کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 24 مئ 2020
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

غزل


روندنے آیا اگر کعبۂ جاں، فیل کوئی
کنکری پھینک گئی آ کے ابابیل کوئی
اپنے ہاتھوں سے کریں اپنا مسیحا مصلوب
اور پھر چاہتے ہیں آئے گی انجیل کوئی
حیرتی اتنا ہے کیوں دیکھ کے آنکھیں میری
کیا کبھی دیکھی نہیں خشک ہوئی جھیل کوئی
لوگ اس دل کی مشقت کو کہاں سمجھیں گے
تھل میں کر دیکھے ذرا پانی کی ترسیل کوئی
ہائے دشواری کہ تلخیص نہیں ہے ممکن
اور تیار نہیں سننے کو تفصیل کوئی
میں سمجھتا تھا نکل آتا ہوں فن کاری سے
دیتا رہتا تھا حقیقت میں مجھے ڈھیل کوئی
خواب کو داد، کئی منزلیں طے آنکھ میں کیں
چل کے پانی میں دکھائے تو فقط میل کوئی
اپنی رفتار کے مختار بھلے ہم ہیں مگر
راستہ اور کرے ریل کا تبدیل کوئی
(حبیب احمد ۔ شورکوٹ ،ضلع جھنگ)

۔۔۔
غزل


جو شعبدہ گر ہیں سرِ افلاک رکھے ہیں
اور جتنے ستارے ہیں تہِ خاک رکھے ہیں
صحرا ہیں کسی پل میں سمندر ہیں یہ آنکھیں
تجھ سیر کو ہر طرح کی املاک رکھے ہیں
کمزور سفینے کا رواں ہونا کٹھن ہے
جس بحر میں جس دہر میں ہم دھاک رکھے ہیں
دنیا کے حوادث کا ہمیں خوف نہیں ہے
اپنا تو خیال اب شہِ لولاک رکھے ہیں
ہم میر جنوں پیشہ کے مذہب میں کٹر لوگ
صد پارہ جگر سینۂ صد چاک رکھے ہیں
(انعام کبیرکامونکی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


تھکن کی رات چراغوں نے اتنا پیار دیا
لووں کے رقص پہ میں نے سکون وار دیا
بدن مہکنے ہی والا تھا باغِ ہستی میں
کسی نے روح کے پہلو میں وقت مار دیا
دکھا کے خواب ستاروں کے اہل ِدنیا نے
مرے وجود کو زیرِ زمیں اتار دیا
جو ضبط میں نے پس ِ پردہ ٔ نگاہ رکھا
ترے بچھڑنے پہ رخسار سے گزار دیا
جدید جنگ میں بوڑھا سپاہی کیا کرتا؟
نئے مکاں نے پرانا درخت مار دیا
شبِ جمال اندھیرے کی نذر ہو جاتی
اگر نگاہ کو دیتا نہ اختیار دیا
(علی شیران۔شورکوٹ، جھنگ)

۔۔۔
غزل


زیاں ہوابنامِ تخت و تاج میرے بادشاہ!
دِلوں پہ گرنہیں کیاجو راج میرے بادشاہ
یہ وارداتِ عشق ہے کوئی مرض نہیں حضور
نہیں ہے اس کا اِس لیے علاج میرے بادشاہ
ہماری نسبتوں سے جوعمل مُضحکہ خیز ہے
وہ تُو کر ے تو چل پڑے رواج میرے بادشاہ
اُنہیں کے کل کووقت نے نہ دیں مزیدمہلتیں
بَدل نہیں سکے جو اپناآج میرے بادشاہ
کرم کی خشک سالیوں سے فصلِ خواب جل گئی
کڑا ہے وقت کاٹ لے بِیاج میرے بادشاہ
بہت سے لوگ بھوک سے مرے تھے پچھلے سال بھی
کثیر اس برس بھی ہے اناج میرے بادشاہ
چُرائیںیا خرید لیںجو بے کسوں کے اَشک ہیں
سجے گا ایسے موتیوں سے تاج میرے بادشاہ
(نجم الثاقب ۔میانوالی)

۔۔۔
غزل


اک عجب طورِ تماشہ مری دہلیز پہ تھا
کیا کہوں کیسا اجالا مری دہلیز پہ تھا
یعنی دنیا مری امداد کو آئی ہی نہیں
یعنی وہ شخص اکیلا مری دہلیز پہ تھا
میرے بھی دوست گئے تھے اسے سمجھانے کو
اس کا بھی ایک شناسا مری دہلیز پہ تھا
ایک دنیا کہ جسے سمت نما جانتی تھی
بجھنے والا وہ ستارہ مری دہلیز پہ تھا
شوخ سی چاپ مرے گھر میں اتر آئی تھی
جیسے اک میر کا مصرع مری دہلیز پہ تھا
اے شہہِ کرب و بلا کل تری دہلیز سے میں
لوٹ آیا تو زمانہ مری دہلیز پہ تھا
(زین عباس۔ شورکوٹ)

۔۔۔
غزل


ہمیں گرا کر کوئی مجازاََ کھڑا رہے گا
ہماری چپ سے کسی کا رتبہ بنا رہے گا
زمیں فلک سے فقط دکھاوے کو مل رہی ہے
تجھے گلے سے لگا بھی لیں تو خلا رہے گا
ہم اس جہاں سے رہائی پائیں تو کیا نیا ہو
کہ اگلی جیلوں میں بھی تو جیلر خدا رہے گا
تم ایک خستہ مکان کو رنگ کر رہے ہو
مگر کہیں پر نمی کا اک حاشیہ رہے گا
ہوا کے ہوتے بھی سانس لینا کٹھن رہا ہے
تمہارے ہوتے بھی عالمِ تخلیہ رہے گا
(علی ادراک۔ پتوکی۔ قصور)

۔۔۔
غزل


دیکھا نہ جب تلک بھی کسی عکسِ نور کو
آیا نہیں سکون کسی با شعور کو
مژدہ سنا کے پھر بھی ہمیں گالیاں ملیں
غارت خدا کرے گا تمہارے غرور کو
جلوہ کبھی تو مجھ کو دکھائے گا کبریا
آتا ہوں روز چھو کے میاں کوہِ طور کو
لکھنے لگا ہے تو بھی کوئی عشقیہ کتاب
شامل خدارا کر لے مری کچھ سطور کو
دنیا میں ہم نے پیار کے پودے لگائے ہیں
سجدہ کریں گے لوگ ہماری قبور کو
شکوہ بہ لب ہوں میری محبت بھی چھین لی
دھوکہ دیا گیا ہے سحر بے قصور کو
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


ہر کسی کو کب بلا فصل مانا جاتا ہے
اصل جو ہوں ان کو ہی اصل مانا جاتا ہے
اس کے گاؤں جا رہا ہوں میں بھی رخصت لے کر
چاند جس کے حسن کی نقل مانا جاتا ہے
وہ مری محنت کا انکار ہے ،فن کی نفی
جب مجھے یوں ترس کی شکل مانا جاتا ہے
ہم تو ایسی بستیوں میں پلے ہیں کہ جہاں
ہجر میں مر جانا بھی قتل مانا جاتا ہے
مبتلائے درد رہنا وراثت ہے یہاں
بے اذیت لمس بے دخل مانا جاتا ہے
میں وفاؤں کا وہی استعارہ ہوں جسے
معتبر بھی نسل در نسل مانا جاتا ہے
گنگ ہے ساگر مشیرِ محبت اس لیے
مشورہ دیتے ہی بے عقل مانا جاتا ہے
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


انہیں سوچ جن سے تُو وعدہ کر کے ملا نہیں
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں پھر بھی تجھ سے گلہ نہیں
تری دسترس سے رِہا ہوا تو کُھلا ہے یہ
ترے ساتھ رہ کے اداس تھا میں کِھلا نہیں
میں کروں تو کس سے کروں گلہ کہ وہ ایک شخص
مرے ساتھ ساتھ رہا مجھے وہ ملا نہیں
ترے ساتھ رہتے جو چاہا میں نے وہ مل گیا
ترے بعد مجھ کو ملا نہیں تو گلہ نہیں
تری خامشی پہ ہے شور سارے جہان میں
تری چپ سے کوئی پرندہ تک بھی ہلا نہیں
بڑی بے رخی سے ملے مجھے وہ جو یار تھے
میں سمجھ گیا کہ محبتوں میں صلہ نہیں
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


جب دکھ دیا عضد نے گھٹن اور بڑھ گئی
پہلے جو دل میں تھی وہ چبھن اور بڑھ گئی
قاصر تھے لفظ بوجھ اٹھانے سے درد کا
تب میرے لہجے کی بھی تھکن اوربڑھ گئی
وعدے پرانے یاد اسے جب دلائے تھے
ماتھے پہ اس کے دیکھا شکن اور بڑھ گئی
حالانکہ اس نے بولے تھے کچھ لفظ ہی فقط
پر میرے زخموں کی تو جلن اور بڑھ گئی
ہر بار درد اپنا میں نے لفظوں کو دیا
اعجازؔ یونہی طلبِ سخن اور بڑھ گئی
(اعجاز کشمیری۔آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


دلِ گستاخ کو لازم ہے جلایا ہوتا
عشق معصوم تھا جھگڑے میں نہ لایا ہوتا
تیری تعظیم میں اٹھی ہیں جو آہیں فوراً
اِک نظر دیکھ کے ان کو تو بٹھایا ہوتا
لوگ جو عشق میں گھر باہر لٹا کر آئے
وارثِ شعر و سخن ان کو بنایا ہوتا
میرے وجدان میں رہتے ہیں کسی یاد کے دکھ
خواب کچھ بھیج کے یادوں کو سلایا ہوتا
مجھ کو محرومِ وفا دیکھ کے نوحہ کہتے
عشقِ مغموم پہ ماتم ہی منایا ہوتا
تجھ کو بیمار کے لہجے کی تھکن یاد نہیں
تجھ سا بے غرض مسیحا نہ خدایا ہوتا
یہ میری صفت خلیل ؔآج مجھے لے ڈوبی
سچ نے سولی پہ چڑھایا،نہ چڑھایا ہوتا
(خلیل حسین بلوچ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
چمن میں پھول کھلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
خزاں میں شام ڈھلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
تمھاری دید کی خواہش لیے بیٹھا ہوں سجدے میں
میرا ایمان جانے سے ذرا پہلے چلے آنا
میری برسوں سے حسرت ہے تمھیں بارش میں تر دیکھوں
سنو برسات ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا
مجھے لگنے لگے ہیں اب بہت اچھے نئے چہرے
میری نیت بدلنے سے ذرا پہلے چلے آنا
سنا ہے شہرتیں اکثر بدل دیتی ہیں انساں کو
میرے معروف ہونے سے ذرا پہلے چلے آنا
(معروف شاہ۔ اسکردو)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔