شبِ خیر و برکات اور نزولِ قرآن

’’جس شخص نے لیلۃالقدر میں ایمان اور ثواب کی نیّت سے عبادت کی تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (بخاری) ۔ فوٹو : فائل

’’جس شخص نے لیلۃالقدر میں ایمان اور ثواب کی نیّت سے عبادت کی تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (بخاری) ۔ فوٹو : فائل

اپنی کتاب قرآن حکیم ، فرقان حمید میں اﷲ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے: ’’حم! اس کتاب روشن کی قسم کہ ہم نے اس کو ( قرآن مجید) مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو رستہ دکھانے والے ہیں۔ اسی رات میں تمام حکمت کے کام فیصل کیے جاتے ہیں (یعنی) ہمارے ہاں سے حکم ہوکر۔ بے شک ہم ہی (پیغمبر) بھیجتے ہیں۔ (یہ) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے۔ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الدخان)

لیلۃالقدر جسے عرف عام میں شب قدر کہا جاتا ہے۔ اس رات کو اسلامی عبادات میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان المبارک اور قرآن مجید کا گہرا تعلق ہے اور یہ عظمتوں والی رات اسی ماہ مقدس کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا انسانیت کی فوز و فلاح‘ دنیا و آخرت کی کام یابی اور آخری پیغمبر محمّد ﷺ کے ذریعے آخری پیغام ہدایت عطا کیا گیا۔ گویا اس ماہ مبارک میں جمیع خصائل سمو دیے گئے۔ جس شب یہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا۔

اسے لیلۃالقدر کہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر یوں تو ساڑھے تیئیس برس میں موقع با موقع قرآن کریم نازل ہوتا رہا، یہاں تک کہ تکمیل قرآن ہوا۔ البتہ لوح محفوظ سے مکمل قرآن ایک رات میں ہی آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، جہاں سے جبریل امینؑ بہ حکم ربی اسے صاحبِ قرآن محمّد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچاتے رہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک یہ رات نزول قرآن کی وجہ سے انتہائی مبارک قرار پائی اور خود کتاب مقدس میں اس کی عظمت و فضیلت کا اظہار فرما دیا۔

مندرجہ بالا آیات کریمہ میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ واضح طور پر بتایا کہ جس شب اسے نازل کیا گیا بہ ظاہر تو وہ بھی ایک رات ہی ہے تاہم نزول قرآن کی برکت نے اس رات کو تمام راتوں پر فضیلت عطا کر دی اور ہم نے اس رات کو انتہائی مبارک بنا دیا ہے۔ اس رات ہمارے تمام امور حکمت کے ساتھ فیصلہ کیے جاتے ہیں یعنی موت و حیات سے لے کر گردش لیل و نہار میں وقوع پذیر ہونے والے تمام تر حوادث و واقعات کے احکامات متعلقہ فرشتوں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔

حدیث مبارکہ ہے کہ شب قدر کو اﷲ تعالیٰ مغرب سے ہی آسمان دنیا پر اجلال فرماتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے۔ ہے کوئی مجھ سے مغفرت کا طلب گار کہ میں اس کے گناہوں کو معاف فرماؤں۔ ہے کوئی بیماریوں سے شفا و تن درستی کا طلب گار کہ میں اسے شفا عطا فرماؤں۔ ہے کوئی روزی کا طلب گار کہ میں اس کی روزی میں برکت عطا فرماؤں۔ تمام شب یہ اعلان ہوتا رہتا ہے۔

شب قدر کو نزول قرآن کی برکت سے اس قدر فضیلت و بزرگی حاصل ہوگئی کہ خود قرآن مجید اس پر دلالت اس انداز میں کرتا ہے۔

’’ ہم نے (اس قرآن مجید) کو انتہائی قدر و منزلت والی رات میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر (عبادت و فضیلت کے لحاظ سے) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں روح (الامین جبریل ؑ) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام) کے لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوع فجر تک (امان اور) سلامتی ہے۔‘‘

ان آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شب کس قدر اہمیت و فضیلت والی ہے۔ ایک رات کی عبادت اہل ایمان کے لیے تراسی برس کی عبادتوں سے بھی افضل و برتر ہے۔ یہ تو صرف کم از کم حد بیان ہوئی ہے۔ ہزار مہینوں سے کس قدر افضل ہے وہ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کی عبادت و ریاضت کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس نے اسّی برس سے زیادہ عمر کا حصہ اﷲ تعالیٰ کی بے ریا عبادت میں گزار دیا۔ جس پر صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سخت ملال ہوا کہ ہماری تو اتنی عمریں بھی نہیں اور عمر کا بیشتر حصہ کفر و شرک میں گزار دیا‘ ہمیں تو وہ اعزاز و اکرام حاصل ہی نہیں ہوسکتا جو پچھلی امتوں کے صلحاء کو حاصل ہوا۔

اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اس اضطراب اور جنت کی طلب و جستجو کو دیکھتے ہوئے قیامت تک کے آنے والے امت محمّدیہ ﷺ کے لیے یہ منفرد اعزاز عطا فرما دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے نزول قرآن کی برکت سے اس ایک رات کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دے دیا کہ مومن آزردہ خاطر نہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے اس رات کی عبادت کا اجر و ثواب بڑھا چڑھا کر عطا فرما دیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن کی زندگی میں یہ عظیم رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ رب تعالیٰ کی رحمتوں کا کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا۔

رحمت عالمﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس شخص نے لیلۃالقدر میں ایمان اور ثواب کی نیّت سے عبادت کی تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘ (بخاری)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں خوب عبادت فرماتے۔ لیلۃالقدر میں شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی جگاتے۔ (مشکوٰۃ)

اب اس بات کا تعین کرنا کہ کون سی رات ہی لیلۃالقدر ہے۔ بعض محققین کے نزدیک ستائیسویں شب ہی لیلۃالقدر ہے۔ جب کہ ایک روایت میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو۔ گویا پورا عشرہ ہی خوب ریاضت و جدوجہد والا ہے۔ جب کہ ہمارا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔

آخری عشرے میں بازاروں کی رونقیں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور ہم خواب غفلت کا شکار ہوکر انہیں عظیم گھڑیوں کو ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ کون جانے آئندہ برس ہمیں یہ سعادت نصیب بھی ہوتی ہے کہ نہیں ‘ لہٰذا انتہائی ذوق و شوق اور خشیت الٰہی کے ساتھ ان راتوں کی عبادتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تاکہ ہم اپنے رب سے جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کر سکیں جب کہ ہمارا ازلی دشمن شیطان ہمیں دیگر امور میں الجھا کر برباد کرنا چاہتا ہے۔

ام المومنین سیدہ عائشہؓ نے امام کائناتؐ سے دریافت کیا یارسول اﷲ ﷺ! اگر میں ا س رات کو پالوں تو اﷲ سے کیا دعا کروں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ اﷲ سے یہ دعا کرو:

اَللّٰھُمَّ اِنَّک عَفُوُّ تُحِبُّ العَفوُ فَاعفُ عَنِیّ۔ ’’اے اﷲ! آپ معاف کرتے ہیں، معافی کو محبوب رکھتے ہیں، پس مجھے معاف کر دیجیے۔

قارئین کرام! کس قدر جامع دعا ہے جو رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی۔ ہمیں بھی اس عظیم رات کی فضیلتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ کثرت سے مذکورہ دعا پڑھیے۔ اپنے رب کے حضور رات کی تنہائی میں اشک ندامت بہا کر مغفرت و بخشش کے پروانے حاصل کیجیے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اس شب عظیم کی معرفت اور برکتیں عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔