مَوتُ العالِم مَوتُ العالَم ؛ خطیبِ اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ 

فوٹو: رائٹرز / فائل

فوٹو: رائٹرز / فائل

خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ نے اُس دور میں لاہور میں خطابت کا آغاز کیا جب شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒحیات تھے اور مولانا محمد اجمل خان کو ان کی بھرپور شفقت اور رہنمائی میسر تھی۔ مولانا محمد اجمل خان کا شمار اپنے دور کے بڑے خطیبوں میں ہوتا تھا اور انہیں خطیب اسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ خطیب اسلام کا لقب سب سے پہلے حضرت ثابت بن قیس انصاریؓ کے لیے استعمال ہوا تھا جو جناب نبی اکرمؐ کے نمائندہ خطیب کی حیثیت سے مختلف محافل میں شریک ہوا کرتے تھے۔

انہیں خطیب الانصار اور خطیب رسول کریمؐ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا تھا اور سب سے پہلے انہی کو خطیب الاسلام کا لقب ملا۔ اس کے بعد ہر دور میں متعدد بڑے بڑے خطباء کو اس لقب سے یاد کیا جاتا رہا جبکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران پاکستان میں اس لقب کے ساتھ سب سے زیادہ معروف ہونے والے بزرگ مولانا محمد اجمل خانؒ تھے۔

مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت میں جوش و جذبہ کے ساتھ وافر معلومات اور علمی نکات بھی ہوتے تھے۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت جابر بن عبداﷲؓ نے جناب نبی اکرمؐ کی خطابت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ جب خطاب فرماتے تو آپؐ کی آواز بلند ہو جاتی تھی، سخت غصّے کی کیفیت میں نظر آتے اور آنکھیں سُرخ ہوجایا کرتی تھیں۔ مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت میں بھی اکثر اوقات اسی کیفیت کی جھلک نظر آیا کرتی تھی۔ جوانی کے دور میں پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ تین تین چار چار گھنٹے مسلسل بولتے چلے جاتے تھے۔

حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے ایک بار میرے سامنے مولانا محمد اجمل خانؒ سے کہا کہ اتنے زور سے نہ بولا کریں، بڑھاپے میں تنگ ہوں گے اور پھیپھڑے جواب دے جائیں گے۔ مگر جوانی کے جوش اور حق گوئی کے جذبے میں مولانا محمد اجمل خانؒ اس خطرے کو پوری طرح محسوس نہ کرسکے اور ان کا انداز خطابت جوش و جذبے کی پوری جولانیوں کے ساتھ مسلسل جاری رہا۔

مولانا محمد اجملؒ ساری زندگی جمعیت علمائے اسلام میں رہے، جمعیت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور وفات کے وقت انہیں جمعیت کے سرپرست اعلی اور بزرگ رہنما کا مقام حاصل تھا۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے بعد انہوں نے حضرت مولانا محمد عبداﷲ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی رفاقت میں سالہا سال تک کام کیا اور دینی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور مختلف اضلاع میں داخلہ کی پابندیوں اور زبان بندیوں کے ایک طویل سلسلہ کا ہدف بھی رہے۔

لیکن جب انہیں کسی متعین موضوع پر بولنے کے لیے کہا جاتا یا علماء اور کارکنوں کی کوئی خصوصی نشست ہوتی تو ان کا انداز مختلف ہوجاتا تھا اور وہ معلومات کا ایسا انبار لگا دیتے کہ سننے والوں کے لیے ان معلومات کو سمیٹنا مشکل ہوجاتا۔ مولانا محمد اجمل خانؒ کے ساتھ میرا تعلق کم و بیش تیس برس سے تھا۔ وہ میرے مشفق اور دعاگو بزرگ تھے کہ ہمیشہ شفقت اور دعاؤں سے نوازتے۔ وہ جماعتی کاموں میں سرپرستی فرماتے اور مجھے ان کے ساتھ ایک کارکن کے طور پر کوئی خدمت سر انجام دے کر دلی خوشی میّسر آتی۔ مجھے ان کی تین باتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔

ایک ان کا مطالعہ، علمی نکات اور وسعت معلومات کہ وہ مسلسل اور بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے خطیب تھے۔ ان کے عمومی خطابات سننے والوں کو اس کا پوری طرح اندازہ نہیں ہو سکتا، لیکن خصوصی مجالس اور علمی نشستوں میں ان کے بیانات سننے والے جانتے ہیں کہ مطالعہ، معلومات اور علمی نکات میں انہیں اپنے معاصر خطباء پر فوقیت حاصل تھی۔ ہمارے دور میں عوامی خطباء میں مطالعہ و تحقیق اور صحیح معلومات تک رسائی کا ذوق بہت کم ہے جو بدقسمتی سے مزید کم ہوتا جارہا ہے۔ مگر حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کا ذوق بہت بلند تھا اور میں اس حوالے سے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ اور خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے ساتھ اسی صف میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو بھی شمار کرتا ہوں۔

دوسری بات ان کی نیکی اور تقوی تھا۔ وہ مزاج کی بعض نزاکتوں کے باوجود قناعت پسند بزرگ تھے۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ دین و جماعتی ترجیحات رہیں اور انہوں نے خطابت کے اس اعلی مقام کو کبھی دنیوی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ کم و بیش چار عشروں تک خطابت کی دنیا میں حکمرانی کرنے کے بعد بھی ان کا جنازہ مسجد کے مکان سے اٹھا۔ وہ شب زندہ دار تھے اور صرف اسٹیج کے نہیں بلکہ مصلیٰ اور ذکر و فکر کی دنیا کے بھی بزرگ تھے۔

تیسری بات ان کی حمیت و غیرت کی ہے کہ وہ دینی شعائر اور اپنے بزرگوں کے حوالے سے سخت غیور تھے۔ دینی شعائر اور اپنے بزرگوں کی ادنی سی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے اور ایسے وقت میں ان کا غصہ اور جوش قابل دید ہوتا تھا۔ بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا دور تھا، لاہور میں مارشل لاء نافذ تھا اور پاکستان قومی اتحاد کی مرکزی جنرل کونسل پی این اے ہاؤس میں اپنا اجلاس منعقد کرنے پر مارشل لاء کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہوگئی تھی۔ ان میں میاں محمود علی قصوری مرحوم، اقبال احمد خان مرحوم، ملک محمد اکبر ساقی مرحوم، جناب محمد اسلم سلیمی مرحوم، فرید پراچہ اور پچاس سے زائد دیگر رہنماؤں کے ساتھ مولانا محمد اجمل خان مرحوم اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔

کیمپ جیل لاہور میں آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ قائم ہوئی جس میں کرنل نصیر احمد ہمارے مقدمہ کی سماعت کرتے تھے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک پولیس افسر نے گواہی دیتے ہوئے تھانہ کے روزنامچہ کے بارے میں یہ جملہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے تو یہ قرآن کریم کی طرح ہے۔ یہ جملہ سنتے ہی مولانا محمد اجمل خان بے تابی سے اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس پولیس افسر نے قرآن کریم کی توہین کی ہے اس کو روکا جائے اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کرنل نصیر احمد نے بہت توجہ دلانے کی کوشش کی کہ آپ عدالت میں کھڑے ہیں مگر مولانا محمد اجمل خانؒ کے جوش و جذبہ میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ وہ بدستور کھڑے رہے اور پکارتے رہے کہ اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کے بغیر وہ نہیں بیٹھیں گے اور عدالت کا معاملہ آگے نہیں چلے گا۔

تھوڑی دیر میں عدالت جلسہ گاہ کی صورت اختیار کر چکی تھی، مولانا محمد اجمل خان نے عظمت قرآن کریم پر چند جملے اس انداز سے کہے کہ عدالت میں کہرام مچ گیا، رونے اور سسکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، کچھ نوجوانوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر دیواروں سے سر ٹکرانا شروع کر دیے جس پر کرنل موصوف کو مذکورہ افسر کے خلاف کارروائی کے وعدے کے ساتھ عدالت فوری طور پر برخاست کرنا پڑی کہ اس کے بعد عدالتی کارروائی آگے نہ چل سکی۔ اس کے ایک دو روز کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے مارشل لاء کو خلاف دستور قرار دے کر ہم سب کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

عوام کا خطیب جیل کا بھی خطیب بنا۔ جیل میں جمعہ کے اجتماع میں بھی بیان ہوتا اور وہاں بھی کلمۂ حق کہتے رہے۔ اس کے بعد چلنے والی تحریکات میں بھی حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ نمایاں رہے۔ تحریکی شخصیت آخری وقت تک تحریکی شخصیت رہی۔ بستر علالت پر بھی کارکنوں سے دین اسلام کی سر بلندی، تحفظ ختم نبوّت اور جمعیت کے پلیٹ فارم سے کام کرتے رہنے کا عہد و پیمان لیتے رہے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ نے بڑی بڑی پیشکشوں کو ٹھکرایا اور اپنے اکابر کی روایات کے امین بنے رہے۔

ہر دور میں پیشکشیں بھی ہوتی رہیں اور انکار کی روایت بھی زندہ رہی۔ مولانا محمد اجمل خانؒ اپنے دور کے ایک نیک دل، حق گو، اور غیور عالم دین تھے جنہوں نے زندگی بھر حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ اب وہ اﷲ تعالی کے حضور پیش ہوگئے ہیں، اﷲ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے، اور ان کے پسماندگان اور متوسلین بالخصوص ان کے جانشین مولانا محمد امجد خان کو ان کی دینی جدوجہد اور جذبہ و حمیت کی روایات کو زندہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین یارب العالمین۔ لاہور میں آپ کا تاریخی جنازہ ہوا اور ہری پور میں بھی آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔