کورونا، مشترکہ عالمی کاوشوں کی ضرورت

ایڈیٹوریل  جمعـء 22 مئ 2020
ترقی پذیر ممالک کو کورونا وائرس کے ساتھ غربت کا مسئلہ درپیش ہے

ترقی پذیر ممالک کو کورونا وائرس کے ساتھ غربت کا مسئلہ درپیش ہے

ترقی پذیر ممالک کو کورونا وائرس کے ساتھ غربت کا مسئلہ درپیش ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی، وزیر اعظم عمران خان نے یہ انتہائی فکر انگیز بات عالمی اقتصادی فورم میں کووڈ ایکشن پلیٹ فارم سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہی۔

ایک نہ دکھائی دینے والے وائرس نے جس طرح اقوام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے کر بے دست وپاکردیا ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، نظام زندگی مفلوج ہے اور تین لاکھ سے زائد اموات ہوچکی ہیں، یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا کوئی نہیں جانتا۔ وائرس کے خلاف جنگ میں عالمی سطح پر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس کی جانب عمران خان واضح نشاند ہی کر رہے ہیں۔ کوروناوائرس کے خلاف دنیا کے دوسو سے زائد ممالک نبرد آزما ضرورہیں لیکن ان کی کاوشیں انفرادی اور ملکی سطح پر ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کاوشیں اور پلیٹ فارم نہ ہونے کے سبب دنیا کے اربوں انسان مشکلات سے دوچار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہماری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے،کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے معیشت کا پہیہ چلانا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان درست کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں وائرس سے بچاؤ اور معیشت بحالی کے اقدامات میں توازن پیدا کرنا ہے۔

ان کے وژن کے مطابق اقوام عالم کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔ دنیا کے تمام ممالک کو اس سچ کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ انھوں نے اسلحے کی دوڑ میں شامل ہوکر، نظام صحت کو تباہی وبربادی سے دوچار کردیا ہے۔

ایک وائرس کا ترنوالہ جس طرح لاکھوں انسان بن رہے ہیں اور جدید طبی سائنس تاحال اس کا علاج دریافت کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام عالم کو اپنی سوچ، فکر اور طرز حیات کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکے، جنگی جنون کو ترک کرکے انسانیت کی بقا کے لیے شعبہ صحت پر بھرپور توجہ دینی ہوگی، اگر دنیا نے جینے کے انداز نہ بدلے، تو پھر اسی طرح کے دیگر وبائی امراض کا شکارہوکر موت کوگلے لگانا ہوگا۔ حیات انسانی چاہتے ہیں تو اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لائیں، کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد نئی دنیا تشکیل دیں جس میں انسانی اقدارکو فوقیت حاصل ہو۔

طبی ماہرین کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ دراصل انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکیا گیا ہے کیونکہ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ غربت کا مسئلہ درپیش ہے، ڈھائی کروڑ محنت کش یومیہ اجرت پرکام کرتے ہیں یا خود روزگار سے وابستہ ہیں، ان کے ساتھ بارہ سے پندرہ کروڑ مزید افراد جڑے ہوئے ہیں۔

کورونا وائرس کی قیامت خیزی اپنی جگہ، غربت کا پھیلاؤ روکنا بھی حکومت کا فرض ہے۔عالمگیر وبا سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت 100 سے زائد ترقی پذیر ممالک، عالمی بینک کی معاونت حاصل کررہے ہیں، جب کہ نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ (این ڈی آر ایم ایف)کی جانب سے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 23 منصوبوں کے لیے ساڑھے دس ارب روپے سے زائد کے فنڈز کی منظوری دیدی گئی ہے۔

ہم اگر دونوں خبروں کا لب لباب بیان کریں توکچھ یوں ہے کہ غیر ملکی مالیاتی ادارے ہم پر جس اعتماد کا اظہار کررہے ہیں وہ ہماری ملکی معیشت اور پبلک سیکٹرکے لیے نیک شگون ہے۔لاک ڈاؤن کے ہاتھوں پریشان پاکستانی قوم کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے شاپنگ مالزکھولنے کی اجازت مژدہ جانفزا ثابت ہوئی۔ ملک بھر میں شاپنگ مالزکھلے تو خریداری کے لیے عوام ٹوٹ پڑے، لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے بنائے گئے ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، مارکیٹوں میں موجود بہت کم لوگوں نے ماسک کا استعمال کیا، سماجی فاصلے کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے، جیسے کورونا وائرس کا خاتمہ ملک سے ہوگیا ہے اور لاک ڈاؤن کی اسیر قوم کو رہائی مل گئی ہے، وہ سڑکوں اور بازاروں میں نکلی آئی ہے۔

بچے، نوجوان، خواتین اور بزرگ سب شاپنگ میں مصروف ہیں۔ یہ سب ظاہرکرتا ہے کہ ہم ایک ناسمجھ قوم ہیں،جوکورونا وائرس کی تباہ کاریاں دنیا بھر میں دیکھنے کے باوجود اسے خاطر میں لانے کوتیار نہیں۔کیا پاکستانی عوام جشن مرگ انبوہ منا رہے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے ان ہم وطنوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو عید منانے سے قاصر ہیں، بے جا اسراف سے پرہیزکرتے ہوئے، ہمیں اپنے غریب اور بے روزگار ہم وطنوں کی دل کھول کر مددکرنی چاہیے تاکہ وہ بھی عیدکی خوشیوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوسکیں۔

کورونا وائرس سے تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی شاہین رضا سمیت مزید 40 افراد انتقال کرگئے۔ ملک بھرمیں کل اموات1017، جب کہ متاثرین کی تعداد48 ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔ موت کا بھیانک رقص جاری ہے، صورتحال سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہم خواب غفلت کا شکار ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ریکارڈ کورونا کیسز سامنے آگئے، ایک دن میں ریکارڈ 104 نئے پازیٹوکیسز سامنے آگئے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچے جو مختلف اداروں میں علاج، تعلیم اور بحالی کی خدمات پا رہے تھے، لاک ڈاؤن اور اداروں کی بندش نے ان سب کو گھروں میں بند کردیا ہے، جس سے حالات بگڑ رہے ہیں۔ امید کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان اداروں کی بحالی کے لیے بھی فوری طور پر احکامات جاری کرنے چاہئیں۔

ہر مشکل گھڑی میں پاک فوج ہی قوم کے کام آتی ہے، ملکی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بھی پاک فوج اپنا بھرپورکردار ادا کر رہی ہے۔ خصوصی فوجی طیارے کے ذریعے زائرین کا چوبیس رکنی وفد گلگت بلتستان پہنچ گیا ہے۔ زائرین میں سے بیس کا تعلق اسکردو جب کہ چار کا تعلق گلگت ریجن سے ہے۔ یہ زائرین تفتان میں پھنسے ہوئے تھے۔ زائرین کو آرمی چیف اور فورس کمانڈر گلگت بلتستان کی ہدایت پر واپس لایا گیا ہے، یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ پاک فوج نے ابتک550  سے زائد زائرین کو ان کے گھروں تک پہنچایا ہے۔

پاکستان ریلوے کی بحالی سے عام آدمی کو یقیناً ریلیف ملا ہے، اب عوام اپنے آبائی علاقوں میں بآسانی پہنچ کرعزیزوں اور رشتے داروں کے ساتھ عید کی خوشیاں منا سکیں گے۔ آن لائن سسٹم کے ذریعے بکنگ کرنیوالے مسافروں کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ریلوے اسٹیشنز پر موجودہ بکنگ آفس کھولنے کا فیصلہ بھی درست ہے۔ ریلوے انتظامیہ نے جو حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں ان کے تحت ماسک اور ہینڈ سینی ٹائزر کے بغیرکسی مسافرکو ٹرین میں جانے کی اجازت نہیں، سامان کی چیکنگ بھی کمپیوٹرائزڈ مشینری سے کی جا رہی ہے، پہلی بار سماجی دوری کی خلاف ورزی پر500 روپے جرمانہ، دوسری بار1ہزار روپے اور تیسری خلاف ورزی کرنے پر مسافر کو اگلے اسٹیشن پر اتار دیا جائے گا، جب کہ اسٹیشنوں سے متصل200 میٹر ایریا میں غیر ضروری افراد کے داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ تمام کوششیں اسی وقت رنگ لائیں گی جب کہ عوام ان پر سختی سے عملدرآمد کریں گے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ لاہور میں حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے پر تمام پبلک ٹرانسپورٹرز نے گاڑیاں چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ جی ٹی روڈ پرکرایوں میں20 فیصد کمی کے ساتھ تمام سیٹوں پر مسافروں کو بٹھایا جائے گا جب کہ موٹروے پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میںکرایوں میںکوئی کمی نہیںکی جائے گی اور ایک سیٹ چھوڑ کر مسافر کو بٹھایا جائے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لائق تحسین اقدامات کے سبب ذرائع آمدورفت کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں کمی ہو رہی ہے ۔

عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں غریب اور کمزور طبقات کے لیے25 ملین ڈالرکی ہنگامی امداد میں کیش ٹرانسفر بھی شامل ہے۔ اس امداد سے یقیناً ریلیف ملے گا، دوسری جانب ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہرکیا گیا کہ ملک کو پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سستی درآمدات کی وجہ سے اگر آئل ریفائنریوں نے پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار گھٹا دی تو ان مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ فوراً مسئلے کا حل تلاش کرے، ورنہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ملنے والا ریلیف اپنی افادیت، عام آدمی کے لیے کھو بیٹھے گا۔لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمام احتیاطی تدابیرکو نظر اندازکردیا جائے اور شتربے مہارکی طرح جہاں جی چاہے، وہاں چلے گئے،کورونا وائرس جھوٹ نہیں،حقیقت ہے، ہمیں اس حقیقت کے ساتھ جینے کا ہنرسیکھنا ضروری ہے۔ عوام جب تک حکومت کے ساتھ مکمل اور بھرپور تعاون نہیں کریں گے اس وقت تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

اپنی طرز فکر اور سوچ کو بدلیں۔ میڈیا میں جو آگاہی مہم جاری ہے، اس پر عمل کرنا عوام کی ذمے داری ہے۔ یاد رکھیں ایک طرف زندگی جیسی پیاری اور قیمتی شئے ہے اور دوسری جانب بھیانک موت۔ فطری سی بات ہے کہ ہم سب اپنے لیے زندگی کا انتخاب کریں گے، ہمیں اپنی زندگی کو بچانے کے لیے حفاظتی تدابیرکو نظراندازکرنے کی روش کو ترک کرنا پڑے گا، لاپروائی اور غفلت کا چلن ہمیں لے ڈوبے گا جب کہ احتیاط کا دامن تھامنے سے ہم اس وبائی مرض سے بچ جائیں گے۔حرف آخر گلوبل ویلیج معاشی اور اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، دنیا کے شہ دماغوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے انسانیت کی بقا کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر جنگ لڑسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔