عالمی وباء کی پیش گوئی پر مبنی ساری تخلیقات امریکہ ہی میں کیوں؟

عبید اللہ عابد  اتوار 24 مئ 2020
یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ کرونا جیسی صورتحال پر کتابیں، فلمیں اور تجزیئے سب امریکی شہریوں کی طرف سے سامنے آئے ۔  فوٹو : فائل

یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ کرونا جیسی صورتحال پر کتابیں، فلمیں اور تجزیئے سب امریکی شہریوں کی طرف سے سامنے آئے ۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس کہاں پیدا ہوا اور کیسے ساری دنیا تک پھیلا؟ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی ہی باتیں ہیں۔کوئی کہتاہے کہ یہ چین کا  امریکا پر بائیالوجیکل حملہ ہے، کوئی کہتاہے کہ امریکا نے چین پر حیاتیاتی وار کیا جسے چین نے واپس  امریکا  کی طرف پلٹ دیا۔  اسی طرح کچھ اور بھی باتیں پھیل رہی ہیں جنھیں ’سازشی تھیوریز‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے ناول کا ذکر کرتے ہیں جس  کے بارے میں 16فروری2020 کو ٹوئٹر پر ایک شخص’نِک ہنٹن‘(Nick Hinton) نے ٹویٹ کی اور بتایا کہ  ڈین کونٹز(Dean Koontz) نامی ناول نگار نے1981ء میں اپنے ناول ’The Eyes Of Darkness‘  میں کورونا وائرس کے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔ ساتھ ہی نک ہنٹن نے ناول کا صفحہ نمبر333 کا سکرین شارٹ بھی لگادیا جس کے مطابق، ناول میں ایک کردار ڈومبے ایک چینی سائنس دان ’لی چن‘ کا ذکر کرتاہے جو بھاگ کر امریکا پہنچ جاتا ہے۔

بظاہر وہ چین کے نظام سے بے زار ہوکر امریکا پہنچتاہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ  اپنے ساتھ ایک انتہائی خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار بھی  لے گیا۔ اس بائیالوجیکل ہتھیار کا نام تھا ’ووہان400‘۔ یہ شہر سے باہر قائم’آر ڈی این اے‘ لیبارٹریوں میں تیار کیاگیاتھا۔ یہ ایک مکمل ہتھیار تھا جو صرف انسان کو بیمار کرتاہے، کوئی دوسری مخلوق اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ آتشک کی بیماری کی طرح  ’ووہان 400‘ انسانی جسم کے باہر ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

’نِک ہنٹن‘ کی اس ٹویٹ کو 36 ہزار لوگوں نے ری ٹویٹ کیا۔ بعض لوگوں نے ایک دوسرا صفحہ بھی دکھایا، جس میں نمونیا جیسی بیماری پھوٹ پڑنے کا سال یعنی  2020ء بھی بتایا گیا۔بہرحال ’ڈین کونٹز‘ کے ناول میں لکھی گئی کچھ باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ مثلاً اب تک کہیں ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ وائرس کسی چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔ اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس خوراک کی ایک منڈی میں پیدا ہوا جہاں غیرقانونی طور پر جنگلی جانوروں کا گوشت بیچا جاتا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے پیدا ہوا اور پھر مختلف جانوروں کے ذریعے ہوتا ہوا  انسانوں کے اندر داخل ہوا۔

اب بات کرتے ہیں ناول میں مذکور وائرس اور حقیقی وائرس کی علامتوں کے بارے میں۔ ووہان 400 اور کووڈ19کے درمیان علامتوں میں کافی فرق پایاجاتا ہے۔ ناول کے مطابق وائرس کی افزائش کا عرصہ صرف چار گھنٹے ہے  جبکہ کووڈ19کی افزائش کا عرصہ ایک دن سے 14دن تک ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق زیادہ تر پانچ دنوں میں اس کی افزائش ہورہی ہے۔

کونٹز لکھتا ہے کہ ووہان400ایک ایسی بیماری ہے جس میں شرح اموات100فیصد ہے۔ یعنی جو بھی اس سے متاثر ہوا، وہ اگلے 24 گھنٹوں کے اندر ختم ہوگیا، زیادہ تر لوگ 12گھنٹوں کے اندر مرتے ہیں۔ کووڈ19کے نتیجے میں شرح اموات بہت کم ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کووڈ19کی شرح اموات صرف 2فیصد ہے۔

ووہان میں 4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7 فیصد۔ کونٹز کے مطابق ووہان400کے نتیجے میں ایک زہریلا مادہ خارج ہوتا ہے جو دماغ کے ٹشوز کو کھاجاتا ہے، یوں جسم کے تمام سسٹم کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، سانس رک جاتی ہے اور پھر اچانک نبض بند ہوجاتی ہے جبکہ کووڈ19میں مختلف علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ بخار ہوجاتا ہے، کھانسی شروع ہوجاتی ہے، تھوڑا سانس آنا، سانس لینے میں بہت تنگی محسوس ہوتی ہے، اس بیماری کی عام حالت میں زکام کی سی کیفیت ہوتی ہے جبکہ شدید حالت میں نمونیے جیسی کیفیت ہوجاتی ہے۔ پھپھڑوں کی بیماری کے بعد گردے فیل جاتے ہیں اور پھر موت واقع ہوجاتی ہے۔

ناول میں ووہان400کو ایبولا سے زیادہ سنگین بیماری قرار دیا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ایبولا میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی شرح50 فیصد تھی۔اسی طرح ماضی کی دیگر وباؤں میں شرح اموات 25سے90 فیصد دیکھی گئی ہے۔ کووڈ19کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی شرح  ووہان میں 2سے  4 فیصد تھی جبکہ ووہان سے باہر0.7فیصد۔

ایک اور دلچسپ بات بھی جان لیں،ڈین کونٹز کا ناول  ’The Eyes Of Darkness‘  جب 1981میں شائع ہوا تو اس کے پہلے ایڈیشن میں  چینی شہر ووہان کے بجائے سوویت یونین کے ایک مقام  ’گورکی‘ کانام لکھا ہوا تھا۔ اس وقت ناول کے اس مقام پر  بیماری کو ’گورکی400‘کانام دیاگیا۔ یعنی اس وقت خطرناک ترین بائیالوجیکل ہتھیار سوویت یونین کے شہر میں پیدا ہوا تھا۔ جب سوویت یونین ختم ہوگیا تو ناول نگار نے  نام تبدیل کردیا۔اس بات کی تصدیق کے لئے گوگل بکس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔ 1981ء میں شائع ہونے والے پہلے ایڈیشن میں آپ ’ووہان400‘ کا نام تلاش کریں گے تو نہیں ملے گا۔

چینی اخبار ’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ کے مطابق1989ء میں ’کورگی 400‘ ختم کرکے ’ووہان400‘ کا نام لکھا گیا۔ یہ وہی سال ہے جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی افواج نکالی تھیں اور اس کے بعد وہ مختلف ریاستوں میں بکھر گیا تھا۔ ایک اور اہم بات، ڈین کونٹز نے1989ء میں یہ ناول اپنے قلمی نام کے بجائے اصل ’لی نکوس‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔کووڈ 19 کے پھیلنے کے بعد جب  اس ناول میں بتائی گئی بیماری کو کووڈ19سے جوڑنے کی مہم چلائی گئی تو ایسے میں بعض اخبارات  اور خبر رساں اداروں نے ناول کے مصنف  اور پبلشر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ بات کرنے سے پرہیز کرتے رہے۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بہت کوششیں کیں لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ بڑے برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے بھی رابطہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن نہ مصنف سے بات ہوسکی نہ ہی پبلشر سے۔یہ تو تھا ناول اور اس کے ایک مخصوص حصے کا تجزیہ، اگر ہم اس ناول میں لکھی گئی باتوں کو اور  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے بیانات کو ایک جگہ پر رکھ کر دیکھیں تو ایک تھیوری یہ بھی بنتی ہے کہ پہلے یہ وائرس سوویت یونین کے مقام ’گورگی‘ سے پھوٹنا تھا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد  وہاں اس کام کی ضرورت ہی نہ رہی، اب جب چین عالمی معیشت، تجارت اور سیاست سمیت تمام شعبوں میں لیڈرشپ والا کردار حاصل کررہا ہے، تو وہی فکشنل (Fictional) بیماری ’ووہان‘ سے پھوٹ پڑی۔ اب پردے ہٹتے جارہے ہیں کہ یہ بیماری خود نہیں پھوٹی بلکہ کسی کے ہاتھ سے پھوٹی ہے۔

آنے والے دنوں میں مزید پردے ہٹیں گے کیونکہ سکرپٹ کے مطابق کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کورونا وائرس کو امریکا پر بدترین حملہ قرار دیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اب وہ اس سے اگلی بات بھی کریں گے، اور اپنا رخ براہ راست چین کی طرف رکھیں گے۔اب ہم ایک دوسری کتاب ’End of Days‘ کا ذکر کرتے ہیں جس میں واضح طور پر یہ بتایاگیاتھا کہ لگ بھگ 2020ء میں نمونیا جیسی ایک بیماری پھوٹے گی اور پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ بات کتاب کے صفحہ نمبر 312 پر لکھی ہوئی ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ ’سیلویا براؤن‘بھی امریکی تھیں۔ 2013ء میں ان کا77سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ان کی40 کتابیں شائع ہوئیں۔

2008ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سیلویا براؤن نے لکھا کہ لگ بھگ سن2020ء میں نمونیا جیسی ایک سنگین بیماری پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی، یہ پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور ڈھانچے پر حملہ کرے گی۔ یہ وبا اچانک آنے کے بعد اچانک ہی دنیا سے چلی جائے گی اور دس سال بعد دوبارہ اسی طرح دنیا پر حملہ کرے گی۔ اس کے بعد وہ خود سے ختم ہوجائے گی اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گی‘۔

سیلویا براؤن کی یہ پہلی پیش گوئی ہے جو کسی حد تک درست ثابت ہوئی۔ ورنہ اس نے اس سے پہلے بہت سی پیش گوئیاں کی تھیں جو تقریباً سب کی سب غلط ثابت ہوئیں۔ وہ ایک ٹی وی پروگرام میں لاپتہ افراد کا پتہ بتایا کرتی تھی۔ اور بیس، تیس منٹ کے سیشن کے ساڑھے سات سو ڈالرز لیا کرتی تھی، یعنی سوا لاکھ روپے پاکستانی روپے۔ سیلویا براؤن کا دعویٰ تھا کہ وہ یہ اتا پتا اپنی مخصوص قوتوں کے بل بوتے پر کرتی ہے، اوراسے یہ قوتیں پانچ سال کی عمر ہی میں حاصل ہوگئی تھیں۔

سن 2002ء  میں موصوفہ نے کسی ماہر عامل کی طرح، پورے یقین سے اغوا ہونے والے ایک گیارہ سالہ بچے ’شان ہورن بیک (Shawn Hornbeck ) کے والدین سے کہا کہ ان کے بیٹے کو ایک گہری رنگت والے ہسپانوی شخص نے اغوا کیا ہے اور اس نے اسے قتل کردیاہے۔ تاہم پانچ سال بعد بچہ زندہ حالت میں والدین کو مل گیا جبکہ اسے اغوا کرنے والا ایک کاکیشین فرد تھا۔

2004ء میں سیلویا براؤن نے اغوا ہونے والی ایک لڑکی امینڈا بیری کی ماں سے کہا کہ اس کی بیٹی زندہ نہیں ہے۔ امینڈا19ماہ قبل اغوا ہوئی تھی۔ سیلویا نے کہا کہ اسے لڑکی کی جیکٹ نظر آرہی ہے جس پر اس کا ڈی این اے لکھا ہواہے۔ امینڈا کی ماں کو یہ خبر سن کر اس قدرصدمہ ہوا کہ وہ بستر کے ساتھ لگ گئی اور دو سال کے اندر ہی اندر مرگئی۔

تاہم 2013ء میں امینڈا زندہ منظرعام پر آگئی۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سیلویا براؤن کس قدر غیرذمہ دار تھی، اس کی ایسی بہت سی باتوں نے بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ وہ محض دولت جمع کرنے کی خاطر جھوٹ بولتی اور لوگوں کو یقین دلاتی تھی کہ اس کے پاس کچھ ایسی قوتیں ہیں جن کی مدد سے وہ گتھیاں سلجھاتی ہے۔ 2003ء میں اس نے مشہور امریکی لیری کنگ ٹی وی شو میں پیش گوئی کی کہ وہ 88 سال تک زندہ رہے گی۔

تاہم وہ 77 سال زندہ رہی۔سیلویا براؤن اپنی کتاب ’End of Days‘ میں دنیا کو خبر دینے کی کوشش کہ یہ دنیا کب ختم ہوگی۔ شاید اسے کہیں سے2020ء میں نمونیا جیسی وبا پھوٹنے کی اطلاع ملی ہو لیکن شاید بتانے والوں نے اسے مکمل خبر نہیں دی تھی کہ یہ وبا ووہان سے پھوٹے گی۔کورونا وائرس پھوٹنے سے پہلے سیلویا براؤن کی کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، امریکیوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیلویا کی پیش گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتی رہیں ، اس کتاب کو خریدا۔ دراصل کورنا  وبا عام ہونے کے بعد کتاب کے ایک پیراگراف میں’’ سن 2020ء  ‘‘ اور ’’نمونیا جیسی بیماری‘‘ کے لفظوں نے اسے شہرت دی اور اس کی ریٹنگ اچھی خاصی کردی۔ سیلویا براؤن کی پیش گوئی کومشہور امریکی اداکارہ، ماڈل ’کم کارڈیشین‘  نے اپنی ٹویٹ میں شامل کیا جس کے بعد لوگوں کی توجہ اس کتاب کی طرف ہوئی۔

تاہم ایک امریکی مصنف اور انویسٹی گیٹر ’بنجمن ریڈفورڈ‘کا کہناہے کہ سیلویا براؤن نے ہزاروں پیش گوئیاں کیں جن میں چند ایک بظاہر ٹھیک بھی نظر آئیں تو یہ کون سی کمال کی بات ہے۔ امریکی ٹیلی ویڑن چینل‘ فوکس نیوز‘ نے سیلویا براؤن کے انتقال پر خبر دیتے ہوئے یہ بھی بتانا ضروری سمجھا کہ وہ اپنی غلط ثابت ہونے والی پیش گوئیوں کی وجہ سے بہت زیادہ متنازعہ رہی اور اسی وجہ سے اس پر شدید تنقید ہوتی رہی۔سیلویا براؤن غریب والدین کی بیٹی تھی، اپنی اس محرومی کا ازالہ کرنے کے لئے اس نے بہت سے حربے اختیار کئے لیکن افسوس کہ زیادہ تر حربے منفی ہی تھے۔ وہ زندگی میں کئی بار فراڈ اور چوری کے الزامات میں پکڑی گئی۔اس نے ڈالرز بٹورنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمائے۔ مثلاً  مارچ 2011ء میں خبر عام کی کہ اسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ ڈونیشنز دی جائیں۔

سیلویا براؤن کی ذاتی زندگی کے بارے میں یہ سب کچھ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ 2020 میں نمونیے جیسی وبا پھوٹنے کی پیش گوئی کے پیچھے کوئی علم اور مہارت نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے بتایاگیاہے کہ ممکن ہے کہ اسے کہیں سے خبر ملی ہو کہ 2020ء کے قریب قریب ایسی وبا پھوٹے گی۔ایک خیال ہے کہ امریکی سی آئی اے دوسری اقوام کے خلاف جو منصوبے بناتی ہے، انہی منصوبوں کی خبر پاکر ناول نگار ناول لکھتے ہیں، مصنفین تجزیاتی کتابیں لکھتے ہیں اور فلم ساز فلمیں بناتے ہیں۔

کہاجاتاہے کہ کورونا وائرس کی پیش گوئی ایک فلم میں بھی کی گئی۔2011ء میں ریلیز ہونے والی فلم’کونٹیجن‘(contagion) میں بہت سے معروف اداکاروں ، اداکاراؤں نے کام کیا لیکن اس کے باوجود یہ فلم مقبول فلموں کی فہرست میں بہت نیچے تھی تاہم کورونا وائرس پھوٹا اور اس کے نتیجے میں جس طرح دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی، اس کے بعد ’کونٹیجن‘ کی کہانی لوگوں کو یاد آئی۔ فلم میں ایک کاروباری خاتون چین جاتی ہے، وہاں ایک شیف سے ہاتھ ملاتی ہے جس کے نتیجے میں ایم ای وی ون نامی ایک وائرس اس میں داخل ہوتاہے۔

شیف کو یہ وائرس ایک ذبح شدہ سور سے لگتا ہے اور سور کو ایک چمگاڈر سے۔چین کے دورے سے وہ واپس گھر پہنچتی ہے تو وہ بیمار پڑجاتی ہے۔ اسے سانس کی شدید تنگی درپیش ہوتی ہے۔ بیماری شدت اختیار کرلیتی ہے اور پھر چند دن بعد وہ ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی اثنا میں اس کا بیٹا بھی اس سے متاثر ہوتاہے ، وہ بھی ہلاک ہوجاتاہے ، شوہر بھی متاثر ہوتاہے لیکن وہ اپنی قوت مدافعت کے مضبوط ہونے کی بنا پر بچ جاتاہے۔بعدازاں پتہ چلتاہے کہ یہ وائرس اس گھرانے سے دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو شکار کرلیتاہے، پھر پوری دنیا میں پھیل جاتاہے۔

ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی اس فلم میں جب  وبا پھیلنے کا شبہ ہوتا ہے تو ایک اصلی ادارے ’ایپی ڈیمک انٹیلی جنس سروس‘ کے عملے کو روانہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ متاثرہ لوگوں کی شناخت اور انھیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کریں۔ نتیجتاً فلم میں امریکی شہر شکاگو کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔ فلم میں دکھایاجاتاہے کہ وائرس کے سبب ایک ماہ کے اندر پوری دنیا میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ فلم میں دنیا کا منظرنامہ ایسا ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کا دل دہل جاتا ہے، ہرطرف افواہوں اور تشویش کا راج ہوتاہے۔

معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ لوگ قرنطینہ میں جاتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ معاشروں میں لوٹ مار کے واقعات رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ائر پورٹ خالی ہوجاتے ہیں۔ فلم میں  جہاں بے شمار متاثرین دکھائی دیتے ہیں، وہاں ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جو اس بیماری کے لئے ویکسین تیار کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی تو اس کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی لوری جیرٹ نے کہا تھا کہ ’’اس کا پلاٹ کچھ افسانوی اور کچھ حقیقی یا پھر ممکن ہے کہ مکمل ہی حقیقت ہو‘‘۔

فلم کے ایم ای وی ون نامی وائرس اور کورونا وائرس کے مابین کئی مشابہتیں ہیں۔ اولاً فلم میں یہ وائرس ایک چمگادڑ سے ایک چینی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانور میں منتقل ہوا اور پھر امریکی خاتون تک پہنچا۔کورونا وائرس کے بارے میں بھی یہی کہاجارہا ہے کہ یہ چمگادڑ سے شروع ہوکر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ’سور‘ کے ذریعے ایک شخص میں منتقل ہوا، وہ اپنے ہاتھ نہیں دھوتا تھا، لوگوں سے ہاتھ ملاتاتھا، یوں بیماری آگے مزید انسانوں میں منتقل ہوئی۔ فلم میں اس بیماری کے پھیلاؤ کا وقت 72 گھنٹے بتایاگیا جبکہ کورونا کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس کی افزائش کا وقت ایک دن سے 14دن تک ہوتاہے۔فلم میں دکھائی جانے والی بیماری اور کورونا وائرس میں فرق یہ ہے کہ فلم میں وباسے29 دنوں میں دنیا بھر میں دو کروڑ 60لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ کورونا وائرس کے نتیجے میں یہ تعداد 29 دنوں میں 210  تھی ۔ فلم کی بیماری اور کورونا وائرس میں مزید کئی تضادات ہیں تاہم پھر بھی اسے حالیہ عالمی وبا کے قریب تر دیکھا جارہاہے۔

سن 2018ء میں دکھائے جانے والے جنوبی کوریا کے ایک ٹی وی ڈرامہMy Secret Terrius جو نیٹفلیکس پر بھی موجود ہے، کی دسویں قسط میں  بھی کافی حد تک درست باتیں کی گئیں۔ ڈرامہ میں ایک ڈاکٹر ایک کردار سے گفتگو کرتے ہوئے بتاتی ہے:’’ کورونا وائرس نظام تنفس پر حملہ آور ہوتاہے، زیادہ خطرے والی بات یہ ہے کہ یہ دو سے 14دن کے اندر نشوونما پاتاہے۔جب یہ وائرس پھٹتا ہے تو اگلے پانچ منٹ کے اندر اندر پھیپھڑوں پر حملہ کرتاہے۔جب اس سے پوچھا جاتاہے کہ کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ اس نے کہا کہ’’ نہیں، اس وقت تک اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘  ڈرامے میں ایک دوسری جگہ پر بچوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ وائرس سے بچاؤ کے لئے اپنے ہاتھ دھوئیں۔

اسی طرح1993ء میںThe Simpsons  نامی ایک کارٹون سیریز میں بھی کورونا وائرس کی خبر دی گئی تھی۔ اس کے چوتھے سیزن۔ اکیسویں قسط میں دکھایاگیا کہ براعظم ایشیا سے ایک پراسرار قسم کا وائرس سپرنگ فیلڈ نامی ایک شہر میں داخل ہوتاہے۔ اس ڈرامہ کے مطابق یہ بیماری جاپان سے پیدا ہوتی ہے، اسے ’اوساکا فلو‘ کا نام دیاجاتاہے۔

یہ جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتاہے۔ اس کے ایک سین میں غصے سے بھرے ہوئے مریضوں کو دکھایاجاتاہے جو علاج کے لئے ایک ہسپتال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر انھیں کہتاہے کہ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ آپ لوگ اپنے اپنے بستر پر لیٹ جاؤ۔سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سمپسن نے واقعتاً ٹھیک پیش گوئی کی تھی۔یہ تو فکشن کی باتیں ہیں، دوسری طرف بہت سے سنجیدہ شخصیات نے بھی کورونا وائرس کے آنے کی نہ صرف خبر دی بلکہ اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کی پیشگی تیاری نہیں کررہی ہے۔

یادرہے کہ تقریباً سب ہی شخصیات امریکا سے تعلق رکھتی ہیں۔ان میں سے ایک مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس بھی ہیں۔ 2015ء میں بل گیٹس نے ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر دنیا میں فلو جیسی کوئی عالمی وبا پھوٹتی ہے تو  ورلڈبنک کے مطابق دنیا تین کھرب ڈالرز کا نقصان اٹھائے گی اور لاکھوں افراد ہلاک ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ دنیا اس بیماری کے لئے تیار نہیں ہے۔2018ء میں میساچوسٹس میڈیکل سوسائٹی کی ایک تقریب میں انھوں نے کہا کہ اگلے عشرے میں دنیا میں مختلف وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 2018ء میں پھوٹنے والی فلو جیسی بیماری جس میں پچاس ملین لوگ ہلاک ہوئے تھے، جیسی وبا پھوٹ سکتی ہے، ممکن ہے کہ چھ ماہ می 30 ملین افراد ہلاک ہوجائیں۔انھوں نے کہاتھا، ہوسکتاہے کہ یہ قدرتی بیماری ہو یا پھر ’ویپنائزڈ ڈیزیز‘ ہو۔ حیاتیاتی جنگوں کے لئے جس تیاری کی ضرورت ہے، وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

دنیا کو ان وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی طرح سنجیدگی سے تیاری کرنا ہوگی جیسے جنگ کے لئے کی جاتی ہے۔متعدی امراض کے ماہر مائیکل آسٹرہوم نے2017ء میں”Deadliest Enemy: Our War Against Killer Germs.” کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں انھوں نے لکھا کہ امریکا نے وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب تیاری نہیں کی۔ اس سے پہلے 2005ء میں انھوں نے کہاتھا کہ تاریخ کا سنگین مرحلہ شروع ہوچکا ہے، آنے والی وبا کے لئے تیاری کا وقت نکلا جارہاہے، اب ہمیں فیصلہ کن اور بامقصد کام کرنے ہوں گے۔

وائرلوجسٹ اور فلو ایکسپرٹ رابرٹ جی ویبسٹر نے بھی اپنی ایک کتاب”Flu Hunter: Unlocking the secrets of a virus,” میں پیش گوئی کی تھی، انھوں نے اس سوال کا جواب’ہاں‘ میں دیاتھا کہ کیا دنیا کو تہہ وبالا کرنے والی وبا آسکتی ہے؟ اور کہاتھا کہ امکان کی بات ہی نہیں ہے، بس! صرف اس وقت کا انتظار کرو۔انھوں نے لکھا تھا کہ فلو جیسی وبا آئے گی، جسے قابو کرنے تک لاکھوں افراد ہلاک ہوجائیں گے۔

2018ء میں ایک امریکی انٹیلی جنس ٹیم نے بھی ایک جراثیم سے خبردار کیاتھا جو آسانی سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے اور اسے ایک بہت بڑا خطرہ قراردیاتھا۔جنوری2019کے آخری دنوں میں ایک بار پھر انٹیلی جنس ٹیم نے کہاتھا کہ فلو کی وبا پھوٹنے والی ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جائیں گے ، عدم استحکام پیدا ہوگا ، عالمی معیشت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، عالمی وسائل میں سخت کمی واقع ہوجائے گی ، امریکا سے بڑے پیمانے پر امداد کی اپیلیں کی جائیں گی۔

سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں یو ایس ایڈ کے’آفس آف یو ایس فارن ڈیزاسٹر اسیسٹنس‘   کے ڈائریکٹر جرمنی کونینڈیک نے2017ء میں ایک مضمون لکھا جس میں پیش گوئی کی تھی کہ 1918ء کے سپینش فلو( جس میں ایک تہائی دنیا متاثرہوئی تھی، 50سے 100ملین افراد ہلاک ہوئے تھے) جیسی وبا پھوٹنے والی ہے۔ یہ صحت کا عالمی بحران ہوگا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آئے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب آئے گا۔انھوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس وبا کے لئے کوئی تیاری نہیں کی۔

وائٹ ہاؤس نیشنل سیکورٹی کونسل کی سابق رکن ڈاکٹرلوسیانا بوریو نے2018ء  میں فلو کی وبا سے خبردار کیاتھا اور اسے سب سے بڑا خطرہ قراردیاتھا۔انھوں نے کہاتھا: ’’کیا ہم نے اس کی تیاری کی ہے؟ مجھے خدشہ ہے کہ اس کا جواب ہوگا:’’ نہیں۔‘‘

2006ء میں فلوپینڈیمک پریپیرڈنس پلان میں ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ چالیس لاکھ بیمار ہوسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ دس لاکھ لوگوں کا ہسپتالوں سے باہر علاج کرنا ہوگا، 80ہزار مریضوں کا ہسپتالوں میں علاج ہوگا، 20ہزار ہلاک ہوسکتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کورونا وائرس کی پیش گوئیاں کرنے والے قریباً تمام افراد ہی امریکی ہیں۔ دنیا میں کسی دوسری قوم کے افراد کو یہ وبا آتے ہوئے محسوس نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ان امریکیوں کو کیسے خبر ہوئی کہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی ایک وبا آئے گی جو ’فلو ‘ ہوگی اور 1918ء میں آنے والی وبا جیسی ہوگی؟ یہ تمام شخصیات اس سوال کا جواب دینے سے انکاری ہیں۔فلم ’’کونٹیجئین‘‘ کے مصنف سکاٹ زیڈ برنز سے جب پوچھاگیا کہ کورونا وائرس اور آپ کی فلم میں دکھائی جانے والی بیماری کے درمیان مماثلت کیسے ہوگئی؟ انھوں نے کہ بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا کہ  یہ بات اس قدر اہم نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جیسا کہ بل گیٹس نے ایک اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ آنے والی وبا ویپنائزڈبیماری ہو۔

وہ شاید براہ راست ’بائیولوجیکل وارفیر‘ کا لفظ استعمال نہیں کرناچاہ رہے تھے۔اگرایسا ہے ، جیسا کہ اشارے مل رہے ہیں اور ایک بڑی طاقت کی طرف سے اپنے مخالف دو ممالک کے خلاف یہ بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کیے جانے کا تاثر مضبوط ہورہاہے۔چین کی طرف سے باقاعدہ امریکا کی طرف واضح اشارہ دیاجاچکاہے۔چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان  لی جیان ژاؤ نے کہا تھا کہ ’ بہت حد تک ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکی فوجی چینی شہر ووہان میں لائے ہوں۔‘ انھوں نے صاف انکار کیا کہ  یہ وائرس ووہان میں پیدا نہیں ہوا۔اسی طرح چین کے انفیکشن ڈیزیزز کے معروف ماہر زونگ نانشان کا کہناہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کا پہلا شکار چینی باشندہ ہوا ہے لیکن  اس وائرس  نے چین میں جنم نہیں لیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار’ گلوبل ٹائمز‘ نے لکھاتھا کہ کورونا وائرس امریکا میں پہلے سے موجود تھا، 2019ء میں 37 ہزار افراد اس سے متاثر ہوکر ہلاک ہوئے  لیکن امریکی ماہرین ان کے مرض کی درست تشخیص کرنے میں ناکام رہے تھے۔دوسری طرف چین سمیت دنیا کے بعض حصوں میں بعض  لوگ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس امریکا کا چین پر بائیالوجیکل حملہ ہے۔

یہ منصوبہ برسوں پہلے تیار ہوا اور طے کیا گیا کہ یہ وائرس ’ووہان‘ میں لے جا کر کھولنا ہے۔ امریکی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے۔چین میں یہ  کہانی عام ہوچکی ہے کہ اکتوبر 2019ء میں ووہان میں ساتویں ملٹری ورلڈ گیمز ہوئیں، امریکا سے300 فوجی کھلاڑی آئے۔ وہی یہ وائرس لے کر آئے تھے۔ یہ کہانی بھی عام ہورہی ہے کہ چین میں امریکی سفارت خانے سے وائرس کی ٹیوبیں پکڑی گئی تھیں۔اور امریکا میں جو وائرس پھیلا، وہ ’جوابی وار‘ کا نتیجہ ہے جبکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ بائیالوجیکل جنگ پہلے سے جاری تھی، بس! دسمبر2019 میں  دنیا پر آشکار ہوئی۔

کورونا وائرس بائیالوجیکل جنگ ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے قطعی فیصلہ کہیں سے نہیں آئے گا۔ بدقسمتی سے دنیا میں کوئی ایسا ادارہ بھی نہیں جو اس کافیصلہ کرسکے۔ ہر عالمی ادارہ کمزور ہے اور  بعض عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہے۔ ایسے میں سازشی تھیوریز دنیا پر غلبہ قائم کیے رکھیں گی۔ ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ جنگیں  نوٹیفکیشن جاری کرکے شروع نہیں ہوتیں۔

اگر کورونا وائرس کوئی بائیالوجیکل ہتھیار ہے تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ اب مختلف ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کی افواج کی بجائے عوام کو نشانہ بنا رہی ہیں۔تاریخ انسانی کے اس مرحلے پر اقوام کو اپنے بچاؤ کی خاطر اٹھ کھڑے ہوناچاہئے ، وہ دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کرنے پر زور دیں جہاں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار استعمال نہ کئے جائیں۔

جو ملک بھی ایسا کرے ، باقی پوری دنیا مل کر اس کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ تجویز معصومانہ لگے لیکن ایسا کرنا ہی پڑے گا، صرف اسی صورت میں پوری دنیا کے انسان زندہ رہ سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ عقل مندی ہے، اقوام ایک دوسرے کو ختم کرکے اس دنیا کو خالی کردیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔