چائنا کا سامان کل اور آج

ببرک کارمل جمالی  منگل 19 مئ 2020
آج کل پھر چائنا سے آئے ہوئے کورونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان  اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

آج کل پھر چائنا سے آئے ہوئے کورونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

ٹھیک آج سے چھے ماہ پہلے جو ناکارہ چیزیں پاکستانی مارکیٹ میں سمجھی جاتی تھی وہ چائنا کی ہی چیزیں تھی۔ حتیٰ کہ پاکستانی دکان دار قسم اٹھا اٹھا کر تھکتے ہی نہیں تھے یہ چائنا کا مال نہیں کسی اور ملک کا مال ہے۔ مگر آج کل پھر چائنا سے آئے ہوئے کورونا وائرس سیفٹی مال لاکھوں اربوں روپے کا سامان  اعلیٰ کوالٹی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ وقت کیوں آ گیا کل کی خراب چیزیں اچھی کیسے ہونے لگی۔

چین دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے۔ جہاں پر ہرچیز بنانے کا سب سے بڑے بڑے کارخانے موجود ہیں۔ اس وقت پوری دنیا چین کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ جلد کورونا وائرس کی ویکسین بنا کر ہم سب کو دیں گے اور ہماری سانسیں نہیں رکیں گی، حتیٰ کہ چین نے ویکسین بنا کر پاکستانی عوام پر تجربہ کرنے کا بھی سوچ بھی لیا ہے۔ چین دنیا میں ناکارہ ترین چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں پر ہر چیز دو سے تین مرتبہ دوبارہ استعمال میں دوبارہ لائی جاتی ہے۔ایک شیونگ بلیڈ سے لیکر چمچے تک۔۔

آج کل پوری دنیا میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑ کے سوپ کھانے سے پھیلا ہے سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی تو سارا سال مرغی کا سوپ کھاتے ان کا کھانسی زکام تک ختم ہو جاتا ہے اور تو اور سوپ کھانے سے کبھی الرجی تک ہوا نہیں ہے۔ آج سب کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ کورونا وائرس کو چین نے ختم کر دیا ہے اور وہی کورونا وائرس ہمارے پاس پھلنے پھولنے لگا ہے۔

آج تک کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کورونا وائرس پاکستانیوں کے جسم میں کیسے منتقل ہوا اور پہلا کیس کس کا رپورٹ ہوا ہے اور جس کو کورونا وائرس ہوا ہے اس کے وائرس کس شخص سے اس شخص میں منتقل ہوئے ہیں۔ اگر اس ملک کے کسی شخص کو کچھ پتا ہے تو وہ لاک ڈاؤن کا پتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے شہر شہر قریہ قریہ بند کرنے کا افسوس ہوتا ہے۔ دنیا نے ایٹم بم بنایا ہے مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ نہ معلوم کر سکیں ہیں۔ آخر سائنس دانوں نے اس کورونا وائرس کے پھیلاؤ پہ کبھی تحقیق کیوں نہیں کی۔ جب پاکستان میں کسی بچے کو پولیو وائرس ہوتا ہے تو اس کا فضلہ لیا جاتا ہے۔اور پھر وائرس کی تصدیق کے ساتھ یہ بھی پتا چل جاتا ہے۔کہ وائرس کہا سے بچے کو لگا ہے۔ مگر کورونا وائرس ایسا وائرس ہے جس کے لئے ہم صرف ہاتھ پہ ہاتھ صاف کیے ہوئے ہیں آخر کیوں؟

کہیں تو ایسا نہیں ہے کہ ہاتھوں کو صاف کر کے ماسک پہن کر اور ٹھنڈا ٹھار سینیٹائزر استعمال کر کے ہم لوگ  اس بیماری سے بچ سکیں گے بالکل یہ طریقہ اس ملک میں غلط چل رہا ہے کبھی سوچا ہے کہ جو سامان ہمیں کورونا وائرس زدہ ملک چائنا سے ملا ہے وہ سامان تو کورونا زدہ نہیں ہے کبھی اس سامان کی کوالٹی کسی بڑے ادارے نے چیک کی ہے۔ اگر کی ہے تو اس کا رپورٹ کہا ہے عوام کے سامنے کیو پیش نہیں کیا گیا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کا مال جو چائنا سے پاکستان میں آیا بڑے دھوم دھام سے فروخت ہو رہا ہے اور جتنا مال آیا ہے اس روز سے آج تک پاکستان کے کورونا وائرس میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے آخر کیوں؟ اور تو اور اعلیٰ شخصیات بھی اس وائرس کی زد میں آ چکے ہیں اور ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ بھی اور پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر حضرات بھی اس وائرس سے بچ نہیں سکیں ہیں آخر؟

پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر وہ لوگ ہیں جو کورونا وائرس زدہ شخص سے بھی بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں مگر پھر بھی کورونا وائرس نے ان کو گلے لگا لیا ہے آخر کیوں؟ کہیں ان کو ملنے والا سامان چائنا کا مال کورونا زدہ تو نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس وقت لوگ کیوں کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں؟یہ بات سوچنے کی ہے اور اس پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

کورونا وائرس ایک نیا وائرس ضرور ہے مگر پاکستان میں یہ وائرس پرانے لوگوں کو مار رہا ہے ہر کھانسی زکام بخار کورونا وائرس نہیں ہوتا ہے مگر علامت کورونا وائرس کے ضرور ہے پاکستانی وہ قوم ہے جو بیس سال سے زائد عرصے میں پولیو کو ختم نہیں کر سکا ہے تو پھر کورونا وائرس کو کیسے ختم کریں گا کورونا وائرس اگر خود بخود ختم ہو جائے تو ہمارے لیے مال غنیمت ہوگا۔

پاکستان نے میڈیکل کے شعبے میں کئی ممالک سے  بہت ترقی یافتہ ملک ہے جس نے جگر ٹرانسپلانٹ سے لیکر ہڈیوں کے ڈھانچوں کو ایسے جوڑا ہے جیسے ہڈیاں ٹوٹی ہی نہیں ہے خدارا چائنا کا مال جو ملا ہے یا مل رہا اس کا چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ ٹیسٹ بھی ضرور کریں تاکہ ہمیں بھروسا ہو کہ چائنا کا مال اچھا ہے یا برا ہے یا ناکارہ مال ہے یا استعمال شدہ مال ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ چائنا دنیا میں اپنے معاشی ترقی کے لیے اپنا راہ ہم وار کر رہا ہے۔

ووہان چائنا سے پھیلنے والا وبا کورونا وائرس جس نے دنیا میں دھوم مچا دیا ہے سب لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور بیمار کر دیا ہے۔ وہ دسمبر کا مہینا تھا جب پاکستان میں سخت سردی کا راج تھا اس وقت یہ وبا چائنا سے نمودار ہوا اور  اپریل تک دنیا کے دو سے زائد ممالک میں پھیل گیا ہے۔

اس وقت دنیا کی آنکھیں چین کی طرف ہے اس وقت چین دنیا کے ہر ممالک میں کورونا وائرس کا سامان پہنچانے میں لگا ہوا ہے چین ترقی کا سفر طے کر رہا ہے دنیا تنزلی کا سفر طے کرنے میں مصروف  ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر برائی چین میں ہوتی ہے ہر چیز ہضم کر جاتے ہیں چاہے لکڑ ہو یا پتھر ہو۔ ہم نے ہر چیز کو بند کردیا، مگر چائنا کے مال کو تالا نہیں لگایا اور نہ چائنا کا مال اپنے لیبارٹری تک پہنچائیں ہیں کہ لیب ٹیکنیشن یہ دیکھیں کہ کہیں چائنا کا مال متاثرہ تو نہیں!

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔