کرکٹ میں نااہلی کا وائرس

سلیم خالق  پير 18 مئ 2020

’’یار تم ایک بات بتاؤ  اتنی خبریں دیتے ہو کیا فائدہ ہوتا ہے، کون سا کسی کی تقرری رک گئی یا کوئی ڈیل تمہاری خبر کی وجہ سے بورڈ نے ختم کر دی،اب تم کہہ رہے ہو کہ ندیم خان کو ہائی پرفارمنس سینٹر میں اہم ذمہ داری سونپنے کی خبراشتہار سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی،اس کا کیا فائدہ ہوا؟ جب  اسکائپ پر ویڈیو کال پر میرے ایک بے تکلف دوست نے یہ تلخ حقیقتیں بیان کیں تو سچی بات ہے مجھے بہت بْرا لگا، مگر پھر جلد ہی خود پر کنٹرول کرتے ہوئے یہ جواب دیا کہ ’’میں کسی پل پر جا رہا ہوں اور وہاں کوئی گڑھا نظر آئے تو میں اس کی صرف نشاندہی کر سکتا ہوں۔

مزدور بلا کر سیمنٹ  منگوا کر اسے بھروا نہیں سکتا، صحافی کا کام صرف نشاندہی کرنا ہوتا ہے، وہی میں کرتا ہوں‘‘  گوکہ میں نے اپنے دوست کو یہ لیکچر تو دے دیا مگر پھر سوچنے لگا کہ واقعی ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ اتنی بڑی بڑی خبریں سامنے آئیں اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، سی او اوسلمان نصیر، جی ایم ڈومیسٹک کرکٹ جنید ضیا، مشتاق احمد (اکیڈمی جاب)،مصباح الحق ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر،وقار یونس بولنگ کوچ، سلیم جعفر جونیئر چیف سلیکٹر، اقبال قاسم چیئرمین کرکٹ کمیٹی، شعیب نوید پروجیکٹ ایگزیکٹیو پی ایس ایل اور اب ندیم خان ہائی پرفارمنس ڈائریکٹر آپ اخبارات کی پرانی فائلز چیک کر لیں ان سب کے نام پہلے ہی میڈیا میں آ گئے تھے۔

بعض اوقات تو اشتہار جاری ہونے سے پہلے ہی بتا دیا گیا کہ فلاں پوسٹ آنے والی ہے اس پر  فلاں صاحب آئیں گے، ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی صحافی شرلاک ہومز یا جیمز بونڈ ہیں، جہاں تک میری معلومات ہیں کوئی علم نجوم بھی نہیں جانتا مگر یہ موجودہ انتظامیہ کی ناقص پالیسیز ہیں جس کی وجہ سے ایسا ہوا، یہ لوگ تصویر سامنے رکھ کر اشتہار تیار کرتے ہیں، خصوصیات یا کوئی کمی ہو تو اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے پھر تقرر ہوتا ہے، میں نے ماضی میں اتنی ساری پوسٹ کیلیے بورڈ میں کبھی ایسا ہوتا نہیں دیکھا،1،2 عہدوں کی بات اور تھی، اسی طرح پی ایس ایل کے لائیو اسٹریمنگ رائٹس جوئے کی کمپنی کو بیچنا بہت بڑا اسکینڈل ہے، بعض دوست صحافیوں کے علاوہ دیگر میڈیااور سابق کرکٹرز چلاتے رہ گئے مگر بورڈ نے کوئی سخت ایکشن نہیں لیا۔

اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حکام کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں، سابق کرکٹرز کو بھی وہ اہمیت نہیں دیتے، انھیں پورا یقین ہے کہ جب تک موجودہ حکومت برقرار ہے کوئی انھیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، یہ رحجان خطرناک ہے اس سے ہماری کرکٹ پستیوں میں گرتی جا رہی ہے مگر افسوس حکومت کی ترجیحات میں کھیل شامل نہیں، کورونا اور دیگر کئی بڑے مسائل سے جان چھوٹے تو وہ ادھر دیکھیں گے ناں،حال ہی میں مجھے رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی نے بتایا کہ انھوں نے وزیر اعظم کو لائیو اسٹریمنگ اسکینڈل سے آگاہی فراہم کردی مگر مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایکشن ہوگا۔

آج احسان مانی خود کوبڑی شخصیت سمجھتے ہیں، ماضی میں نجم سیٹھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ انھیں کوئی نہیں ہٹا سکتا، میڈیا  ان کا غلام ہے، آج کہاں ہیں وہ، ان کی کشتی ڈوبتی دیکھ کر سب سے پہلے ٹویٹر آرمی سائیڈ پر ہوئی، تعریف میں زمین آسمان ایک کر دینے والے صحافی بھی چپکے سے دور ہو گئے، احسان مانی اینڈ کمپنی کے ساتھ بھی ایک دن ایسا ہی ہونا ہے،مگر اس وقت تک نجانے ملکی کرکٹ کو کتنا نقصان پہنچ چکا ہو گا، قومی ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں پہلے سے چوتھے نمبر پر آگئی، ون ڈے اور ٹیسٹ میں تو ہم پہلے ہی بہت پیچھے تھے۔

ڈومیسٹک کرکٹ کا تیا پانچہ کرنے کے بعد اب پھر ڈپارٹمنٹس کی یاد آ رہی ہے، ان کیلیے سال میں ایک ٹورنامنٹ کرایا جائے گا، بورڈ کے بقراطوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جناب 15،20دن کے ایک ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کیلیے کون سا ادارہ سال بھر کھلاڑیوں کو تنخواہیں بانٹے گا،ڈپارٹمنٹس کو ختم ہوئے عرصہ بیت گیا اب تک گورننگ بورڈ میں انہی کے نمائندے موجود ہیں، جو آئین بنے ان پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا،کلب کا آئین اب تک نہیں بن سکا، بس سب بدل دو یہی پالیسی ہے، کپتان بدل دیا، کوچ بدل دیا، تقریباً پورا بورڈ بدل دیا، اب  اکیڈمی ہائی پرفارمنس سینٹر کہلائے گی دیکھتے ہیں کیا تبدیلی آتی ہے۔

ندیم خان ایک اچھے اور ملنسار انسان ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، البتہ صرف اچھا ہونا ہی بڑی پوسٹ کی قابلیت نہیں ہوتی،شاید اسی لیے بورڈ کو پریس ریلیز میں ان کی کامیابیوں میں برائن لارا کی وکٹ لینا اور سچن ٹنڈولکر کو رن آؤٹ کرنا لکھنا پڑا، ندیم کی بورڈ میں انٹری کیسی ہوئی اس پر ابھی بات نہیں کرتے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر پوسٹ پر کسی اپنے جاننے والے کو ہی لایا جائے؟کل کوہائی پرفارمنس سینٹرکے کوچز میں اگر کوئی بڑا نام آئے تو وہ کیسے لیول تھری امتحان میں صرف25 نمبر لینے والے لیول ٹوکوچ ندیم خان کو بطور باس عزت دے گا،کیا کسی نے یہ سوچا ہے؟ بورڈ کے ہر کام میں ہی تنازعات سامنے آ رہے ہیں، سینٹرل کنٹریکٹ میں فواد عالم کو نہیں لیا، پی ایس ایل کی پرفارمنس پر کئی پلیئرز آ گئے۔

مصباح نے اپنے منظور نظر افتخار احمد کو بھی معاہدے سے نواز دیا، کوئی ان سے پوچھنے والا ہی نہیں ہے،اگر ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو اہمیت نہیں دینا تھی تو سوا ارب روپے کیوں خرچ کیے،بورڈکہہ رہا ہے کہ اگلے سیزن میں بھی خود رقم  لگانا پڑے گی،اسپانسرز نہیں مل رہے تو مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ والوں کو بھاری تنخواہیں کیوں دی جا رہی ہیں؟ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مگر احسان مانی و دیگر ٹاپ آفیشلز چین سے بیٹھے ہیں۔

دیکھتے ہیں حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے یا نہیں، کرکٹ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، کروڑوں لوگ اسے فالو کرتے ہیں، ہاکی کی تباہی میں بھی حکومتی عدم توجہی کا اہم کردار تھا، اب کرکٹ میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، جہاں چیک اینڈ بیلنس نہ ہو وہاں ایسے ہی متکبرانہ انداز میں کام ہوتا ہے، کاش کسی اعلیٰ شخصیت کی ملکی کرکٹ کے معاملات  پر بھی نظر پڑ جائے، نااہلی بھی کسی وائرس سے کم نہیں، پاکستان کرکٹ میں یہ وائرس سراعیت کر چکا ہے، اگر جلد ایکشن نہ لیا گیا تو یہ اسے دیمک کی طرح چاٹ لے گا،امید ہے عمران خان ایسا نہیں ہونے دیں گے، اب وہی آخری امید ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔