قبلہ اول کی آزادی کا خواب

عینی نیازی  جمعـء 22 مئ 2020

فلسطینی قوم کو ہجرت اور جلا وطنی کا دکھ اٹھاتے عر صہ گزر چکا ،صدیوںسے اپنی سر زمین پر رہنے والوں کو بھگوڑے قرار دیا گیا ۔ یہ جنگ جس کا بارصرف فلسطینی اٹھا ئے خانماں بر باد ہیں، امن کے علم بردار وں کے ہاتھ بندھے ہیں، زبان پر قفل لگے ہیں جو دنیا کے کسی کونے میں یہودیوں پر گزرنے والے حادثے پر مضطرب ہو جا تے ہیں مگر اسرائیل کے روارکھے ظلم پر کیوں بے چین نہیں ہو تے؟ کیوں انسانیت نہیں جا گتی؟ قبلہ اول سے مسلمانوں کی بے دخلی ایک چھوٹی سی ریاست کے ہاتھوں ہونا،اس بات کا غماز ہے کہ ہم مسلمان اقوام عالم میں کس قدر بے بس وکمزور ہیں۔

ہر مسلمان کی طرح میں نے بھی  اس خواب کو دل میں جگہ دی کہ کبھی اس کی زیا رت ضرور ہو گی، قبلہ اول ایک دن اسلا می مرکز کا روشن ستارہ ضرور بنے گا ا س میںپنج وقتہ اذانیں اور نماز کا رو ح پرور نظارہ بھی ہوگا لیکن آج جب انٹر نیٹ پر اس مسجد کی شکستہ دیواریں جگہ جگہ کھدائی کی ہو ئی حالت دیکھتی ہو ں تو بے حد دکھ ہو تا ہے۔

خا ص کر دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں مسلما نوں کے ہو تے ہوئے اس مسجد کی یہ حالت ہم سب کے لیے با عث شر مندگی و ندامت اور لمحہ فکریہ ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر آف انسانی حقوق میں بھی تما م انسانوں کو اپنی عبا دت گا ہو ں میں عبادت کی کھلی آزادی ہے مگر فلسطین کی سر زمین پر مسلمانوں کے حقوق کی پا مالی کی جنگ شروع ہوئے ایک صدی کا عرصہ گذر گیا ۔

بیت المقدس تا ریخی اعتبا ر سے انبیاء کرام اور پیغمبروں کی سر زمین کہلا تی ہے ساری دنیا کے مسلمانوں کی اولین قبلہ گا ہ رہی ہے مسجد اقصٰی کی روحانیت اس کے دامن میں بنی بیت الصخرہ ایک خوبصورت سنہرے گنبد اور اسلا می فن تعمیر کا اعلیٰ شاہکار مسجد ہے فلسطین جو یہو دیوں ، عیسا ئیوں اور مسلما نوں تینوں کے لیے مقدس سر زمین کی حیثیت رکھتا ہے جس میں حضرت سلیما ن کی تعمیر کر دہ معبد ہیںجو بنی اسرا ئیل کے نبیوں کا قبلہ سمجھا جا تا ہے یہی شہر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی جا ئے ولا دت ہے، انھوں نے اپنی تبلیغ کا مر کز بھی اسی شہر کو بنا ئے رکھا ہم مسلما نو ںکا عقیدہ ہے کہ چٹان سے نیچے معراج کی رات ہما رے پیارے نبیﷺ حضرت جبرا ئیل امین  کے ہمراہ  براق پر سوار ہو کر آسمان پر گئے جہا ں اللہ سبحان وتعا لیٰ نے انھیں نماز کا تحفہ عنا یت فرما یا مسلما نوں نے قبلہ کی تبدیلی سے پہلے تک اسی طرف رخ کر کے نما ز یں ادا کی۔

2 ھجری 624 ء ھجری تک یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ، بیت المقدس جسے القدس بھی کہتے ہیں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان کے بھتیجے حضرت لو ط علیہ اسلا م نے عراق سے ہجرت کر نے کے بعد یہاں بیت المقدس کی تعمیر کی حضرت یعقوب علیہ اسلا م نے وحی الہیٰ کے حکم سے مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) کی بنیاد ڈالی، جب نبی کر یم ﷺ معراج کو جا تے ہو ئے بیت الصخرہ پر پہنچے تو وہا ں نہ کو ئی مسجد تھی نہ کو ئی ہیکل تھا اس لیے قرآن مجید میں اس جگہ کو مسجد اقصیٰ کہا گیا۔ 17ھجری630ء میں عہد فاروقی ؓمیں بیت المقدس پرمسلما نوں کا قبضہ ہوا تو اس علا قے کو صاف کیا گیا وہا ں ایک چٹان نظر آئی اس چٹان کے ساتھ ایک مسجد بنائی گئی جو مسجدا قصیٰ کہلائی۔ خلیفہ عبدالمالک بن مروان کے عہد میں 685 ء میں 691 ء کے درمیا ں کثیر سر ما ئے سے چٹان کے اوپر صخرہ معراج پر قبلہ الصخرہ تعمیر کیا گیا جو اس وقت کے فن تعمیر کا اعلیٰ نمو نہ تھی یہ ہشت پہلو عمارت پچھلی تیرہ صدیوں سے دنیا کی خو بصور ت ترین عمارتوں میں شمار کی جا تی ہے ۔

1099 پہلی صلیبی جنگوں کے مو قع پر یو رپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا 1187 میں سلطا ن صلا ح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو دوبا رہ عیسا ئیوں کے قبضے سے چھڑا لیا ۔پہلی جنگ عظیم د سمبر1917میں جنرل اسمبلی نے دھا ندلی سے کا م لے کر فلسطین عربوں اور یہو دیوں میں تقسیم کر دیا اس کے نتیجے میں 78 فی صد علاقے پر اسرائیل قابض ہو گیا تیسری عرب اسرائیل جنگ جون  1967میں اسر ئیلیوں نے بقیہ فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا یہ امریکا اور بر طا نیہ ہی تھے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے اسرا ئیلیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش میں پیش پیش رہے اور فلسطینی عوا م کو ان کی زمین سے بے دخل کر نے میں ہر طر یقہ کی تعاون اور مد د اسرائیل کو دیتے رہے۔

برطا نیہ کی اسی شہ کی بنا ء پر فلسطینی مسلما ن اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی زندگی گز ارنے پر مجبو رہیں ۔ 1948 میں فلسطینی سر زمین پر اسرا ئیل نے اپنی ریا ست بنانے کا اعلان کیاتو امر یکا اور بر طا نیہ نے بھر پور تعاون کیا۔ بر طا نیہ کے اسی تعا ون کی وجہ سے اسے ’’اسرئیل کا خنجر ‘‘ کے خطا ب سے بھی نو ازا گیا۔ برطانیہ میں قائم ہونے وا لی ہر حکو مت نے فلسطین اسرا ئیل مسئلہ کو حل کر نے کا دعو یٰ بڑے زورشورسے کیے مگر عملی ا قدما ت پر عمل کبھی نہیں کیا گیا، اسرا ئیل کی ہرظا لما نہ کا رروا ئی کو نظر اندا زکر نے کی پا لیسی نے اس قدر دلیر بنا دیاہے کہ اس کا جب جی چا ہتا ہے نہتے فلسطینیوںپر بکتر بند ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کا پٹروں سے گولیوں کی بو چھا ڑ کر دیتا ہے، ہم آئے دن ان کی بربریت کامنہ بولتاثبوت فلسطینی شہید بچوں، نوجوانوں اور روتی التجا کرتی ماؤںکی صورت میں میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں مسلما نوں کو نمازپڑھنے کی اجازت نہیں۔

جب تک پوری امت مسلمہ اسرا ئیل کے خلاف متحد ہو کر فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیتی اس وقت تک اسر ائیل کے ظلم کم ہو نے والے نہیں القدس منانے کا مقصد بھی یہی ہے۔اسرائیل نے معا ہدہ کیمپ ڈیوڈ اور معا ہدہ اوسلو کے تحت مذاکرات میں آزاد فلسطینی ریا ست کے حق کو تسلیم کیا تھا وہ اب منکر ہے دیگرممالک کے شرکا ء میں برطانیہ اور امریکا شامل تھے جنھوں نے اس معاہدے کی رضا مندی دی تھی لیکن یہ ممالک بھی خاموشی اختیار کیے ہو ئے ہیں۔ قبلہ اول کی آزادی سلب ہو ئے مدت ہو ئی فلسطین نے آزادی کے لیے ایک طویل جنگ لڑی نقل مکا نی کیے کئی عشرے گذر گئے وہ کیمپوںمیں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پوری امت مسلمہ کو اپنی ذمے داری کا احساس کر تے ہو ئے قبلہ اول کو ان کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے متحد ہو کر نتیجہ خیز اقدامات کرنے ہوں گے۔ تما م عالم اسلام کے مسلمانوں کو اسرائیل کی غاصبا نہ قبضے سے رہائی دلانے کے لیے متحدہو ناپڑے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔