تاریخ پاکستان: ایس ایم ظفر کی نظر میں

حسان خالد  اتوار 24 مئ 2020

2017ء کے یہی دن تھے، رمضان المبارک کا ابھی آغاز ہوا تھا، جب مجھے ملک کے ممتاز قانون دان، سینئر سیاستدان، دانشور اور مصنف ایس ایم ظفر کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ دو نشستوں میں ہونے والی اس ملاقات میں کئی موضوعات زیر بحث آئے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ وہ پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔

انٹرویو کے آغاز سے پہلے میں انہیں اپنے اسسٹنٹ کو کتاب کا کوئی باب ڈکٹیٹ کراتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔حوالے کی کئی کتب سامنے میز پر دھری تھیں۔ مجھے ان کے کام کے طریقہ کار، بالخصوص اس بات نے بہت متاثر کیا کہ وہ اس پیرانہ سالی میں بھی اپنا فرض سمجھتے ہوئے ایک مشکل اور صبر آزما کام میں اپنی توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اس کی ضرورت سمجھتے تھے کہ ملکی تاریخ سے متعلق اپنا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کی درجن بھر تصانیف پہلے شائع ہو چکی تھیں۔ چنانچہ مجھے فطری طور پر تجسس اور انتظار تھا کہ یہ کتاب کب شائع ہوتی ہے اور اس کے مندرجات کیا ہوں گے۔ گزشتہ برس کے آخر میں کتاب شائع ہوئی، لیکن میں نے اسے قدرے تاخیر سے حاصل کیا۔

اب اس کے مطالعے کے بعد میں سمجھ سکتا ہوں کہ اسے لکھنا کیوں ضروری تھا۔ کتاب سے جہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے کس موڑ میں ریاست کے مختلف ستونوں، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کا کردار کیا تھا، وہاں آگے بڑھنے کی وہ راہ عمل بھی نظر آتی ہے، جس پر چلتے ہوئے ہم اس پاکستان کی تشکیل کر سکتے ہیں، جس کا خواب وطن کے قائدین اور برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی کو بالعموم اور سیاستدانوں، بیوروکریٹس ، عدلیہ اور ریاستی اداروں کے سرکردہ افراد کو بالخصوص اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’تاریخ سچ کی تلاش ہے اور تاریخ کی تعبیر اس سچ کو دریافت کرنے کا ذریعہ ہے، اور تعبیر (interpretation)کرنے پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔‘‘وہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ بھی مصنفین اور دانشور وطن عزیز کی تاریخ کو سمجھنے کا یہ کام کرتے رہیں گے، کیونکہ ’’تاریخ کی درست تعبیر قوم میں ہم آہنگی اور یکجہتی کا سبب بنے گی۔‘‘

ایس ایم ظفر کو زمانہ طالب علمی میں قائداعظم کی تقریر سننے کا موقع ملا جب قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ طلبہ سے خطاب کرنے لاہور(اسلامیہ کالج ریلوے روڈ) تشریف لائے۔ آزادی کے معجزے سے متاثر ہو کر انہوں نے انجینئر بننے کے بجائے وکالت کے شعبے کا انتخاب کیا۔ دوران تعلیم پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے، اپنے عظیم قائد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے کام کیا۔ بعدازاں ایک کامیاب پیشہ ور وکیل بننے کے باوجود سیاست میں ان کی دلچسپی بڑھتی رہی۔ چنانچہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی کابینہ میں وزیر قانون اور پارلیمانی امور کی حیثیت سے شامل ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے کچھ دنوں بعد رضامندی ظاہر کر دی اور 25مارچ 1965ء کو اس عہدے کا حلف لیا۔

چار سال ایوب کابینہ کا حصہ رہے۔متحدہ اپوزیشن کی طرف سے 1973ء کا آئین تشکیل دینے والی ٹیم کا حصہ بنے۔پیرپگاڑا کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیا۔ ملکی تاریخ کے کئی مشہور مقدمات کی پیروی کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہالینڈ کی عدالت میں کامیابی سے دفاع کیا۔ کئی برس پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سنیٹر رہے ، سترہویں اور اٹھارویں آئینی ترامیم کی تیاری کے عمل میں بھی شامل رہے۔ اس مختصر تعارف کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملکی آئینی اور سیاسی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں۔

تاہم زیر نظر تصنیف میں انہوں نے اپنے مشاہدات پر زیادہ اکتفا کرنے کے بجائے متعدد کتابوں اور دوسرے حوالہ جات (بالخصوص نصف صدی بعد عام کیے جانے والے امریکی کاغذات) کی مدد سے تاریخ بیان کرنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں۔ تاریخ کی غلط تعبیر، مختلف واقعات کا صحیح فہم نہ ہونا، گمراہ کن تھیوریوں اور اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے نظریوں نے عظیم قوم بننے کی منزل کے حصول کا راستہ کھوٹا کیا ہے۔ اسی لیے کتاب کو ’’تاریخ پاکستان، ایک نئی تعبیر‘‘ (History of Pakistan – Reinterpreted)کا نام دیا گیا ہے۔‘‘

796 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام 1906)ء( سے برصغیر کی آزادی اور پھر قیام پاکستان سے 2013ء میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے اختتام تک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ کتاب کا بڑا اور مرکزی حصہ ہے۔ دوسرے حصے میں منصف اور عدالتی فیصلے، سیاسی جماعتیں، کشمیر، افواج پاکستان، بیوروکریسی اور مقامی (بلدیاتی) حکومتوں کی تاریخ پر جامع مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے میں سماجی تاریخ کے عنوان سے نظریہ، دہشت گردی، کلچر، مذہب،قوم، ایٹمی پاکستان، بلوچستان، پانی کا مسئلہ، بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اپنے متنوع مندرجات کے اعتبار سے یہ پاکستان پر ایک جامع، دلچسپ اور مفید کتاب ہے۔کتاب کی پروف ریڈنگ کا معیار اچھا نہیں ، امید ہے اگلے ایڈیشن میں غلطیوں کی درستی کر لی جائے گی۔

یہاں اس کتاب سے اخذ اور ترجمہ کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے پہلے پندرہ برسوں 1962)ء کے آئین تک(کی تاریخ بہت اختصار لیکن ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں کئی اہم امور پر قارئین مصنف کا نقطہ نظر جان سکیں گے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجوہات سے متعلق بھی مصنف کی رائے کا ذکر کیا گیا ہے۔کتاب کے مندرجات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کو تفصیل کے لیے کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ناشر: منظور لاء بک ہاؤس، 2مزنگ روڈ، لاہور ۔ قیمت: 4500 روپے

٭٭٭

مصنف لکھتے ہیں کہ 1906ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نواب وقار الملک نے کہا تھا، ’’آپ مستقبل میں اس وقت کا تصور کریں جب برطانیہ ہندوستان سے جانے کا فیصلہ کرے گا۔ اس دن مسلمانوں کی حالت کیا ہو گی جب وہ ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہوں گے، اور انہیں جبر برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘ ایس ایم ظفر کے مطابق، قائداعظم کی حکمت عملی کا شاہکار یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانان ہند کو اقلیتی سوچ سے نکال کر ایک قوم کی حیثیت میں برابری کا عزم دیا جسے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔مصنف کے نزدیک قرارداد لاہور میں ایک متحدہ بھارت میں رہنے کے لیے نیک نیتی سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل کے آئین میں مسلم اکثریتی صوبوں کو بہتر خودمختاری اور آزادی دے دی جائے تو مسلم لیگ اس کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ وہی آئینی صورتحال ہوتی جو کینیڈا کے آئین میں کیوبک کے صوبے کو دی گئی ہے۔

ایس ایم ظفر تحریک پاکستان کو شخصی کامیابی کے بجائے ایک عوامی سوچ اور دیانت دار قیادت کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ قائداعظم کے گورنر جنرل بننے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیںکہ اس وقت تک یقیناقائداعظم کے علم میں آ چکا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن نے کس طرح غیر جانبداری ترک کرتے ہوئے (سرحدوں کی حد بندی اور دوسرے معاملات میں) کانگریس اور جواہر لال نہرو کا ساتھ دیا تھا، اس لیے وہ ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل بنا کر مزید خطرات مول نہیں لینا چاہتے تھے۔7 اگست 1947ء کو دہلی سے کراچی روانہ ہوتے ہوئے قائد نے کہا تھا: ’’میں تہہ دل سے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم اور تاریخی شہر (دہلی) میں امن سے رہیں۔ ماضی کو دفن کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کو ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔میں ہندوستان کے لیے ترقی اور امن کی تمنا کرتا ہوں۔‘‘

مصنف کے بقول، دو قومی نظریہ مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کے حصول کا ایک فارمولا تھا، جسے قیام پاکستان کے بعد سیاسی صورتحال کے تبدیل ہونے پر قائداعظم نے بطور پالیسی ترک کر دیا۔11اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ’’ایک قوم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ وہ اب ایک قومی نظریے کی بات کرتے ہوئے ، ایک ایسی قومی ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جس میں تمام شہری بلاتفریق مذہب برابر ہوں ۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں، ’’میں قائداعظم کی ان تقاریر سے بے خبر نہیں ہوں۔

جن میں انہوں نے اسلام کو اپنی حکومت کی اساس قرار دیا ہے، جس سے مصنفین نے نتیجہ نکالا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ جبکہ قائداعظم اس معاملے میں بڑے واضح تھے کہ پاکستان ایک مسلم قومی ریاست ہو گا، جس میں اسلام کے اصولوں پر عمل کیا جائے گا، جیسے مساوات، انصاف، رواداری، ایمانداری، سماجی رویہ، اخلاقیات، دولت میں بہت زیادہ فرق کا خاتمہ اور لوگوں بالخصوص غریبوں کی فلاح و بہبود۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس معاملے میں راجہ محمود آباد ، جو قائد اعظم کے بہت قریب تھے، کا حوالہ دینا کافی ہو گا۔ اسلامی ریاست کی وکالت کرتے ہوئے راجہ صاحب نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مقاصد میں اسلامی نظریے کو شامل کرنے کے لیے قرارداد کی تجویز دی تھی۔قائداعظم نے اسے نہ صرف مسترد کر دیا تھا۔

مصنف رقمطراز ہیں، ’’ایک قومی ریاست کسی زبان کو رابطے کی زبان کے طور پر اختیار کرتی ہے، جسے ریاستی زبان کہا جاتا ہے۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ اردو متحدہ ہندوستان میں رابطے کی زبان (Lingua franca)ہو گی۔بعد ازاں 25فروری 1948ء کو آئین ساز اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کی کہ اردو پاکستان کی رابطے کی زبان ہو گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مشرقی پاکستان کے ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔ آئین ساز اسمبلی کے مذکورہ اجلاس میں صرف دھریندر ناتھ دتا نے، جو کانگریسی رہنما تھے،بنگالی کو ریاستی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا۔‘‘ مصنف کے بقول، قومی زبان ریاستی زبان سے مختلف ہوتی ہے جو بین الاقوامی سٹیٹس کی حامل ہوتی ہے، جبکہ ریاستی زبان محض رابطے کی زبان ہے۔

اسی طرح قائداعظم نے 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو ریاستی زبان قرار دینے کے الفاظ استعمال کیے تھے۔جس پر کچھ طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے بنگالی کو دوسری قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا، اگرچہ قائداعظم نے اردو کے لیے قومی زبان کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔ بعد میں قائداعظم نے طلبہ رہنماؤں کو مدعو کیا اورطلبہ کی دو مختلف تنظیموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ شیخ مجیب الرحمن کے مطابق، ’’اس واقعے کے بعد محمد علی جناح نے کبھی نہیں کہا کہ وہ صرف اردو کو پاکستان کی ریاستی زبان بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ مصنف لکھتے ہیں کہ اردو کو کسی ایک مخصوص صوبے کی زبان نہیں کہا جا سکتا تھا، اسی لیے قومی ہم آہنگی کی خاطر اسے منتخب کیا گیا۔

قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے ریاست سازی کا عمل آگے بڑھایا اور ایسی پالیسیاں متعارف کرائیں، جن پر بعد میں آنے والی حکومتیں عمل پیرا رہیں۔ جیسے مغرب کے سرمایہ داری رجحان سے ہم آہنگ ٹھوس مالیاتی پالیسی کے ذریعے معیشت کا استحکام، ایران سمیت تمام مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات اور مسلم ممالک کا بلاک بنانے کی کوشش کرنا، کشمیر پر استصواب رائے کے لیے اقوام متحدہ سے قراردادیں منظور کرانا،فلسطین اور عرب کاز کی وکالت کرنا اور بھارت کی طرف سے جارحیت کی سنجیدہ دھمکیوں کا بہادری سے سامنا کرنا، جب انہوں نے مکا دکھا کر اس عزم کا اظہار کیا کہ ملکی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔ اس وقت سے پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی انڈیا کی بنیاد پر تشکیل دی جا رہی ہے۔

قرارداد مقاصد 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی۔ مصنف کے مطابق، یہ لبرل اور مذہبی قوتوں کے درمیان ایک سمجھوتا تھا جس میں جمہوری اصولوں کو مستقبل کے آئین کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس کے پیچھے یہ یقین تھا کہ جمہوری قوتیں اسلام کے رواداری اور مساوات جیسے اصولوں پر زور دیتے ہوئے حقیقی جمہوریت کی جانب بڑھیں گی۔

اس قرارداد کی وجہ سے مذہبی جماعتوں کو جو گنجائش ملی ، اس کا انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کی کمزوری کی وجہ سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کا جمہوری نظام بگاڑ کا شکار ہو کر سٹیٹس کو میں بدل گیا جو صرف اشرافیہ کو فائدہ دے رہا تھا، اس وجہ سے مذہبی جماعتوں نے کم پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت کو یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ حکومت کا ایک زیادہ کامیاب نظام موجود ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو 1973ء کے آئین میں قابل عمل حصے (operating part) کے طور پر شامل کر دیا۔

قرارداد مقاصد کے بعد آئین ساز اسمبلی میں کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، اس طرح مستقبل کے آئین کا ایک بنیادی خاکہ تیار کیا گیا جسے ’’عبوری رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں تجویز کیا گیا کہ ایوان بالا میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی ملے گی، جس کے نتیجے میں دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر ملک کے دونوں حصوں کے ارکان برابری میں آ گئے۔

آئین ساز اسمبلی کے کچھ ارکان نے، جن میں سے زیادہ کا تعلق بنگال سے تھا،برابری کی اس تجویز اور اردو کو قومی زبان قرار دینے پر تنقید کی۔ مذہبی گروہوں نے بھی اسلام کو خاطر خواہ جگہ نہ دینے کا شکوہ کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیاقت علی خان مختلف طبقات کے مطالبات کا سامنا نہ کر سکے اور ’’عبوری رپورٹ‘‘ نومبر 1950ء میں واپس لے لی گئی۔ (یاد رہے بھارتی آئین ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949ء کو اپنا آئین منظور کر لیا تھا۔) اگلا ایک سال بھی ضائع کر دیا گیا، کسی اتفاق رائے پر پہنچنے میں ناکامی نے سیاستدانوں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ آئین سازی میں تاخیر ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی، جس نے ملک کو جمہوریت کے بجائے آمرانہ حکومت کے رستے پر ڈال دیا۔

ایس ایم ظفر کہتے ہیں، ’’لیاقت علی خان پر اس سفارتی گناہ کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے روس کی دعوت ٹھکرا کر امداد حاصل کرنے کے لیے امریکا کا دورہ کیا۔ یہ دونوں الزام سراسر غلط ہیں۔‘‘ مصنف نے ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیل سے بتایا ہے کہ تہران میں روسی سفیر نے 29مارچ 1949ء کو راجہ غضنفر علی خان کے ذریعے سوویت یونین حکومت کی طرف سے دورے کی دعوت بھیجی جسے فوری طور پر قبول کر لیا گیا۔

پاکستانی حکومت روسی حکام سے دورے کی تاریخ اور دوسری تفصیلات طے کرنے کے لیے مسلسل رابطے میں تھی اور ان کے مطالبات پر عمل کرتی رہی، لیکن سوویت حکام مختلف حیلوں سے پہلے دورے کو لٹکاتے رہے اور بالآخر دورے کی دعوت سے ہی مکر گئے۔ راؤ فرمان علی اپنی کتاب میں رقمطراز ہیںکہ نئی دہلی میں روسی سفارت خانے نے دورے میں مزید التوا کی اطلاع کراچی بھیجی ، جس سے اس معاملے میں ہندوستان کی مداخلت کا شک جنم لیتا ہے۔ دسمبر 1949ء میں امریکا نے دورے کی دعوت بھیجی، لیاقت علی خان 3مئی 1950ء کو واشنگٹن ایئرپورٹ پہنچے، جہاں امریکی صدر ٹرومین نے ان کا استقبال کیا۔

مصنف نے امریکا میں لیاقت علی خان کی تقاریر کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ان کا دورہ کسی امداد کی درخواست کے لیے نہ تھا، نہ ہی کہیں انہوں نے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کا اعلان کیا یا کسی ایسی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک نئے اسلامی جمہوی فلاحی ملک کے طور پر متعارف کرایا۔ لیاقت علی خان نے خود کو قائداعظم کا اہل اور مخلص جانشین ثابت کرتے ہوئے ملکی مفاد میں بہترین اقدامات کیے۔

16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں لیاقت علی خان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جسے آج تک بے نقاب نہیں کیا جا سکا۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک سازش جسے بے نقاب کیا جا سکتا تھا ، اس کی طرف پیش رفت کرنے کے بجائے اسے ایک پراسرار معمہ بنا دیا گیا۔مکمل اور اطمینان بخش تحقیقات نہ ہونے کی وجہ سے کابینہ میں موجود کچھ اہم وزیروں غلام محمد (وزیر خزانہ) ، عبدالقیوم خان، مشتاق احمد گورمانی، خواجہ شہاب الدین، پنجاب اور صوبہ سرحد کے پولیس سربراہان قربان علی خان اور سردار عبدالرشید کے کردار پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔

کچھ صوبائی رہنماؤں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ان افواہوں کے گردش میں ہونے کے باوجود سازش کا سراغ نہ لگایا گیا، جس نے ملکی تاریخ پر بہت منفی اثرات مرتب کیے۔ خاص طور پر تحقیقاتی کمیشن اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کو بھی سامنے نہ لایا گیا۔

آزادی کے بعد ریاستی امور چلانے میں پاکستان مسلم لیگ سب سے کمزور ثابت ہوئی اور بحثیت سیاسی جماعت اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکی۔ جس کی وجہ سے کار حکومت چلانے کا بوجھ بتدریج سول انتظامیہ کے کندھوں پر منتقل ہو گیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد آنے والی حکومتیں بدقسمتی سے ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکیں۔چنانچہ اگلے برسوں میں سرکاری ملازمین کا ایک پورا جتھا اپنی ملازمتیں چھوڑ کر ریاست کے بڑے سیاسی عہدوں پر براجمان ہو گیا، یہ لوگ عوام کی نمائندگی کرتے تھے نہ ہی خود کو ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔

17اپریل 1953ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو اچانک برطرف کر دیا اور اسی دن ایک سرکاری ملازم محمد علی بوگرہ کو، جو امریکا میں سفیر تعینات تھے، کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی۔ اس طرح ایک بیورو کریٹ نے ،جو گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچ گیا تھا، پوری کابینہ کو برطرف کر کے ریاست کی سیاسی شاخ پر وار کیا اور ایک بیورو کریٹ کو ہی ملک کا چیف ایگزیکٹو مقرر کر دیا۔ غلام محمد کے اس عمل کا پارلیمانی حکومت کے کسی بھی اصول پر دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فرض کرنا جائز ہو گا کہ فوج کی خفیہ حمایت، منقسم اور غیرمنظم پارلیمنٹ اور کابینہ یا اسمبلی میں موجود کچھ سیاستدانوں کے اکسانے کے بغیر گورنر جنرل اپنے اس اقدام میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خان کی مدت ملازمت 16اگست 1953ء سے بڑھا کر 16جنوری 1959ء مقرر کر دی گئی۔ بعد ازاں 25اکتوبر 1954ء کو کابینہ میں بطور وزیر دفاع بھی شامل کر لیا گیا۔ مصنف کے بقول، ’’حاضر سروس کمانڈر انچیف کو کابینہ میں شامل کرنا ایک خطرناک جدت تھی، اونٹ خیمے میں داخل ہو چکا تھا، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ جلد ہی اونٹ خیمے کے اندر ہو گا اور جمہوریت باہر۔‘‘ ابھی تک ملک کا آئین تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا۔

آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ آئین ساز اسمبلی لوگوں کی نمائندہ نہیں رہی اور اسے تحلیل کیا جائے۔ خاص طور پر مشرقی پاکستان میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے بعد حسین شہید سہروردی نے یہ بیان دیا۔محمد علی بوگرہ نے ان مطالبات کا توڑ کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی سے چار ترامیم منظور کر ا کے ، گورنر جنرل کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کر دیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس منظور شدہ قرارداد کو قانون میں بدلنے سے پہلے امریکا چلے گئے ۔گورنر جنرل کو جب ان ترامیم کا علم ہوا تو اس نے طیش میں آ کر مبہم اختیارات کے تحت 24اکتوبر 1954ء کو آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔سپیکر مولوی تمیز الدین یہ معاملہ عدالتوں میں لے گئے، جو بالآخر فیڈرل کورٹ پہنچ گیا۔ عدالت نے اس اسمبلی کو تو بحال نہ کیا، لیکن جمہوری نظام بچانے کے لیے گورنر جنرل کو پابند کیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے نئی آئین ساز اسمبلی منتخب کی جائے، جیسا کہ پہلے حسین شہید سہروردی تجویز دے چکے تھے۔

ؒجون 1955ء میں نئی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، جس نے اگست میں چوہدری محمد علی کو وزیراعظم منتخب کیا۔ 3 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان میں تمام صوبوں اور ریاستوں کو اکٹھا کر کے ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔چوہدری محمد علی بالآخر آئین تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے، جو 23مارچ 1956ء کو نافذ ہوا۔ اس میں پاکستان کو ایک وفاقی جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ صدر، وزیراعظم، اس کی کابینہ اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کی گئی۔ ملک کے دونوں حصوں میں برابری کا اصول متعارف کرا کے مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو ختم کیا گیا۔

ایس ایم ظفر کے بقول، یہ ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول کی خلاف ورزی تھی ۔ مشرقی پاکستان کی شرح آبادی گھٹا کر یہ تاثر دیا گیا کہ ایک بنگالی شہری، ایک مغربی پاکستان کے شہری سے کمتر ہے، جس نے دونوں حصوں میں علیحدگی کے بیج بو دیئے۔پارلیمنٹ ایک ایوان پر مشتمل تھی، ارکان قومی اسمبلی اپنے اپنے صوبوں کی ضروریات پر زور دیتے،جس کی وجہ سے اس قومی فورم میں صوبائی تعصب پروان چڑھنے لگا۔ یہ فیصلے کرنے والے بیوروکریٹ (اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور دیگر) قوم کے نبض شناس نہیں تھے، انہوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ایوان بالا کے نہ ہونے، ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کے اصول کی نفی کرنے اور ون یونٹ کے قیام جیسے اقدامات سے قوم کو سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

اسکندر مرزا ، جو غلام محمد کی علالت کے بعد گورنر جنرل بن گئے تھے، پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہو گئے۔ 1956ء کے آئین میں آرٹیکل 37(6)کے تحت صدر کو اختیار دیا گیا کہ وہ ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہونے کی صورت میں وزیراعظم کو برطرف کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور صدر نے اس اختیار کا اتنا غلط استعمال کیا کہ یکے بعد دیگرے وزرائے اعظم کی تبدیلی کا ایک کھیل شروع ہو گیا۔ چوہدری محمد علی174) دن ( ، حسین شہید سہروردی) 13ماہ( اور آئی آئی چندریگر 59) دن ( وزیراعظم رہے۔

16دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ 23ستمبر 1958ء کو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں ہاتھا پائی کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر شدید زخمی ہو گئے اور دو دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ وزارت عظمیٰ بچانے کے لیے فیروز خان نون کو اپنی کابینہ میں مزید وزیر شامل کرنے پڑے لیکن حلیف مطمئن نہ ہوئے۔ ملک کو معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ء کو، رات آٹھ بجے، آئین معطل کرتے ہوئے ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ 1956ء کا آئین محض ڈیڑھ برس نافذ العمل رہا۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں، ’’ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی صورت میں، بیورو کریسی ان کی جگہ لے کر کار مملکت چلاتی ہے۔ اور جب بیورو کریسی بھی کرپشن کا شکار ہو کر خود کو قومی مفاد پر ترجیح دینے لگتی ہے تو اگلا ادارہ جو ملک میں استحکام لانے کے لیے آگے آتا ہے، وہ فوج ہے۔ تو یہ ایک دوسرے سے جڑے واقعات کا تسلسل (domino effect)تھا جو فوج پر آ کے رک گیا۔‘‘

کچھ دنوں تک یہ واضح نہیں تھا کہ اقتدار اصل میں کس کے پاس ہے۔ صدر ریاست پر اپنا پورا اختیار اور گرفت برقراررکھنا چاہتے تھے۔ کسی شک کی بنیاد پر اسکندر مرزا نے جنرل موسیٰ کو حکم دیا کہ جنرل ایوب خان کو گرفتار کر لیا جائے، جس پر عمل نہ کیا گیا۔ اس کے بجائے فوج نے جبراً اسکندر مرزا کو مستقل جلاوطن کر دیا اور ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ ٹھیک ایک سال بعد ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا قانون متعارف کرایا۔ اس نظام کا ڈھانچہ یونین کونسل، تحصیل کونسل ، ضلع کونسل اور پھر ڈویژنل کونسل پر مشتمل تھا۔ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخابات کے ذریعے 80ہزار نمائندوں کو منتخب کیا گیا۔ کابینہ کی تجویز پر ایوب خان نے خفیہ بیلٹ کے ذریعے ان نمائندوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔

15فروری 1960ء کو جاری کردہ نتیجے میں بتایا گیا کہ ارکان کی بہت بڑی اکثریت نے جنرل ایوب خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دو دن بعد ایوب خان نے چار سالہ مدت کے لیے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مصنف کی رائے میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کو قانونی جواز مہیا کرنے کی کوشش کی گئی، کیونکہ اس وقت تک مشکوک طریقے سے اقتدار میں آنے والی حکومت کا انحصار صرف فوج پر تھا۔

جسٹس محمد شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا گیا۔ 6مئی 1961ء کو آئینی کمیشن کی رپورٹ وصول ہوئی، اس پر غور و خوض کے بعد یکم مارچ 1962ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں نئے آئین کا اعلان کیا۔کمیشن نے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی تجویز دی،کیونکہ اس کی رائے میں ملک میں پارلیمانی نظام ناکام ثابت ہو چکا تھا۔بعدازاں بنیادی جمہوریتوں کی کونسل کے ذریعے ہی قومی اسمبلی )اپریل 1962ء (اور صوبائی اسمبلی )اپریل 1962ء ( کے لیے عوامی نمائندوں کو منتخب کیا گیا۔ 8جون 1962ء کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے ساتھ ہی 1962ء کا آئین نافذالعمل ہو گیا۔ ایوب خان نے اسی دن نئے آئین کے تحت پہلے صدر کا حلف اٹھایا اور تقریباً چار سال بعد مارشل لاء ختم کر دیا گیا۔

مصنف لکھتے ہیں، ’’میاں منظور قادر کی سربراہی میں آئینی کمیشن کی سفارشات پر نظرثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی، جس نے صدارتی نظام کو اتنا مرکزی بنا دیا کہ صدر کے اختیارات پر پارلیمنٹ کا کوئی کنٹرول نہ رہا، اس طرح بطور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر، ایوب خان کے اختیارات میں کوئی بنیادی فرق نہ آیا۔

سوائے اس کے کہ وہ ملکی سیاست کا حصہ بن گئے اور سیاسی جماعتوں کو بحال کرنے کے بعد کنونشن لیگ کی صدارت سنبھال لی۔ ‘‘ایس ایم ظفر کے مطابق،’’ 1962ء کے آئین میں بھی ون یونٹ اور ملک کے دونوں حصوں میں برابری کے اصول کو برقرار رکھا گیا۔ جس سے مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے صحیح طور پر اخذ کیا کہ انہیں کمتر قرار دیا گیا ہے اور وہاں علیحدگی کی تحریک پنپنے لگی۔ مغربی پاکستان میں یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف تعصب پروان چڑھنے لگا۔پارلیمنٹ بھی ایک ایوان پر مشتمل تھی۔ بدقسمتی سے 1956ء کے آئین میں کی جانے والی غلطیوں کو 1962ء کے آئین میں بھی درست نہیں کیا گیا۔‘‘

٭ اگرتلہ سازش کیس

ایوب خان کی طرف سے بلائی جانے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے اپوزیشن نے شرط عائد کی کہ شیخ مجیب الرحمن کو، جو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار تھے اور ان پر مقدمہ چل رہا تھا، رہا کیا جائے۔ چنانچہ ایک آرڈینینس جاری کر کے شرکت ممکن بنائی گئی۔

بعدازاں حکومت کے خلاف چلنے والی بڑی تحریک اور مذاکرات کے کئی ادوار کے باعث بدقسمتی سے کیس کی کارروائی آگے نہ بڑھ سکی اور سازش کی نوعیت اور مقصد پر کوئی عدالتی فیصلہ نہ آ سکا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’کوئی عدالتی فیصلہ نہ دینے کے بجائے میں (عدالتی فیصلے کے ذریعے) بریت کو ترجیح دیتا۔ تاریخ، بالخصوص پاکستان کی تاریخ سے واضح سبق ملتا ہے کہ اگر ایک ملزم پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام لگتا ہے اور اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے، لیکن پھر کسی عدالتی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے کارروائی درمیان میں چھوڑ دی جائے تو ملزم اس کیس کی مشہوری کے ذریعے مقبولیت اور عزت حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح اگرتلہ سازش کیس نے بھی مشرقی پاکستان کی عوام کی نظر میں شیخ مجیب الرحمن کو مظلوم بنا دیا، جس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔

جبکہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے رہائی نے بھی اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمن کے قد میں اضافہ کیا۔چھ نکات کے ذریعے، جس میں زیادہ صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، مشرقی پاکستان میں مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کو اس کے غدارانہ عمل پر بھی ہیرو بنا دیا گیا۔‘‘ جنید احمد کی تصنیف (Creation of Bangladesh: Myth Exploded)کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ مجیب اور دوسرے ملزموں کے خلاف ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود، حکومت نے کیس کو خراب کیا اور پھر اسے شیخ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لینا پڑا۔

٭ پاکستان کا دولخت ہونا

ایس ایم ظفر کے مطابق، مشرقی پاکستان جو وفاق کا سب سے بڑا صوبہ تھا، اس کے وفاق سے نکل جانے کو ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ کے بجائے ’پاکستان کا دو لخت ہونا‘ کہنا درست پیرایہ اظہار ہے۔1965ء کی جنگ اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان سے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع سفارتی کوششوں اور چین کی مدد سے کیا گیا، مشرقی پاکستان کے ارکان قومی اسمبلی اور دانشور مایوس ہوئے اور انہوں نے نتیجہ نکالا کہ مشرقی پاکستان کو بغیر کسی دفاع کے ہی چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کی شکایتوں نے سیاسی صورتحال کو مزید خراب کیا اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے مطالبے نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی، جس میں علیحدگی کا امکان موجود تھا۔

جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء کے ایک سال بعد ’لیگل فریم ورک آرڈر‘ جاری کیا، آئینی اور سیاسی اہمیت کے اس مسودے میں ملک کا مستقبل محفوظ بنانے اور انتقال اقتدار کے بنیادی اصول طے کیے گئے ۔ اس میں انتخابات کے بعد ایک ایوان پر مشتمل مقننہ تجویز کی گئی ، جو سادہ اکثریت کی بنیاد پر ملک کا آئین بنائے گی۔ ون یونٹ بھی ختم کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے چار صوبے بحال کر دیے گئے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ دراصل’ ایل ایف او‘ میں بتائے گئے طریقہ کار میں شیخ مجیب الرحمن کے بڑے مطالبوں کو پورا کر دیا گیا۔

جنرل یحییٰ خان کی کابینہ میں اس نکتے پر شدید تنقید کی گئی کہ آئین سازی کے تمام معاملات سادہ اکثریت پر طے ہوں گے۔ نور خان اور جنرل حمید نے مخالفت کی کہ ایک ایوان پر مشتمل مقننہ جو آبادی کی بنیاد پر منتخب ہو گی، اس میں بنگال کے صوبے کے ارکان اکثریت میں ہوں گے، جو وفاق کے دوسرے صوبوں پر اپنا آئین مسلط کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بجا طور پر اصرار کیا کہ آئینی معاملات کے لیے خاص طریقہ کار بنایا جائے، جس میں کم از کم اسمبلی کے 60فیصد ارکان کے ووٹ ضروری ہوں۔ عوامی لیگ کے چھ نکات کے پس منظر میں کابینہ کے خدشات حقیقی تھے۔

جب شیخ مجیب الرحمن کو اس اعتراض اور ’لیگل فریم ورک آرڈر‘ میں ممکنہ تبدیلی کا پتا چلا تو اس نے گورنر ایڈمرل احسن کے ذریعے دھمکی دی کہ اگر (ایل ایف او میں) یہ تبدیلی کی گئی تو اس کا مطلب مذاکرات کا خاتمہ اور ایک مسلحہ محاذ آرائی کا آغاز ہو گا۔جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کی بات مانتے ہوئے یہ تجویز واپس لے لی۔ مصنف کے بقول، ’’یہ جنرل یحییٰ کی سادگی اور ناتجربہ کاری تھی کہ ایک باقاعدہ ملاقات میں معاملات طے کرنے اور انہیں لکھنے کے بجائے محض فرد واحد کے الفاظ پر بھروسہ کر لیا۔

جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن صرف انتخابات تک کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ جی ڈبلیو چوہدری کی کتاب (The Last days of United Pakistan)کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے، ’’شیخ مجیب کے اس بیان کا ذکر کیا جاتا ہے، جس میں اس نے اپنے قریبی رفقاء سے کہا تھا کہ اس کا واحد مقصد بنگلہ دیش کا قیام ہے۔ جنرل یحییٰ خان کو شیخ مجیب کی ایسی باتوں کی ٹیپ ریکارڈنگ فراہم کی گئی تھی، اور اس میں یہ واضح طور پر سنا جا سکتا ہے:’ میرا (شیخ مجیب کا) مقصد بنگلہ دیش کا قیام ہے۔جیسے ہی انتخابات ہو جائیں گے میں ایل ایف او پھاڑ کر پھینک دوں گا۔ جب الیکشن ہو جائیں گے، کون مجھے چیلنج کر سکے گا؟‘ ‘‘

مصنف نے بنگالی قوم پرستی، مارچ 1969ء کے بعد ہونے والی آئینی اور سیاسی پیش رفت، بھارت کی مداخلت اور غیرملکی طاقتوں کے کردار کوبنگلہ دیش کے قیام کی بڑی وجوہات قرار دیتے ہوئے ان میں سے ہر ایک پہلو کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں، ’’دو مقبول عوامی رہنماؤں کی باہمی چپقلش، جو صرف اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے، خانہ جنگی میں تبدیل ہو کر بالآخر پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوئی۔‘‘

ایس ایم ظفر کے مطابق، حمود الرحمٰن کمیشن کے دائرہ کارrences) (Terms of refمیں صرف فوجی ناکامی کی وجوہات (سیاسی نہیں) معلوم کرنا تھا۔ اگر اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد مان لی جاتی تو افواج پاکستان کو ہندوستانی فوج کے سامنے ذلت آمیز انداز میں ہتھیار نہ ڈالنے پڑتے اور 90 ہزار فوجی قیدی بھی نہ بنائے جاتے۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے عمل میں آتا اور پاکستان کو (بعد میں) بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔