روزنامہ ایکسپریس پر بزدلانہ حملہ

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 5 دسمبر 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

میں دیر تک جاگنے اور ہر حال میں سویرے اٹھنے کا عادی ہوں اور میں اس عادت میں اس وقت سے مبتلا ہوں جب مجھے جیل میں صبح فجر سے پہلے جاگنے کی مجبوری لاحق ہوئی، 2 دسمبر کو میری طبیعت کچھ زیادہ خراب تھی، میں کھانا کھائے بغیر بستر پر لیٹ گیا اور نیند کی آغوش میں پہنچ گیا، جب جاگا تو بچوں نے بتایا ٹی وی پر ایکسپریس پر حملے کی خبریں آرہی ہیں۔ میں گھبرا کر ٹی وی چینلوں کو بدلتا رہا لیکن سوائے ایک دو چینلوں پر چند جملوں کی خبر کے مجھے اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا میں کوئی تفصیلی خبر نظر آئی، نہ اس پر اینکر حضرات کوئی روایتی بامعنی بحث کرتے نظر آئے، نہ اس سنگین ترین واقعے کو کوئی چینل بریکنگ نیوز بناتا نظر آیا۔ اگر کوئی حکمران چھینکتا ہے تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے، اگر کوئی سیاستدان اپنی سیاسی مچان سے گر پڑتا ہے یا گرنے سے بچ جاتا ہے تو وہ سب سے بڑی بریکنگ نیوز بن جاتا ہے اور یہ بریکنگ نیوز ہفتوں ٹی وی اسکرینوں پر دندناتی رہتی ہے۔ لیکن ملک کے ایک بہت بڑے اخبار اور چینل کے دفتر پر بموں سے حملہ ہوتا ہے اور اندھا دھند فائرنگ ہوتی ہے تو اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ رویہ پروفیشنل رقابتوں کی ایک کڑی ہو لیکن میڈیا پر حملوں، میڈیا کو دی جانے والی دھمکیوں کا تعلق کسی ایک اخبار یا چینل سے نہیں بلکہ سارے میڈیا کی آزادی سے ہے اور میڈیا کی آزادی مہذب دنیا کی شرط اول مانی جاتی ہے۔ میڈیا کی آزادی کی راہ میں پروفیشنل رقابتوں کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ پر یہ حملہ پہلا حملہ نہیں، اس سے قبل بھی 16 اگست کو ایکسپریس پر حملہ کیا گیا تھا جس میں ڈیوٹی پر موجود گارڈ زخمی ہوا تھا۔ 2 دسمبر کے حملے میں بھی دو گارڈ شدید زخمی ہوئے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ ملک کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے 16 اگست کے حملے کی بھی مذمت کی تھی اور 2 دسمبر کے حملے کی بھی مذمت کی ہے، ان مذمت کنندگان میں عمران خان بھی شامل ہیں، منور حسن بھی، فضل الرحمن بھی۔ اس مذمت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رہنما میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور اس آزادی پر حملے کرنے والوں کو مجرم بھی سمجھتے ہیں۔

صحافت کے خلاف ماضی میں بھی سول اور فوجی آمروں نے قدغن لگانے کی کوشش کی اور مرد حق ضیا الحق نے تو سچ لکھنے، غلط کو غلط کہنے کے جرم میں صحافیوں کی پیٹھ پر کوڑے لگوائے، انھیں اذیتیں دیں، انھیں جیلوں میں بند رکھا لیکن صحافیوں نے ان مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ مظالم سول اور فوجی آمروں نے محض اس لیے ڈھائے تھے کہ صحافت کی آزادی ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، سول اور فوجی آمریت فاشزم کے مقابلے میں کم خطرناک سمجھی جاتی ہے اور مذہبی فاشزم کو نسلی فاشزم سے بہت زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے۔ جو صحافی سول اور فوجی آمریت کو ملک و قوم کے لیے خطرہ سمجھ کر اس کا مقابلہ کرتے رہے اور بڑی بڑی قربانیاں دیں کیا وہ اس مذہبی فاشزم کے ہولناک خطرے کا مقابلہ کرنے سے گریزاں ہوسکتے ہیں۔ یہ خطرہ محض صحافیوں اور قلم کاروں کے لیے نہیں بلکہ اس ملک کے مستقبل کے لیے ایک تباہ کن خطرہ ہے اور اس خطرے کا مقابلہ صرف احتجاجی مظاہروں سے ممکن نہیں بلکہ اس کا مقابلہ سچ کی بلا خوف برتری سے ہی کیا جاسکتا ہے، محض ماضی کی قربانیوں کے حوالے سے اس خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

دہشت گردی جہل کی پیداوار ہے اور علم اور عقل کی دشمن ہوتی ہے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے علم و عقل کا گلا دبا رہی ہے، درسگاہوں سے لے کر میڈیا کے اداروں تک حملوں کا مقصد جہل کو فروغ دینا اور جاہلوں کی ایک ایسی فوج تیار کرنا ہے جو دہشت گردوں کی محافظ ہو اور علم و عقل کی دشمن ہو۔ یہ ہمارا عمل ہے اور خواہش یہ ہے کہ ہم دنیا پر غلبہ حاصل کریں۔ جن قوموں کا دنیا پر صدیوں سے غلبہ ہے وہ جہل اور دہشت گردی کے ذریعے دنیا پر غالب نہیں بلکہ علم و عقل کے ذریعے دنیا پر غالب آئی ہیں، ہم دنیا پر اپنے غلبے کی جو داستانیں سناتے ہیں وہ غلبہ بھی علم و عقل کی وجہ سے ممکن ہوا تھا، کیا ان حقائق کے برخلاف دہشت گردی کے ذریعے دنیا پر غلبہ ممکن ہے؟

آج کی دنیا علم و آگہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، آج وہی قومیں ترقی کی معراج پر کھڑی ہیں جنھوں نے اپنے ماضی کو حال کے تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کیا۔ ہم ان قوموں کی زندگی کے ہر شعبے میں محتاج ہیں اور اس محتاجی کو غنی میں بدلنے کے لیے ایسے راستے پر چل رہے ہیں جو تباہی کا راستہ ہے۔ جس ملک کے کروڑوں بچے بچیاں اور نوجوان صبح اٹھتے ہی ہجوم در ہجوم جدید علوم کی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں کیا انھیں بم کے حملوں اور بارودی گاڑیوں سے علم سے دور رکھا جاسکتا ہے، علم کے دشمن غالباً اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، علم روشنی ہے جو لاکھوں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کی شکل میں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا اس روشنی کو بارودی گاڑیوں اور ٹائم بموں کریکروں سے اندھیروں میں بدلا جاسکتا ہے؟ ہمارا عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت خدا کے اختیار میں ہے، کیا دہشت گرد کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں میں موت و حیات کا اختیار سونپ کر خدا کے اختیارات کی نفی نہیں کر رہے ہیں؟ خدا نے بڑی محبت سے انسان کو تخلیق کیا ہے، کیا ایسا مہربان خدا اپنی بے گناہ مخلوق کی جان لینے کو پسند کرے گا؟ اس سوال پر انسانوں کے قاتلوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

روزنامہ ایکسپریس پر حملے کی سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے مذمت کی ہے اور اسے غیر انسانی فعل کہا ہے، عوام یہ سوچ کر حیران ہو رہے ہیں کہ میڈیا پر حملہ کرنے والوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والوں، اسکولوں کو بموں سے اڑانے والوں اور کارکردگی کے بجائے عقیدے کو لائق ستائش لائق مذمت سمجھنے والے ایک طرف تو ان علم دشمنوں انسان دشمنوں میڈیا دشمنوں کی شدید مذمت کر رہے ہیں دوسری طرف ان کی بالواسطہ بلاواسطہ حمایت کرتے ہوئے انھیں اسٹیک ہولڈر ماننے اور انھیں وزارتیں دینے اور ان سے مذاکرات کرنے کو نجات کا واحد ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔

اقتدار کی خواہش انسان کو حیوان بنادیتی ہے لیکن جب لاکھوں انسانوں کی جانوں کا مسئلہ درپیش ہو تو بڑی سے بڑی حیوانیت کو بھی انسانیت کا خیال آجاتا ہے، عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ 50 ہزار مسلمانوں کو جن میں معصوم بچے، جوان، بوڑھے، مرد و عورت سب شامل ہیں، انتہائی سفاکی سے قتل کرنے والوں سے مذاکرات کا درس دینے والے اس بے لگام بے امتیاز دہشت گردی کے نتائج سے واقف نہیں؟ ہمارے مذہبی رہنما اپنے بچوں کو ملک کے اندر جدید درسگاہوں میں پڑھا رہے ہیں اور صاحب حیثیت مذہبی رہنما بیرون ملک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جدید علوم کی قدر و قیمت سے واقف ہیں، عوام جب ایسے مذہبی رہنما جب درسگاہوں کو نذر آتش کرنے والوں طالب علموں کو قتل کرنے والوں، میڈیا پر حملہ کرنے والوں، صحافیوں پر حملہ کرنے والوں، حتیٰ کہ پولیو کی دوا پلانے والے ہیلتھ ورکرز کو قتل کرنے والوں کی براہ راست حمایت کرتے دیکھتے ہیں تو ان کے سر شرم اور حیرت سے جھک جاتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ ہم کیسے ملک میں پیدا ہوگئے جس کے رہنماؤں کے قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد ہے۔ کیا ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دینے والوں کا یہ فرض نہیں کہ وہ میڈیا پر حملہ کرنے والوں، درسگاہوں کو بموں سے اڑانے والوں اور 50 ہزار بے گناہوں کے قتل کے خلاف دھرنے دیں، احتجاج کریں اور اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لائیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔