دشتِ تنہائی

جاوید قاضی  اتوار 24 مئ 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کتنی ٹھہری سی ہے زندگی، کہاں گیا شور وغل، وہ تیزی، آنا جانا، ملنا ملانا یوں لگتا ہے کسی نے کہیں نظر بند کر دیا ہو، یہ دشت تنہائی تو ہے یہ وہ قرنطینہ نہیں جو چودھویں صدی میں تھا جب لندن میں وبا پھیلی تھی۔

دنیا سے میرا رابطہ ہے، موسیقی ہے، فلمیں ہیں، ہم تمام بھائی بہن بھلے ہی دنیا کے مختلف کونوں میں رہتے ہوں مگر ایک دوسرے کو بلکہ سب ایک ساتھ ہو کر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک دوسرے کو محسوس کر سکتے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ ہم نے واٹس اپ گروپس بنائے ہوئے ہیں۔ یاروں کے، خاندان والوں کے، وہ لوگ جو دفتر میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں ان سب کے۔

یوں لگتا ہے خود سے ملاقات کی اس سے پہلے کبھی فرصت نہ تھی اور اب زندگی کے ٹھیک پچاس سال بعد آپ کی خود اپنے آپ سے ملاقات ہو گئی۔ اور اب یہ ملاقات خوب جمے گی، جس کا مزا ہی اپنا ہے۔ رمضان آیا، روزے رکھے، بچوں کے ساتھ سحری اور افطاری کی پھر سب الگ الگ جیسے اپنے گھونسلوں میں چلے گئے، پھر میں اور میری تنہائی تھی۔ استاد بڑے غلام علی کی آواز، بیگم اختری کی ٹھمری تھی۔ غالب اور فیض کی میری بزم میں آمد تھی۔

پوری تاریخ کے ورق تھے، جو کھل گئے۔ بہت سی ڈاکیومینٹریز دیکھیں جو شاید میں ایک سال میں بھی نہ دیکھ سکا۔ ان ساٹھ دنوں کی قرنطینہ میں صرف دس بار گھر سے باہر نکلا ہوں وہ بھی اس لیے کہ پیشے سے وکیل ہوں اور میرے کلائینٹ جو جیلوں میں پڑے ہیں کہ کہیں سے ان کی رہائی ہو جائے۔ باقی گھر اور میں۔

دیکھا جائے تو یہ قرنطینہ بھی نہیں۔ مرزا غالب اس دشت تنہائی میں رہتے تھے۔ اور پھر اسی تنہائی میں ان کو غیب سے طرح طرح کے مضامین خیالوں میں اترتے تھے۔ دوستو وسکی نے جو ناول لکھے وہ بھی اسی طرح لکھے تھے۔ رومی کی مثنوی میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ بدنصیب ہیں جن کو اپنی خلوت سجانی نہیں آتی۔

ہم وکیل لوگ اگر صحیح معنوں میں وکیل ہیں تو ہمیں تحقیق کا بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ لائبریری، عدالت اور پھر چیمبر میں وقت یوں گزر جاتا ہے کہ بار میں بیٹھنے کا وقت بھی نہیں ملتا ۔ مگر پھر بھی یہ کام ایسا کام ہے جس میں جمالیات سے رشتہ کم ہی جڑتا ہے ۔ سوچتا ہوں آرٹ اور ادب نہ ہوتا، موسیقی نہ ہوتی، محبت کی داستا نیں، قصے و کہانیاں نہ ہوتے تو زندگی کتنی پھیکی ہوتی۔

ہم میں بہت ہیں ایسے جن کو اپنی خلوت سجانا نہیں آتی، کچھ ہیں جو کورونا سے پہلے بھی ایسے ہی تھے اور کورونا کے دنوں میں بھی۔ اور کچھ میرے جیسے بھی ہیں جن پر کورونا نے زندگی کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ یہ سارے صوفی جو جنگلوں میں چلے جاتے تھے، مراقبے میں چلے جاتے تھے۔ ان پر ہی آمد ہوتی تھی، کارل مارکس نے اپنی زندگی کے بہت زمانے لندن لائبریری میں بتا دیے۔

ان دنوں میں چلا گیا اپنے اس انقلاب کے دھندلے عکس میں جہاں میں نے اپنی پوری جوانی گزار دی۔ میں ان زمانوں میں تاریخ کا شاگرد تو تھا مگر تاریخ کو سمجھنا تب آیا جب بحیثیت وکیل میری ٹڑیننگ ہوئی کہ حقائق کیا ہوتے ہیں، کیوں کہ قانون صرف حقائق پڑھتا ہے۔ کورٹ قانون کی تشریح سے پہلے حقائق کو پرکھتی ہے۔یہ لینن، اسٹالن، ٹراٹسکی نے جو کا رل مارکس کے فلسفے کی حقیقتوں پر بیٹھ کر تشریح کی تھی، یہ تو کارل مارکس نے نہیں کہا تھا۔

مارکس نے کب کہا تھا کہ پرولتاریہ انقلاب روس جیسے پسماندہ سماج میں آئے گا، زرعی اقدار کا سماج۔ اس نے انقلاب کے لیے صنعت یافتہ ریاست کا انتخاب کیا تھا۔ انقلاب اس وقت جرمنی میں بھی پروان چڑھ چکا تھا مگر جرمنی کی ریاست مضبوط تھی۔ بادشاہ کا خاندان اور دربار ٹوٹ پھو ٹ کا شکار نہ تھے اس کے باوجود بھی کہ جرمنی پھر جنگ عظیم میں تیزی سے شامل ہو چکا تھا۔

انقلاب لینن یا بالشویک نہیں لائے تھے۔ انقلاب تو خود زار لائے تھے۔ نکولس دوم کو بادشاہت کرنا نہ آئی۔ پچیس سال کی عمر میں باپ کے مرنے کے بعد تخت پر بیٹھا۔ دادا الیگزینڈر (دوم) 1881 میں مارے گئے ۔مارنے والوں میں لینن کا بھائی بھی شامل تھا یہ اس وقت کا انارکسٹ سوشلسٹ انقلابی تھا۔ لینن کے اس بھائی کو سزائے موت ہوئی تھی۔

روس کو بنانے والا پیٹر دوم گریٹ تھا اس سے پہلے روس پسماندہ تھا۔ ترکوں اور منگولوں کے براہ راست حملوں کی زد میں تھا۔ 1613 میں رومانوی خاندان روس کا حکمراں بنا اور 1717 میں بالشویک انقلاب تک یہ خاندان تین سو سال تک روس پر حکومت کرتا رہا۔

پیٹر دی گریٹ ماڈرن روس کا تخلیق کار تھا۔ اس نے اپنی پہلے بیٹے کو نالائق پایا اس کے حوالے سلطنت نہ کی بلکہ اسے مروا بھی دیا کہ کہیں یہ عظیم روس کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ پیٹر دی گریٹ یورپ میں عام آدمی بن کر گھومتا تھا۔ نیوٹن سے ملا۔ بحریہ فوج بنائی، شاہکار عمارتیں بنوائیں اور بہت سے تخلیقی کام کیے۔

انیسویں صدی میں روس بہت ماڈرن تو ہو گیا مگر اس کے بادشاہ اصلاحات نہ لا سکے۔جب کہ یورپ کی دوسری بادشاہتیں آہستہ آہستہ سیاسی و تخلیقی اصلاحات لا رہی تھیں، دوسری طرف پورے یورپ میں مارکسز خیالات جڑ پکڑ رہے تھے اور اس طرح یہ روس کے انقلابیوں کے ہاتھ میں آگیا۔

1881 میں الیگزینڈر (سوم) تخت پر بیٹھا جو والد نے سیاسی اصلاحات کی تھیں وہ بھی واپس لے لیں۔ یہ روس کے آخری زار بادشاہ ثابت ہوئے۔۔ چار بیٹیاں پیدا ہوئیں لیکن تخت کا وارث پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ جب بیٹا ہوا تو اس کو شدید بیماری لاحق تھی ۔

1905ء میں جاپان سے جنگ میں شکست ہوئی۔ ادھر انقلابیوں نے جن کی قیادت ٹراٹسکی کر رہا تھا گھیرا تنگ کیا۔ پھر پارلیمینٹ بنائی تو اسے اختیارات نہیں دیے۔ اسطرح پہلی جنگ عظیم میں جرمنی سے بھی ٹکراؤ میں آئے روس بہت کمزور ہوا۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے۔ بالشویک نے خانہ جنگی تیز کر دی، اندرونی حالات مزید بگڑ گئے۔ بھوک و افلاس ، غربت، بیروزگاری نے ایندھن کا کام کیا۔ اور اس طرح جرمنی کے ساتھ جنگ کے دوران اقتدار لینن ٹراٹسکی اور اسٹالن کے ہاتھوں میں آیا۔

بہت خون خرابہ ہوا۔ دہشت پھیلائی گئی، وہ تمام لوگ مارے گئے جو بالشویک سے اختلاف رکھتے تھے۔ انقلاب کے ایک سال بعد نکولس بادشاہ، بیوی، چار بیٹیاں اور چھوٹا بیٹا فائرنگ اسکواڈ سے مروا دیے گئے۔ یونیورسٹی پروفیسرز یا جو بھی دانشور ذہن یا سوچ انقلاب سے اختلاف رکھتے یا تو ان کو مروا دیا جاتا یا پھر جلا وطن کر دیا جاتا۔ دوسری طرف تھے ٹراٹسکی جو اس دہشت کے ساتھ انارکی پھیلاتے پھیلاتے پوری دنیا میں ایک بعد دوسرے ملک میں انقلاب برپا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

لینن پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اور کچھ ہی سال میں موت واقع ہو گئی۔ ٹراٹسکی کے دفتر اس کی مسلسل چلتی ریل گاڑی میں تھے وہ ریڈ آرمی کا سپہ سالار تھا۔ ماسکو میں اسٹالن نے اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ لینن کے زمانے میں ہی اسٹالن نے اقتدار پر قبضہ جما لیا تھا جب لینن بستر مرگ پر تھا ۔ ٹراٹسکی جو لینن کا جانشین تھا، وہ خود ایک کرخت دل رکھتا تھا، مخالفین کو کچلنے کے لیے سب سے آگے رہتا تھا۔

اس راہ پر چلتے ہوئے اسی فلسفے کا شکار ہوا۔ جلاوطن ہوا، اسٹالن نے اسے میکسیکو میں بھی نہ چھوڑا۔ پوری کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر شپ کو مروا دیا۔ اس طرح روس کو اب کمیونسٹ انقلاب کے نام پر وہ بادشاہ ملا جس کا نام اسٹالن تھا۔ پوری دنیا میں اس نظریے سے چاوسسکو اور کم ال سنگ جیسے آمر پیدا ہوئے جنہوں نے بادشاہوں کی طرح اقتدار اپنے بچوں کو منتقل کیا۔یہ کب تھا کارل مارکس کا نظریہ، دراصل کارل مارکس کے فلسفے چند پسماندہ سماج کے پسماندہ سوچ رکھنے والوں کے پاس یرغمال ہوگئے۔

کارل مارکس کا فلسفہ اب بھی بہت معنی خیز ہے ۔ جیسے جیسے دنیا آگے بڑھے گی کیپیٹلزم ناکام ہو گا۔ کارل مارکس کا فلسفہ اور سائنس اس کی جگہ لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔