غرقابی کے شکار جزیروں کو بحال رکھنے والی ٹیکنالوجی میں اہم کامیابی

ویب ڈیسک  منگل 19 مئ 2020
ایم آئی ٹی کی وضع کردہ ٹیکنالوجی تیزی سے سمندر میں گھلتے جزیروں کو دوبارہ زندگی دے سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

ایم آئی ٹی کی وضع کردہ ٹیکنالوجی تیزی سے سمندر میں گھلتے جزیروں کو دوبارہ زندگی دے سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

مالدیپ: آب و ہوا میں تبدیلیوں اور سمندروں کے بلند ہوتی ہوئی سطح سے چھوٹے مگر آباد جزیرے بھی تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک عرصے سے ماہرین کے لیے دردِ سر بنا ہوا تھا لیکن میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے اس کا حل ایک مؤثر ٹیکنالوجی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

اگرچہ یہ نظام کچھ وقت لیتا ہے لیکن پانی کی لہروں میں سمندر برد ہونے والی مٹی کو بہنے سے روکتا ہے اور اسے دوبارہ جزیرے کا رقبہ بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ تجرباتی طور پرصرف چار ماہ میں مالدیپ کے ایک چھوٹے سے جزیرے پر کل 10,600 مکعب فٹ مٹی جمع ہوئی ہے جس سے پورے جزیرے کے بیرونی کنارے ڈیڑھ فٹ تک وسیع ہوئے ہیں۔

ایم آئی ٹی کے سائنسداں اسکائلر ٹبٹس کے مطابق مٹی کی ساختوں کو ازخود منظم کیا جاسکتا ہے جو ایک پائیدار ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت چھوٹے جزیروں کو ہمیشہ کے لیے غائب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں نے اس عمل کو جنگلات کے انتظام کی طرح قرار دیا ہے۔

اس ٹیکنالوجی میں غبارے نما آلات کو سمندری فرش پر بچھایا جاتا ہے اور آتی جاتی لہریں اس میں مٹی ڈالتی رہتی ہیں۔ اور اس کے بعد مٹی کو کناروں تک لایا جاتا ہے۔ یہ سب قدرتی عمل کے تحت ہوتا ہے اور یوں مٹی جمع ہوتی رہتی ہے۔ کئی ماہ قبل یہ منصوبہ مالدیپ کے ایک جزیرے پر شروع کیا گیا اور صرف چار ماہ کی مدت میں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے جو نیچے کی تصویر سے دیکھی جاسکتی ہے۔

ایک سروے کے تحت دنیا بھر کی 40 فیصد آبادی ساحلوں کے قریب رہتی ہے اور سمندری لہریں ساحلی کناروں کو تیزی سے نگل رہی ہیں۔ اس طرح یہ کیفیت ایک بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے بھاری مشینوں سے سمندری ریت کو دوبارہ کناروں تک لایا جاتا ہے لیکن یہ مہنگا، وقت طلب اور مشکل طریقہ ہے۔

ایم آئی ٹی کا بنایا ہوا نظام قدرتی انداز میں ریت کو خشکی پر لاکر جمع کرتا رہتا ہےاور چند دنوں میں ریت جزیرے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسکائلر کےمطابق سمندری لہروں کے بدلتے ہوئے رخ کے لحاظ سے بھی ٹیکنالوجی میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اب تک اس نظام کی چار آزمائشیں کی جاچکی ہیں۔

ماہرین اسے اب بڑے پیمانے پر استعمال کرنے پر غور کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔