کورونا نے سیاحت کو بھی وینٹیلیٹر پر ڈال دیا

نوید جان  اتوار 24 مئ 2020
سیاحت کے فروغ کے لیے جاری اقدامات بری طرح متاثر ۔  فوٹو : فائل

سیاحت کے فروغ کے لیے جاری اقدامات بری طرح متاثر ۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی نے دیگر شعبہ ہائے زندگی سمیت سیاحت کو بھی کافی متاثر کیے رکھا جس کے باعث اس شعبے سے وابستہ افراد فاقوں پر مجبور ہوگئے، یوں دکھائی دے رہا تھا کہ یہ شعبہ پھر کبھی اپنے پاؤں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھ پائے گا۔

وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ دہشت گردوں نے سیاحت کے مرکز سوات سمیت دیگر جنت نظیر علاقوں کو بھی زیرتسلط رکھا جہاں چوکوں میں سرعام لوگوں کے گلے کاٹے اور انہیں تختہ دار پر لٹکایا جاتا رہا، لیکن ایک طویل، کٹھن اور صبرآزما دور کے بعد سیکیوریٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت جب دہشت گردوں کی قوت کا قلع قمع ہوگیا اور امن کے شادیانے بجنے لگے، تو لوگوں میں پھر سے جینے کی امنگ نے انگڑائی لی، خوف کے سائے تلے کئی ماہ وسال بتانے کے بعد لوگ ایک نئی صبح کی امید پر آگے بڑھنے لگے، پھر سے اجڑے دیارآباد ہونے لگے، کھیت کھلیان ہرے بھرے ہونے لگے اور لہلہاتی فصلیں ایک نئے اور بہتر مستقبل کی نوید سنانے لگیں۔

سڑکوں اور شاہراہوں پر پھر سے گاڑیوں کا سیلاب امڈنے لگا، تو ایک عالمی وبا کورونا وائرس نے ہر چیز کو بریک لگا، دنیا بھر میں لاکھوں اموات وقوع پذیر ہونے لگیں، زندگی کا پہیا جام ہونے لگا۔ پوری دنیا سمیت اس زہرقاتل نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑے، متاثرین کی تعداد آئے دن بڑھنے کے ساتھ ہر شعبہ زندگی شدید طور پر متاثر ہونے لگا، یہاں تک کہ نوبت فاقوں تک آن پہنچی، ان شدید ترین متاثرہ شعبہ جات میں سیاحت کا شعبہ بھی شامل ہے جس نے ابھی ابھی گھٹنوں کے بل چلنا سیکھا تھا۔

کیوں کہ حکومت نے بھی اس شعبہ کو خاص اہمیت دینا چاہی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں اگر کسی شعبے میں کچھ تھوڑا بہت کام ہوا تو یہی شعبہ ہے، اس وقت اس کی باگ سابق وزیرسیاحت عاطف خان کے ہاتھ میں دی گئی جنہوں نے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں صوبے کی سیاحت پر بطورخاص مرکوز رکھی جس سے یہ شعبہ توانا ہوتا گیا۔

گذشتہ برس ریکارڈ تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاحوں نے پاکستان اور بطورخاص خیبرپختون خوا کے حسین اور قدرتی نظاروں سے خوب لطف اٹھایا کیوں کہ خیبرپختون خوا قدرت کے حسین نظاروں سے مالامال ہے جہاں بلندوبالا سرسبزپہاڑ، آبشاراورقدرتی جھیلیں سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں، ان سیاحتی مقامات میں بابوسرٹاپ، ناران، کاغان، مالم جبہ، کالام، شوگران، چترال اورگلیات ایسے علاقے ہیں جہاں نہ صرف ملکی بلکہ غیرملکی سیاح بھی کھچے چلے آتے ہیں، قدرتی مناظر سے مالامال ان علاقوں تک سیاحوں کی رسائی اگرچہ قدرے مشکل رہتی ہے۔

اس کے باوجود ہر سال سیاحوں کا ان علاقوں آنا جانا لگا رہتا ہے اور سیاح کئی گھنٹوں کا راستہ طے کرنے کے بعد ان علاقوں تک پہنچ ہی جاتے ہیں، دوردراز علاقے ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو سہولیات کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے لیکن قدرتی نظارے دیکھنے کے لیے سیاح ان مشکلات کی پروا نہیں کرتے۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ سیاحت کے فروغ اور ان علاقوں میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت نے خصوصی توجہ دیناشروع کردی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات پر اس جانب خصوصی توجہ دی جانے لگی ہے۔

اس لیے خیبرپختون خوا کے محکمہ سیاحت کی جانب سے سیاحت کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا گیا ہے، حکومت کی جانب سے خیبرپختون خوا کے دوردراز سیاحتی مقامات جن تک سیاحوں کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور وہ سیاحوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں وہاں تک رسائی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لیے مالی سال کے بجٹ میں اضافہ کرنے سمیت سالانہ اولیت دی گئی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے لیے بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں، ساتھ ہی خیبرپختون خوا حکومت نے پہلی بار سیاحوں کے لیے ٹورازم پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا، اس حوالے سے ابتدائی طور پر تقریباً 690 ٹورازم پولیس اہل کار سوات، کاغان، ناران اور گلیات میں تعینات کیے گئے۔

وزیراعلٰی کی خصوصی ہدایت پر سوات کے علاقوں لنڈاکے، شموزئی، شانگلہ ٹاپ ، بحرین، مدین، کالام سمیت دیگر علاقوں میں اسکواڈ تعینات کیا گیا۔ ان پولیس اہل کاروں کی تربیت کے لیے تھائی لینڈ کی حکومت سے رابطہ کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ اناکڑ، گبین جبہ الائی، گنول سمیت تمام سیاحتی مقامات پر کیمپنگ پاڈز فعال بنائے گئے، صوابی کے علاقے ہنڈ کے مقام پر واٹر پارک بنانے پر بھی غورکیا جا رہا ہے، شوگران بازار کی خوب صورتی کے لیے پلان ترتیب دینے سمیت پاڑہ چنار، تیراہ اور سمانا میں سیاحتی مقامات پر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

انہیں اقدامات کی بدولت گذشتہ عیدالفطر کی تعطیلات میں 20 لاکھ سیاحوں نے سیاحتی مقامات کا رخ کیا جس میں سوات بازی لے گیا جہاں دس لاکھ سیاح چار روز میں داخل ہوئے ، محکمہ سیاحت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 20 لاکھ سے زائد سیاحوں نے سیاحتی مقامات کی سیر کی، ملاکنڈ ڈویژن میں 2 لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں۔

ان سیاحوں نے سوات، بونیر، دیر بالا، لوئردیر، چترال اور شانگلہ بھی دیکھا، سوات میں 10 لاکھ سیاح دلکش نظاروں سے محظوظ ہوئے، دیر چترال اور بونیر میں 41 ہزار گاڑیوں کے ذریعے تقریباً 2 لاکھ سیاحوں نے پر فضاء مقامات کے نظارے دیکھے، 63 ہزار گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کے ذریعے4 لاکھ سیاح گلیات میں داخل ہوئے، 23ہزار859 گاڑیاں کاغان میں داخل ہوئیں، 2 لاکھ سیاحوں نے ناران کا رخ کیا۔

لیکن جیسا کے اوپر ذکرکیا جاچکا ہے کہ اس مرتبہ سیاحتی سیزن شروع ہونے کے ساتھ ہی تمام سرگرمیوں کو کورونا نے بریک لگادی جس کے باعث رواں سیزن میں سیاحت کے شعبے اور اس سے وابستہ لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، خیبر پختون خوا میں کورونا سے سیاحتی رونقیں ماند پڑنے لگیں جب کہ سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد شدید مشکلات سے دوچار ہوگئے، صرف ضلع سوات میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد رمضان المبارک گزارنے کے لیے کرائے کے مکانات میں رہائش اختیار کرتے تھے اور چاند رات کو یہ تمام سیاح اپنے علاقوں کو واپس لوٹ جاتے تھے۔

پھر عید کے دوسرے یا تیسرے روز سوات کے مختلف علاقوں میں دوبارہ یہ سیاح امڈ آتے جس کے باعث شاہراہوں ، ہوٹلوں اور بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی، پچھلی عید پر ریکارڈ تعداد میں سیاحوں نے ان علاقوں کی سیر کی جس کے باعث پھر سے یہ امید ہو چلی کہ سیاحت اپنی آب وتاب کے ساتھ مزید چمکے گی جس سے یہاں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور لوگوں کی زندگی خوش حال ہوجائے گی۔ تاہم کورونا وائرس کے باعث اب ضلع سوات سمیت گلیات میں بھی سیاحتی مقامات ویران اور ہوٹلز خالی پڑے ہیں۔ سوات کا سیاحتی مقام مالم جبہ جہاں پہلے صرف گرمیوں میں سیاح آتے تھے اب وہاں سال کے بارہ ماہ سیاحت عروج پر رہتی ہے۔ یہ عالمی شہرت یافتہ علاقہ بھی ویران اور سنسان پڑا ہے، یہاں کے ہوٹلوں میں ہوکا عالم ہے، جب کہ مقامی لوگ سیاحوں کی راہ تھکتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے مالم جبہ کے ایک مقامی رہائشی گل حمید نے بتایا کہ کوروناوائرس کی وجہ سے معمولات زندگی جام ہوکر رہ گئی ہیں، ہمارے لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحوں سے وابستہ ہے جب سیاح آتے ہیں تو ہمارے گھروں میں چولہے جلتے ہیں دوسری صورت میں تلاش معاش کے سلسلے میں دیگر علاقوں کا رخ کرتے لیکن اس کورونا نے تو سب کچھ جام کردیا، اب ہمیں اپنی جان کے لالے پڑے ہیں، بچے بھوک سے بلبلارہے ہیں، جب کے سیاحت کی صنعت سے وابستہ لوگ گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب سوات میں ہوٹل ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کلیم خان، اقبال گل اور ریاض خان نے بتایا کہ یہاں پر قائم ہوٹلز کے نرخ مری اور ملک کے دیگر سیاحتی مقامات سے پچاس فی صد کم ہیں۔ اس لیے زیادہ تر سیاح یہاں آنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے باعث یہاں معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی ہیں لیکن کورونا وبا نے سوات کی مسکراہٹ ایک بار پھر چھین لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ پر بندش کے باعث سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں، ضلع میں اشیاء خوردونوش کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، جب کہ حکومتی سطح پر یہاں کے عوام کو ابھی تک کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا اور نہ احساس پروگرام کے تحت مستحق افراد کو رقم ملی ہے جس سے ان میں بے چینی پیدا ہونا فطری امر ہے، اس لیے ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی برتی جائے تاکہ یہاں کے لوگ مزید فاقہ کشی کا شکار نہ ہو، ساتھ ہی ہوٹلزانڈسٹری کو خصوصی پیکیج دیا جائے یا ٹیکسز میں مکمل طور پر چھوٹ دی جائے۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کے مطابق کوروناوائرس کے باعث سیاحتی مقامات پر جاری تمام منصوبے تعطل کا شکار ہوچکے ہیں، حکومت نے ان منصوبوں پر کام روک دیا ہے جب کہ ان سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے جانے پر پابندی عائد کردی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس ضمن میں اس شعبے کو تقربیاً دو ارب روپے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اسی طرح مقامی آبادی بھی خاصی متاثر ہورہی ہے، کیوں کہ ان کا انحصار سیاحت پر ہے۔

ٹورازم ایکٹ کے سیاحت پر مثبت اثرات

قدرتی حسن سے مالامال یہ علاقے ماضی کی حکومتوں کی آنکھ سے اوجھل رہے، سڑکوں کی تعمیر، رہائش اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے لیکن انتخابات میں تحریک انصاف کی کام یابی کے بعد موجودہ خیبرپختون خوا حکومت نے سیاحت پر خصوصی توجہ دینا شروع کردی۔

وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں، سیاحت کا محکمہ جب عاطف خان کو دیا گیا تو انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات شروع کیے۔ گذشتہ مالی سال کے بجٹ میں سیاحت کے حوالے سے خطیر رقم مختص کی گئی جب کہ دوسری طرف حکومت غیرسرکاری تنظیموں سے مل کر بھی سیاحتی ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت بیرون ملک خیبرپختون خوا کے سیاحتی مقامات کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صوبے کو سیاحت کے حوالے سے کافی نقصان پہنچا جس کے باعث غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن حالات کے بہتر ہونے کے بعد غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا، غیرملکی سیاح نہ صرف پشاور سمیت میدانی علاقوں کی سیر کرنے لگے بلکہ پہاڑی علاقوں تک رسائی کا سلسلہ بھی تیزہوگیا، غیرملکی سیاح چترال میں چلم جوشٹ، کمراٹ فیسٹول اور شندور پولو فیسٹول میں شریک ہوتے رہے، اس سلسلے میں حکومت غیرملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

گندھارا تہذیب کے حوالے سے بھی خیبرپختون خوا کی ایک طویل تاریخ ہے، بدھ مت کے اثرات کے باعث مذہبی سیاحت کو بھی فروغ مل رہا ہے، پشاور، سوات اور تخت بھائی میں موجود بدھ مت کے مقامات دیکھنے کے لیے مختلف ممالک کے سیاح ان مقامات پرآنا شروع ہوگئے، حکومت نے سیاحت کے فروغ ، سیاحتی مقامات پر سہولیات کی فراہمی اور سیاحتی مقامات کے تحفظ کے لیے سیاحتی پالیسی بنائی جس کی منظوری خیبرپختون خوا اسمبلی نے دی، اس سلسلے میں ٹورازم ایکٹ 2019 کی ایوان نے منظوری دی۔

خیبرپختون خوا ٹورازم ایکٹ 2019 کے مطابق سیاحت کے فروغ کے لیے وزیراعلی کی نگرانی میں بورڈ تشکیل دیا جائے گا، بورڈ میں وزیر سیاحت، وزیرخزانہ، وزیر ماحولیات، چیف سیکرٹری، سیکرٹری سیاحت، سیکرٹری ماحولیات، پرائیویٹ سیکٹر سے تین ارکان اور ڈی جی ٹورازم اتھارٹی شامل ہوں گے، بورڈ صوبے میں پانچ سال کے لیے صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے حکمت عملی مرتب کرے گا، ایکٹ کے تحت ٹورازم اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا، وزیر سیاحت اتھارٹی کے چیئرمین ہوں گے، مذکورہ ایکٹ کے تحت سیاحتی زونزکا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

حکومت نے سیاحت سے وابستہ شعبوں کو فروغ دینے کے لیے سیاحتی زونز کے قیام کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا، سیاحتی مقامات پر ٹریفک اور پولیس سے جڑے مسائل کے حل کے لیے ٹورازم پولیس بھی قائم کی جارہی ہے۔

اس ایکٹ کے ذریعے ٹورازم پولیس کا کردار بھی وضع کیا گیا ہے، ایکٹ کے مطابق ڈیپوٹیشن پر آنے والے پولیس اہل کاروں کی تقرری تین سال اور دوبارہ دو سال کے لیے ہوسکے گی اور کسی بھی سیاحتی مقام پر مدد کے لیے یہ مقامی پولیس کو طلب کرسکے گی، ٹورازم فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایاجائے گا، اتھارٹی نجی شعبہ کے تعاون سے معاملات کو چلانے کی مجاز ہوگی، اتھارٹی ٹورازم لائسنسوں کے اجراء ومنسوخ کرنے کی ذمہ دار ہوگی جب کہ سیاحوں سے سیاحتی ٹیکس وصولی کی بھی مجاز ہوگی۔

اسی طرح سیاحتی مقامات پر خلاف ورزیوں پر سیاحوں کو10 ہزار روپے تک جرمانہ جب کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کا کیس عدالت بھجوایا جائے گا، اتھارٹی کے سیکرٹری کے فیصلوں کے خلاف محکمہ سیاحت کے سیکرٹری کی سربراہی میں کام کرنے والے ایپلٹ ٹریبول کو پندرہ دنوں میں اپیل کی جاسکے گی ، ایکٹ کے تحت ٹورازم ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو سرپلس پول میں ڈالا جائے گا جب کہ ان ملازمین کی قسمت کا فیصلہ کارکردگی کی بنیاد پرکیا جائے گا ان ملازمین کو ٹورازم اتھارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ اسکروٹنی کمیٹی کرے گی۔

اسی طرح خیبرپختون خوا حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحتی مقامات پر ایکو ٹورازم ویلج قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، پہلے مرحلے میں چترال کی تین وادیوں اور ہزارہ ڈویژن میں ٹورازم ویلج قائم کیے جائیں گے، جس کے ذریعے سیاحتی مقامات پر آنے والے سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی میں مدد ملے گی، اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایکوٹورازم تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے دوررس نتائج سامنے آرہے ہیں، اس لیے خیبرپختون خوا میں بھی ایکو ٹورازم ویلیج متعارف کئے جائیں گے۔

اس مقصد کے لیے مقامی افراد کو سرمایہ فراہم کرنے کے علاوہ باقاعدہ تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ ایکوٹورازم سے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سیاحتی مقام کمراٹ کو بھی جدید سہولیات سے آراستہ کرنے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کمراٹ اور جازبانڈہ قدرتی حسن سے مالامال وادیاں ہیں جہاں وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورے کے دوران ان وادیوں پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی تھی کیوں کہ وزیراعظم ان علاقوں میں بنیادی انفرااسٹرکچر سمیت تمام سہولیات اور ترقی دینے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں، کالام سے کمراٹ اور جازبانڈہ تک 114 کلومیٹر کوریڈور بنایا جائے گا جس کے لیے ماسٹر پلان تیار کیا جارہا ہے۔ مذکورہ اقدامات سے پاکستان خصوصاً خیبرپختون خوا میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کا ایک سافٹ امیج ابھرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔