار ہوتا ہے یا پھر صرف پک اپ آرڈرز۔ ہوم ڈیلیوری اور باقی امور کی انجام دہی کے لئے سپرمارکیٹوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں  دینا شروع کردی ہیںکیونکہ ان کے ہاں ہوم ڈیلیوری کے آرڈرز بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ وبا کے ان دنوں میں امریکی  زیادہ سے زیادہ سامان اپنے گھروں میں ذخیرہ کررہے ہیں۔ خوراک، ہینڈ سینی ٹائزر، ٹوائلٹ پیپر اورگھر کے دوسرے سامان کی طلب غیرمعمولی طور پر بہت زیادہ ہوچکی ہے۔

لاک ڈاؤن کے بعد اب تک  امریکی کمپنی ’وال مارٹ‘ نے اپنے سٹورز کے لئے ڈیڑھ لاکھ  نئے ملازمین بھرتی کیے ہیں، ان میں سے زیادہ  کو عارضی بنیادوں پر کل وقتی یا جزوقتی ملازمت دی  ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ملازم ہیں جو مختلف کمپنیوں میں کام کرتے تھے لیکن حالیہ بحران میں انھیں بے روزگار کردیاگیاہے۔ دوسری امریکی کمپنیوں ’کروجر‘،’ ٹارگٹ‘، ’ امازون‘ نے  بھی ہزاروں لوگ بھرتی کئے ہیں۔

ریٹیلرز نے اپنے ہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر میں سختی اختیار کی ہے۔ مثلاً ’وال مارٹ‘ نے اپنے ملازمین پر ماسک یا چہرہ ڈھاپنے کی دوسری چیزیں لازم قرار دیدی ہیں۔ پہلے زیادہ سختی نہیںکی جاتی تھی تاہم اب اس پابندی کو زیادہ سخت کردیاگیا ہے۔ ایسا صرف سٹورز ہی میں نہیں کیا جارہا بلکہ کلبوں، ڈسٹری بیوشن سنٹرز،  وئیرہاؤسز اور کارپوریٹ دفاتر میں پابندی سخت کی گئی ہے۔

نئے حالات میں تبدیلی کی ضرورت کو سماجی رابطے کے ذرائع نے بھی خوب محسوس کیا، نتیجتاً وہ صارفین اور ریٹیلرز کو سہولت دینے کے لئے نت نئے راستے کھول رہے ہیں۔’انسٹا گرام‘ نے پاکستان سمیت ایشیائی ملکوں میں لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن بزنس اور ہوم ڈیلیوری میں مدد دینے کے لیے نئے فیچرز متعارف کرائے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے کاروبار کی معاونت کے لیے نئے ٹولز سامنے لائے گئے ہیں۔

پاکستان میں صارفین خود جاکر اشیائے ضروریہ خریدتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن کاروبار کرنے والے  زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں اور جیسا مال دکھاتے ہیں، ویسا بھیجتے نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے صاف اور آن لائن ریٹیلر کے درمیان اعتماد کی شدید ترین کمی ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں بعض ریٹیلرز نے صارفین کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے کاروباری اداروں، برانڈز، حتیٰ کہ بینکنگ سیکٹر نے بھی صارفین کو مختلف انداز میں آن لائن رشتہ جوڑنے کی ترغیب دی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ اب  ری ٹیلرز کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ آن لائن سسٹم کے ذریعے کسٹمرز  کو دوسرے ریٹلرز کی نسبت سستے داموں پر معیاری اشیا فراہم کرکے انھیں مستقلاً  اپنے ساتھ آن لائن جوڑے رکھیں۔ کامیاب ریٹیلرز وہی ہوگا جو اس دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لائے، آرڈر ملنے سے ہوم ڈیلیوری یعنی سامان فراہم کرنے تک کے وقت کو کم سے کم کرے۔

موجودہ صورت حال میں ری ٹیلرز کی تمام تر توجہ  صارفین کی ضرورت کو محسوس کرنے اور اسے موجودہ حالات میں بہتر اور محفوظ طر یقے سے پوری کرنے  پر ہے۔ وہ سپلائی چین پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ڈیلیوری  کی صلاحیت کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ وہ دوسرے سیکٹرز سے نوجوانوں کو بلا رہے ہیں اور ان کی مدد سے اپنے آپ کو مزید بہتر کررہے ہیں۔ وہ بالخصوص ایسے نوجوانوں کو اپنے ہاں جگہ دے رہے ہیں جو حال ہی میں بے روزگار ہوئے ہیں۔

اندازہ ہے کہ بدلتے ہوئے منظرنامے میں آن لائن شاپنگکلچر تیزی سے متعارف ہوگا اور ترقی کرے گا۔ اگرچہ اس سے بڑے ری ٹیلرز زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔  یہ چھوٹے ریٹیلرز کے لئے چیلنجنگ ہوگا کیونکہ وہ بڑے ریٹیلرز کی نسبت آن لائن اور ہوم ڈیلیوری سسٹم کو بڑے پیمانے پر چلانہیں سکتے۔ تاہم انھیں اپنی بقاکے لئے نئے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اورایسا نظام بنانا ہوگا جس پر لاگت بھی کم آئے اور کسٹمرز کی توقعات بھی پوری ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔