فقیر کا تعویذ

ببرک کارمل جمالی  جمعـء 22 مئ 2020
فقیر کے تعویذ کی وجہ سے پورا بلوچستان ترقی کا سفر طے کر رہا تھا۔ (فوٹو: فائل)

فقیر کے تعویذ کی وجہ سے پورا بلوچستان ترقی کا سفر طے کر رہا تھا۔ (فوٹو: فائل)

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آخر بلوچستان میں یہ سب کیسے ممکن ہوگیا۔ آخر بلوچستان کو فقیر کے ایک تعویذ نے راتوں رات دبئی کے مدمقابل لاکھڑا کیا۔ پاکستان کے تمام صوبے سندھ، کے پی کے، پنجاب اور شمالی علاقہ جات فقیر کے تعویذ سے کیسے محروم رہ گئے؟ آخر اتنا کراماتی فقیر بلوچستان حکومت کے ہاتھ کیسے لگ گیا جس نے بلوچستان کی قسمت کو راتوں رات بدل دیا اور چار چاند کے بجائے چودہویں کے چاندوں سے سجادیا۔

پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ اپنی جگہ، مگر دنیا کے گورے چٹے لوگوں نے بھی بلوچستان کا رخ کرلیا تھا۔ کئی ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بلوچستان کا ویزا لینے کےلیے ترس رہے تھے اور بلوچستان میں شفٹ ہونے کےلیے بےقرار تھے۔ آخر بلوچستان حکومت کی قسمت کیسے ایک فقیر کے تعویذ سے بدلنے لگی تھی، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

بلوچستان سے نکلنے والی گیس کی مد میں آنے والی ساری رقم بلوچستان کی سڑکوں اور تعلیم پر خرچ ہونے لگی تو بلوچستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تین ماہ میں مکمل ہوگئی تھیں۔ بلوچستان حکومت نے سڑکوں کا ایسا جال بچھایا کہ ایک بھی سڑک پر حادثہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب فقیر کے ایک تعویذ کی بدولت ممکن ہوا جس نے بلوچستان کو تنزلی سے ترقی کی راہ پر گامزن کردیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے فقیر سے ایک تعویذ ریکوڈک اور سینڈک منصوبے کے حوالے سے لیا تو ریکوڈک اور سینڈک کے منصوبوں نے اتنی ترقی کی کہ بلوچستان کی جیب میں ڈالر کے حساب سے رقم ملنی شروع ہوگئی تھی۔ پھر بلوچستان کے ہر ضلع میں اسی رقم سے یونیورسٹیاں قائم ہونے لگی تھیں۔

حکومت بلوچستان نے تعلیمی اداروں میں بہتری کےلیے ایک تعویذ فقیر سے لیا تو بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں نے اتنی ترقی کی کہ دنیا بھر کے طالب علم بلوچستان رخ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہر شہر میں کالجز قائم کیے گئے تھے اور ہر گاؤں میں آبادی کے لحاظ سے ہائی اسکول بنادیے گئے تھے۔ اور ان اسکولوں میں بلوچستان کے قابل لوگوں کو نوکریاں فراہم کی گئی تھیں۔

بلوچستان حکومت نے ایک تعویذ بلوچستان پولیس کےلیے لیا تو بلوچستان پولیس دنیا کی بہترین پولیس بن گئی تھی۔۔ بلوچستان حکومت کا گزارا اس فقیر کے تعویذ پر ہونے لگا تھا۔

بلوچستان کو اس قدر ترقی کی راہ پر دیکھتے ہوئے کراچی کے شہریوں نے سندھ حکومت سے پرزور مطالبہ کردیا تھا کہ ہم پہلے بھی بلوچستان میں شامل تھے، اب بھی بلوچستان میں شامل کیا جائے، کیونکہ مائی کولاچی بلوچ تھی۔ انہی کے نام سے منسوب شہر کراچی کو بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ لیکن بلوچستان حکومت نے یہ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیا کہ ہم سے اس ملک کا رقبے میں سب سے بڑا صوبہ ہی سنبھالا نہیں جاتا جو کہ ہم نے فقیر کے تعویذ پر سنبھالا ہوا ہے، ہم کراچی کو کیسے سنبھالیں گے۔ پہلے ہی ہم نے بہت دکھ دیکھے ہیں، اب اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ فقیر کی دعا سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل دوبارہ فقیر کی بددعا سے تنزلی کی جانب راغب ہوجائیں۔ لہٰذا بلوچستان حکومت نے سندھ حکومت سے معذرت کرلی۔

بلوچستان حکومت نے فقیر کے تعویذ کی بدولت اسپتالوں کو بہتری کی جانب گامزن کیا، تو بلوچستان کی سرزمین پر ایسے اسپتالوں کا جال بچھادیا گیا تھا کہ ان اسپتالوں میں جگر ٹرانسپلانٹ سے لے کر ہزاروں نئے امراض کا علاج بھی ممکن ہوگیا تھا۔

ابھی تک فقیر کے تعویذ رنگ لارہے تھے، حتیٰ کہ بلوچستان کے پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر کام کرکے تھک جاتے تو انہی اسپتالوں میں آرام کرنے لگ جاتے۔ پہلی بار اتنی سہولیات دیکھ کر دنیا کے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بلوچستان کی طرف دیکھ رہے تھے مگر بلوچستان حکومت نے دنیا بھر سے آنکھیں ملانا بھی گوارہ نہیں کیا اور فقیر کے تعویذ نے صوبہ بلوچستان کو ترقی کاسفر رکنے نہیں دیا۔

بلوچستان حکومت نے فقیر سے ایک ایسا تعویذ بھی لیا جس کی بدولت بلوچستان حکومت نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی۔ اس ویکسین کا تجربہ کامیاب ہوا اور چین میں جب دوبارہ کورونا کی وبا پھیلی تو چین کے ڈاکٹروں نے بلوچستان حکومت سے مدد کی اپیل کی اور پھر بلوچستان حکومت نے ڈاکٹروں کی ٹیم چین روانہ کردی تھی، جنہوں نے دس دنوں میں کورونا وبا کو کنٹرول کرلیا تھا۔ بلوچستان کے عظیم ڈاکٹرز بلوچستان واپس آئے تو لوگ ان پر پھول نچھاور کرنے لگے۔ ڈاکٹروں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب کچھ فقیر کے تعویذ سے ممکن ہوا ہے۔ سب لوگ اس فقیر کی تلاش میں لگ گئے کہ آخر بلوچستان حکومت کو ایسا فقیر کہاں سے ہاتھ لگ گیا ہے جس کے پاس ہر مرض کا علاج ہے۔

بلوچستان حکومت نے پھر لاکھوں لوگوں کو بیل پٹ بھیج دیا، جہاں پر انہی لاکھوں لوگوں نے بھاگ ناڑی کی بنجر زمین کو آباد کرنا تھا۔ فقیر نے ایک تعویذ بیل بٹ کی کامیابی کےلیے بھی دیا۔ پھر کیا تھا بیل پٹ نے جلد کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے، جہاں پر ہر قسم کے پھل، سبزیاں، گندم، چاول، سرسوں اور کپاس کی فصلیں پیدا ہونے لگیں۔ بلوچستان کا ہر باسی خوشحال ہونے لگا۔ بلوچستان میں کسی کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ بلوچستان کے باسیوں نے اتنی خوشحالی کبھی نہیں دیکھی جتنی ان دنوں میں دیکھ رہے تھے۔ اور جو کچھ ہورہا تھا سب فقیر کے تعویذ کی بدولت تھا۔

حکومت بلوچستان نے ایک تعویذ کوئلے کی ترقی کے لیے بھی لیا تو پھر بلوچستان سے نکلنے والا کوئلہ لاکھوں ٹن کے حساب سے ہر روز سندھ اور پنجاب بھیجا جارہا تھا، جس سے ان صوبوں کا ریل اور بجلی کا نظام چلنے لگا تھا اور اسی کوئلے سے ان لوگوں نے فیکٹریاں بھی چلانا شروع کردیں۔ ایسے ہوتی ہے ترقی، ایسے ہوتے ہیں فقیر، جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو لٹل پیرس کا درجہ دینے کےلیے حکومت بلوچستان نے فقیر سے ایک تعویذ لیا تو امریکا، برطانیہ، عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں سے وزیراعظموں کا قافلہ کوئٹہ پہنچ گیا، جنہیں ریسیو کرنے کےلیے پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کے چند نوکر پہنچ گئے تھے، نہ کوئٹہ کے روڑ بند ہوئے نہ ٹریفک۔ جدید ریلوے کے ذریعے قافلہ ریلوے اسٹیشن سے سیدھا گورنر ہاؤس پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے بلوچستان کی ترقی دیکھ کر بلوچستان کے لوگوں کا ویزہ اپنے ممالک میں فری کردیا تاکہ بلوچستان کے باسی ان ممالک میں بھی ترقی کی راہیں کھول سکیں۔ جب ان ممالک کے سربراہان نے ترقی کا راز پوچھا تو وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے فقیر کے تعویذ کے ذریعے ترقی کی ہے۔

بلوچستان کے شہر گوادر کی ترقی کا سفر رک گیا تو حکومت بلوچستان نے پھر فقیر سے ایک تعویذ طلب کیا۔ تعویذ کے بعد گوادر نے اتنی ترقی کی کہ وزیراعظم پاکستان نے اسلام آباد کے بجائے گوادر میں اپنا ہاؤس قائم کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ گوادر میں صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے دروازے عوام الناس کےلیے کھول دیے گئے تھے، مگر عوام کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ ان سے ملنے جائیں۔ سارا دن کام، کام، صرف کام میں لگے ہوئے تھے۔ فقیر کے تعویذ نے ہر شخص کو روزی روٹی پر لگادیا تھا۔

بلوچستان کے تمام شہریوں کو حکومت بلوچستان نے ایک ہی قسم کے گھروں کے ڈیزائن کا نقشہ بنا کردیا تھا، جس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو زنداں میں ڈالنے کا حکم تھا۔ گھر بنانے کےلیے اگر پیسے کم ہوتے تو حکومت بلوچستان ان کو آسان اقساط پر بغیر کسی سودی نظام کے قرض مہیا کرنے کی پابند تھی۔ بلوچستان میں نئے گھروں کی تعمیر کےلیے فقیر نے ایک تعویذ دیا تو صرف تین ماہ کی مدت میں تمام گھر مکمل کرلیے گئے۔

بلوچستان کی ہر کالونی میں ایک سول ڈسپنسری بھی قائم کردی گئی اور ساتھ میں ہر دو ہزار آبادی کے شہر میں ایک سول اسپتال بھی مکمل کردیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ فقیر کے تعویذوں سے ممکن ہورہا تھا۔

فقیر کے تعویذ نے بلوچستان کے اسکول کا سسٹم ایسا بنادیا تھا کہ ہر دس بچوں کےلیے ایک استاد مقرر تھا۔ جب کہ مسجد اور مندر کےلیے بھی ایک استاد مقرر کردیا گیا تھا جو ان کو ان کی دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرانے میں مشغول تھے۔

بلوچستان کا ہر باسی فقیر کے تعویذ سے چائنیز اور انگریزی زبان پر عبور رکھنے لگا تھا۔ گھروں میں بھی چائنیز اور انگریزی زبان بولی جاتی تھی۔

پوری دنیا حیران تھی کہ آخر بلوچستان نے کس طرح فقیر کے تعویذ سے بم دھماکوں پر قابو پالیا ہے اور کس طرح پورے بلوچستان سے ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ کردیا ہے۔ اب تو بلوچستان کے وزیر اور سرداروں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کچھ فقیر کا تعویذ کررہا تھا۔ بلوچستان کی تاریخ بدل چکی تھی۔ بلوچستان دنیا کے نقشے پر ایسے ابھرا تھا کہ تمام ممالک نے بلوچستان کو سلام پیش کرنا شروع کردیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے فقیر سے ایک تعویذ رشوت کے خاتمے کےلیے لیا تو پورے بلوچستان کے رشوت دینے اور لینے والوں ختم ہوگئے تھے۔ فقیر کے تعویذ سے پورے بلوچستان کو بجلی، گیس فری کردی گئی تاکہ اپنے خزانوں سے حاصل چیزوں سے مستفید ہوسکیں، حتیٰ کہ فقیر کے تعویذ سے پورے بلوچستان کے بجلی اور گیس کے میٹر سے بھی فری کردیا گیا تھا اور حکومت بلوچستان نے وہ میٹر دیگر صوبوں میں اونے پونے بیچ دیے تاکہ ترقی کے سفر میں میٹر رکاوٹ نہ ہو۔

فقیر کے تعویذ سے پورے بلوچستان میں اب مزید ترقی کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگر پھر بھی حکومت بلوچستان نے فقیر سے ایک تعویذ بلوچستان کے سائنسدانوں کےلیے مانگ لیا تاکہ سائنسدان چاند پر پہنچ کر فائیو جی کے ٹاورز لگادیں تاکہ موبائل سگنل کا کبھی پرابلم نہ ہو، پھر فقیر نے ایک ایسا تعویذ دیا کہ موبائل بغیر ٹاورز کے چلنے لگے۔

فقیر کے تعویذ کی وجہ سے پورا بلوچستان اتنی ترقی کا سفر طے کر رہا تھا کہ ان کا ذکر کتابوں میں بھی ہونے لگا تھا۔ اور تو اور فقیر کے ایک تعویذ سے دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی کا درجہ بلوچستان یونیورسٹی کو مل گیا تھا۔ بلوچستان کے ڈگری یافتہ نوجوان کبھی بے روزگار نہیں ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں ان کے ڈگری ہوتی تھی تو دوسرے ہاتھ میں نوکری کے آرڈرز ہوتے تھے۔ بلوچستان میں کوئی بھی مزاحمت کار فقیر کے تعویذ کے بدولت نہیں رہا تھا۔ بلوچستان دنیا کا واحد علاقہ تھا جہاں فقیر کے تعویذ سے پورے بلوچستان میں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے تھے۔

نوٹ: یہ تحریر فقیر نے مطالعہ پاکستان کی کتاب 2080 کےلیے لکھی ہے۔ اس تحریر کے جملہ حقوق حکومت بلوچستان نے اپنے پاس الماری میں محفوظ کرکے رکھ دیئے ہیں۔ جب بلوچستان اس طرح ترقی کی سیڑھیاں عبور کرے گا تو دنیا میں یہ تحریر پیش کی جائے گی۔ اس تحریر کے کاپی پیسٹ یا اس پر تنقید کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہوگی، کیونکہ اگر ترقی کا سفر کہیں رکا تو وہ شخص ذمے دار ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔