اللہ کے نام پر…

شیریں حیدر  اتوار 17 مئ 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ آپ روزے نہیں رکھ رہی ہیں تو امید ہے کہ آپ نے ان روزوں کا فدیہ دے دیا ہو گا؟ ‘‘ میں نے تائی جی سے پوچھا۔

’’ ہاں پتر… پورے چوبیس سو روپے بھجوائے ہیں میں نے مریماں کو! ‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ ’’مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ ایک روزے کے بدلے اسی روپے دینے ہوں گے… میںنے تو تیس روزوں کے بھیج دئے ہیں، اب انتیس بھی ہو گئے تو خیر ہے!‘‘ انھوں نے اپنی سخاوت ظاہر کی۔

’’ اچھا لیکن آپ کو یہ علم تو ہے نا کہ آپ اپنے آپریشن کے باعث روزے نہیں رکھ پا رہیں ، لیکن جب آپ تندرست ہو جائیں گی تو آپ نے یہ روزے قضا کر کے رکھنے بھی ہیں ؟ ‘‘

’’ لو جی… یہ کیا بات ہوئی، یہ تو میں پہلی بار ہی سن رہی ہوں ! ‘‘ انھوں نے حیرت سے کہا، ’’ اگر روزے بھی رکھنے ہیں تو پھر فدیہ کیوں دیتے ہیں؟ ‘‘

’’ فدیہ تو اس لیے دینا ہوتا ہے کہ اگر کسی کی روزے قضا کر کے رکھنے سے پہلے خدا نخواستہ موت واقع ہو جائے تو اس کے روزوں کا عوضانہ ادا ہوا ہو گا! ‘‘ میں نے رسان سے کہا، ’’ اور دیکھیں نا، بہت سی چیزیں ہمیں پہلے سے علم نہیں ہوتیں مگر مخصوص حالات میں ان کا علم ہوتا ہے، آپ نے بھی تو زندگی میں پہلی بار روزے نہیں رکھے اور فدیہ دیا ہے۔ آپ کو یہ بھی تو کسی سے علم ہوا نا کہ روزے نہ رکھنے کی صورت میں فدیہ دینا ہوتا ہے تو یہ بھی جان گئیں کہ صحت مند ہو کر آپ کو یہ روزے رکھنا ہوں گے!‘‘

’’ ہوں … ‘‘ انھوں نے سینے کی گہرائی سے سانس کھینچی، مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا مقصد کیا تھا۔ چوبیس سو روپیہ، اپنے تیس روزوں کا عوضانہ دے کر بھی انھیں یہ روزے بہر حال رکھنا تھے۔

’’ اچھا یہ بتائیں کہ آپ کس عمر سے روزے رکھ رہی ہیں؟‘‘ میںنے ان کا موڈ بحال کرنے کو پوچھا۔

’’ یہ مجھے یاد نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ سات سال کی عمر سے، جب سے روزہ فرض بھی نہیں تھا، گھر میں سب روزہ رکھتے تھے تو ہم بھی شوق شوق میں پورا روزہ رکھتے تھے۔ بڑے کہتے بھی تھے کہ بچوں کو چڑی روزہ رکھنا ہوتا ہے مگر ہم تو اصل والا روزہ رکھتے تھے، قرآن اورنماز کی پابندی کے ساتھ !!‘‘ تفاخر سے انھوں نے بتایا۔’’ ماشااللہ تائی جی!‘‘ میںنے تعریف کی ۔

’’ صرف یہی نہیں… رمضان کے علاوہ بھی جو جو نفلی روزے گھر میں بڑے رکھتے تھے، عاشورے کے، شب برات، حج کا دن، ہر اسلامی مہینے کی گیارہویں کا روزہ، وہ بھی ہم رکھتے تھے اور شوال کے چھ روزے تو عید سے اگلے دن ہی شروع کر دیے جاتے تھے تا کہ کوئی کم کجی، بھول چوک ہوئی ہو یا کوئی روزے چھوٹ گئے ہوں تو وہ بھی پورے ہو جائیں ! ‘‘

’’ ماشااللہ، ماشااللہ! ‘‘ میںنے ان کی تعریف کی۔

’’ بس یہ اس سال پہلی بار ہوا ہے کہ فرضی روزے چھوٹ رہے ہیں، دکھ تو ہے مگر سکت نہیں ہو پا رہی! ‘‘ انھوں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

’’ پچھلے سال روزے رکھے تھے آپ نے؟ ‘‘

’’ پورے کے پورے، اللہ کے فضل سے! ‘‘ انھوںنے فورا کہا۔

’’ اچھا، کیا کھاتی تھیں آپ سحری میں؟ ‘‘ میںنے یونہی سوال کیا ۔

’’ میں بیٹا، ایک کٹورا دہی کا، دیسی گھی کا ایک پراٹھا، تین کھجوریں، ایک فرائی انڈہ اور دو گلاس لسی… دو ایک گلاس پانی دوا کے ساتھ لے لیتی تھی! ‘‘ انھوں نے اپنی سحری کی تفصیل بتائی۔ ’’ اچھا، ماشااللہ… روزہ ٹھیک گزر جاتا تھا، پیاس وغیرہ تو نہیں لگتی تھی؟ ‘‘

’’ نہیں نہیں، بالکل اللہ کا کرم ہے، ٹھیک گزرا جاتاتھا روزہ اور دوا بھی تین کی بجائے رمضان میں میں دو وقت کی کھاتی تھی، پھر بھی دن بھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا‘‘۔

’’ اللہ کا شکر ہے، اللہ آپ کودوبارہ ویسی ہی صحت عطا کرے گا اور انشااللہ آپ ان روزوں کو بھی قضا کر لیں گی اور اگلے برس سے دوبارہ اسی طرح روزے بھی رکھ سکیں گی! ‘‘ میںنے انھیں دعا دی۔’’انشااللہ…‘‘

’’ اچھا، بتائیں کہ جب روزے رکھتی تھیں تو افطاری میںکیا کھاتی تھیں آپ؟ ‘‘

’’ بچے تو پکوڑے سموسے وغیرہ کھاتے ہیں، مجھے ہضم نہیں ہوتے ، کبھی ایک آدھا لے لیا مگر میں کوئی موسمی پھل لے لیتی ہوں، یا بچیاں سارے پھل ملا کر فروٹ چاٹ بنا دیتی ہیں اور دو گلاس دودھ سوڈا لیتی ہوں۔ اس کے بعد نماز پڑھ کر چائے اور ایک گھنٹے کے بعد عشا ء کی نماز سے پہلے ہلکا سا کھانا لے لے لیتی ہوں !‘‘ …’’ اچھا… ‘‘ میں نے ان کی طرف دیکھا، ’’ تو تائی جی، یہ بتائیں کہ یہ جو ہم اپنے روزے کا عوضانہ دیتے ہیں، اسے کون مقرر کرتا ہے؟ ‘‘

’’ مسجد کے مولوی صاحب اعلان کرتے ہیں بیٹا کہ فی روزہ یہ ہدیہ ہے!! ‘‘ انھوںنے فورا کہا۔

’’ جو اعلان مسجد میں کیا جاتا ہے تائی جی، وہ غریب سے غریب تر کے لیے اور کسی روزے کا کم سے کم عوضانہ ہے، وہ لوگ جو روکھی سوکھی کھا کر روزہ رکھتے ہیں، ان کا شاید فی روزہ اسی روپے یاشاید اس سے بھی کم خرچہ ہوتا ہو گا… آپ تو لسی کے دو گلاس اور دہی کا ایک کٹورا، انڈہ اور دیسی گھی کا پراٹھا لیتی ہیں تو آپ کی سحری پر ہی کم از کم دو اڑھائی سو روپیہ خرچ ہوتا ہے اور پھلوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرتے ہیں، پھر دودھ سوڈا شامل کر لیں تو تین چار سو روپے کی آپ کی افطاری ہوتی ہے اور اس کے بعد کھانا بھی۔ جب آپ اپنے اس روزے کا فدیہ دیتی ہیں تو اس وقت ان لوگوں کے نرخوں پر دیتی ہیں جنھیں ایک وقت کی روکھی سوکھی مل جائے تو دوسرے وقت کا یقین نہیں ہوتا! ‘‘ ان کے ماتھے کے بل بڑھتے جا رہے تھے مگر حقیقت سے انکار نہیں کر سکتی تھیں !!

’’ دیکھیں تائی جی، جب ہم نے اپنے روزے کا فدیہ دینا ہو تو اسی کے مطابق دینا چاہیے جس طرح کہ ہم اپنے لیے خرچہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جیسے کہ صدقہء فطر کا نصاب ہوتا ہے، اس کے لیے جن اجناس کو نصاب کی بنیاد قرار دیا گیا ہے وہ گندم، جو ، کھجور، کشمش اور پنیر ہے۔ جو شخص جس طرح کا صاحب حیثیت ہو اسے اپنے روزے اور باقی چیزوں کے کفارے کے لیے جو کچھ ادا کرنا ہوتا ہے اس کی مقدار اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح کہ ہم اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں! ‘‘ وہ خاموشی سے سن تو رہی تھیں مگر مجھے لگ رہا تھا کہ انھیں میری بات پسند نہیں آئی تھی۔

ایسا کیوں ہے… ہم اپنے پرانے کپڑے جوتے، برتن وغیرہ نکال کر رکھتے ہیں اور کوئی پوچھے تو کہتے ہیں کہ اللہ کے واسطے دینے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ کیا اللہ کے واسطے دینے کے لیے ہمارے پاس یہی کچھ ہوتا ہے؟؟ اس سے مانگتے ہیں تو بہترین، دعا کرتے ہیں کہ ہمیں سب سے اچھا اور بہترین ملے اور وہ دیتا ہے، مگر جب ہم نے اس کے نام پردینا ہو تو ہمارا دامن اتنا تنگ کیوں ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا پھٹا پرانا، متروک اور بوسیدہ سامان ہی گھر سے نکالنا مقصود ہو تو اسے کم از کم اللہ کے نام پر کہنا چھوڑ دیں ۔ اللہ سب کو اپنے اچھے اعمال کے لیے جزائے خیر دے اور ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔