عیدی کی روایت

آصف محمود  اتوار 24 مئ 2020
وقت گزرنے کے ساتھ عیدی دینے کے انداز میں تبدیلی آئی ہے لیکن یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وقت گزرنے کے ساتھ عیدی دینے کے انداز میں تبدیلی آئی ہے لیکن یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زینب آج بہت خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آج اسے اپنی دادای کے ساتھ۔ پھوپھو کو عیدی دینے جانا تھا۔ عیدی کا سارا سامان آچکا تھا، جس میں چینی، صابن، چائے کی پتی، سویاں، شکر، مختلف قسم کی دالیں، چاول، مٹھائی اور ساتھ میں پھوپھو، ان کے شوہر اور بیٹے کےلیے نئے کپڑے تھے۔ دادی نے تمام سامان پیک کروا لیا تھا۔ یہ چیزیں گزشتہ روز ہی آگئی تھیں اور آج ایک بار پھر سب سامان چیک کرلیا گیا تھا کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی۔

زینب کی عمر ابھی 10 سال ہوگی۔ اسے پھوپھو کی عیدی کے بجائے وہاں جانے کی زیادہ خوشی تھی، کیونکہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول بھی بند تھے اور اس دوران نہ ہی تو وہ کہیں سیروتفریح کےلیے جاسکی تھی اورنہ ہی رشتے داروں کے ہاں جانے کی اجازت تھی۔ اتنے دن گھر میں بند رہ کر وہ اکتا چکی تھی۔ اس لیے خوش تھی کہ چلو اس بہانے گھر سے باہر جانے کا موقع مل رہا ہے۔ عیدی کا سارا سامان ٹیبل پر رکھا تھا۔ اپنی دادی کے پاس بیٹھی زینب نے اچانک سوال پوچھ لیا۔ امی کیا پھوپھو کے گاؤں میں یہ چیزیں نہیں ملتیں جو ہم لے کر جارہے ہیں؟ دادی مسکرائیں اور بولیں ’’نہیں میری چندہ۔ وہاں یہ سب چیزیں مل جاتی ہیں۔ یہ تو ایک رسم ہے عید پر بیٹیوں کو عیدی دینے کی‘‘۔ اس سامان کے ساتھ کچھ نقد رقم بھی تھی جو زینب کے والد نے دی تھی اپنی بہن کی عیدی کےلیے۔ دادی نے انہیں کہا تھا کہ وہ ساتھ چلیں مگر انہوں نے اپنی جگہ اپنی بیٹی کو بھیج دیا اور پھر یہ لوگ عیدی لے کر روانہ ہوگئے۔

پاکستانی معاشرے میں عید پر بیٹیوں اور بہنوں کو عیدی دینے کی روایت برسوں پرانی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عیدی دینے کے انداز میں تبدیلی آئی ہے لیکن یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ اب زیادہ تر لوگ سویاں، مٹھائی اور ساتھ میں نقد رقم عیدی کے طور پر دیتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں خود پندرہ، سولہ برس کا تھا تو اپنی پھوپھو کو عیدی دینے جاتا تھا۔ میری دو پھوپھو ہیں۔ بڑی پھوپھو کا گھر تو ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہے۔ انہوں نے ہمیں دادی بن کر پالا ہے، کیونکہ ہماری دادی میرے ابو کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔ چار بہن بھائیوں میں میرے والد سب سے چھوٹے تھے۔ دوسری پھوپھو سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں رہتی ہیں۔ انہیں عید دینے جانے کی زیادہ خوشی ہوتی تھی۔ لاہور سے ان کےلیے عید کا سامان لے کر جاتے، پھر دو تین دن وہاں قیام، گاؤں کے ماحول میں دن گزارنے کا موقع ملتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ واپسی پر پھوپھو بھی خالی ہاتھ نہیں آنے دیتی تھیں۔ وہ بھی پیسے اور کپڑے دیتی تھیں۔

بزرگ کہتے ہیں بہنیں اور بیٹیاں عید پر دیے جانے والے سامان اور پیسوں کی بھوکی نہیں ہوتیں۔ عیدی پر دیا جانے والا سامان ایک ہفتے میں ختم ہوجائے گا، جبکہ دو، چار ہزار روپے ملنے سے بھی وہ کوئی محل نہیں بنالیں گی۔ انھیں یہ سب کچھ نہیں ملے گا تب بھی وہ اف تک نہیں کہیں گی لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب انھیں سسرال میں اپنی ساس، نندوں اور کسی دیورانی کی طرف سے طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ اس کے ماں باپ اور بھائیوں نے عید تک نہیں دی ہے۔ تب بیٹیوں اور بہنوں کا دل ٹوٹ جاتا ہے، وہ اندر سے ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ اس لیے جب بھی عید اور کوئی خوشی کا موقع آئے، اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا کیجئے۔

ہمارے نبی کریمؐ کی کوئی بہن نہیں تھیں۔ شیما بنت حارث حلیمہ سعدیہ کی بیٹی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضاعی بہن تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن آپ کے ساتھ گزرا۔ ایک جنگ کے دوران شیما اور ان کے قبیلے کے لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا تو انہوں نے کہا میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ مسلمان ان کو شناخت کےلیے بارگاہ نبوت میں لائے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور پھر کچھ اونٹ اور بکریاں ان کو دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچادی گئیں۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں مدینے سے باہر تک چھوڑنے گئے۔

اس لیے بہنوں اور بیٹیوں کو جب بھی موقع ملے کچھ نہ کچھ تحفہ دیتے رہیں۔ ہمارے یہاں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بیٹیاں اور بہنیں اگر وراثتی جائیداد میں سے اپنا حصہ مانگ لیں تو پھر ان کے ساتھ بھائیوں کے تمام رشے ناتے ختم ہوجاتے ہیں۔ بھائی ناراض ہوجاتے ہیں، جبکہ اکثر اوقات والد اپنی زندگی میں ہی جائیداد بیٹوں کے نام کر دیتے ہیں اور بیٹیوں سے انگوٹھے لگوا لیے جاتے ہیں۔ اور جو بیٹیاں اور بہنیں اپنا حق نہیں مانگتیں، انہیں ان کے بھائی عیدی دیتے رہتے ہیں۔ خود ہماری والدہ کو آج بھی، جب وہ خود پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں والی ہیں، انہیں ان کی والدہ (ناناجی فوت ہوچکے ہیں) اور دونوں ماموں الگ الگ عیدی دیتے ہیں۔ جب عیدی ملتی ہے تو ہماری والدہ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ان پیسوں کی کوئی قدر نہیں، اصل بات چاہت اور محبت کی ہے جو عیدی کی شکل میں ہمارے والدین اور بھائی ہمارے ساتھ اظہار کرتے ہیں۔

عید پر گھر میں موجود بہنوں اور بیٹیوں کو عید کی زیادہ خوشی ہوتی ہے، کیونکہ ایک تو انہوں نے عید کےلیے نئے کپڑے، جوتے، دیگر سامان خریدنا ہوتا ہے، اور عید والے دن عیدی الگ سے لینی ہوتی ہے۔ پہلے سے پلاننگ شروع ہوجاتی ہے کہ والد سے کتنی عیدی لینی ہے، چاچا اور تایا سے کتنی عیدی ملے گی۔ دادا، دادی اور نانا، نانی کتنی عیدی دیں گے؟ یہ سب حساب کتاب لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔

میری اس حوالے سے گزارش یہی ہے کہ عید پر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو چاہے پانچ سو روپے ہی کیوں نہ ہوں، عیدی ضرور دیں۔ اس سے وہ کوئی محل تیار نہیں کرلیں گی البتہ آپ کو اور آپ کے بچوں کےلیے جھولی اٹھا کر دعا ضرور کریں گی کہ اللہ پاک میرے بھائی کو لمبی زندگی عطا فرما اور اس کے مال ودولت میں برکت عطا کر۔ اور کہتے ہیں کہ پروردگار بہنوں اور بیٹیوں کے دل سے نکلی دعائیں بڑی جلدی سنتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔