ویڈیو گیم کی نقل میں بچے عمارت سے کود گئے، والدین کا کمپنی پر مقدمہ

ویب ڈیسک  جمعرات 21 مئ 2020
منی ورلڈ گیم جسے کھیلتے ہوئے بچوں نے چھلانگ لگائی، یہ ویڈیو گیم پورے چین میں مقبول ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

منی ورلڈ گیم جسے کھیلتے ہوئے بچوں نے چھلانگ لگائی، یہ ویڈیو گیم پورے چین میں مقبول ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

بیجنگ: چین میں دو بچے ویڈیو گیم کے کرداروں کی طرح چھت سے کود گئے کیونکہ اس ویڈیو گیم کے کردار گرنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد والدین نے ویڈیو گیم کمپنی پر مقدمہ قائم کردیا ہے۔

9 اور 11 برس کے دو لڑکے منی ورلڈ اور گیم آف پیس کھیلتے ہوئے اپنی بلڈنگ سے چھلانگ لگانے کے بعد اس وقت شدید زخمی ہیں۔ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس گیم کو کھیل رہے تھے۔ اس کے بعد والدین نے چینی گیم کمپنی ٹینسنٹ پر مقدمہ کردیا ہے۔

اس گیم میں اوتارجیسے کردار عمارتوں سے گرتے ہیں اور دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں۔ دونوں بچے لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزانہ 8 گھنٹوں تک یہ گیم کھیلتے رہے۔ اس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے گیم کے کرداروں کو حقیقی سمجھ لیا اور 22 مارچ کو 50 فٹ کی بلندی سے کود گئے۔ یہ واقعہ چین کے شہر ہیندان میں پیش آیا لیکن افسوس گیم کے برخلاف دونوں بچے دوبارہ ٹھیک تو نہ ہوئے بلکہ ان کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، وہ بری طرح زخمی ہوئے اور اب ان کے کئی آپریشن ہوچکے ہیں لیکن اب بھی بچے خطرے سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ ان میں ایک لڑکی اور ایک لڑکا شامل ہے۔

والدین نے تمام جمع پونجی بچوں کے علاج میں لگادی ہے اور لوگوں کے عطیات سے ان کا علاج کرارہےہیں۔

گیم کے دوران چھوٹی بہن نے بھائی سے کہا کہ اگر ہم بھی چھلانگ لگائیں تو ہم بھی گیم کی طرح دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ اس کے بعد دونوں نے آنکھیں بند کرکے ایک ساتھ عمارت سے چھلانگ لگادی لیکن اس کے بعد وہ شدید زخمی ہوکر بے ہوش ہوگئے۔

منی ورلڈ گیم میں کردار کسی بھی طرح مرتے نہیں ہیں اور وہ ہر حادثے میں زندہ رہتے ہیں۔ والدین کے مطابق ان کے بچے نارمل تھے اور وہ گیم کے عادی ہوکر اس خطرناک اور جان لیوا تجربے پر مجبور ہوئے۔ یہ دونوں گیمز ٹینسنٹ کمپنی نے بنائے ہیں اور اس نے واقعے کی ذمے داری لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ منی ورلڈ گیم ایک دوسری کمپنی نے بنایا ہے تاہم وینسنٹ ہی اس کمپنی کی بھی مالک ہے۔

تاہم اس حادثے کے بعد بچوں کو یہ احساس ضرور ہوگیاہے کہ حقیقی دنیا ویڈیو گیم کی دنیا سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔