فطرانہ

شیریں حیدر  اتوار 24 مئ 2020
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نماز عید کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلے تو دیکھا کہ عید کی خوشی کے باعث دمکتے چہروں کے ساتھ بچے کھیل رہے ہیں مگر ایک بچہ، جس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے اور وہ ملول تھا، ان سب سے ہٹ کر تنہا بیٹھا تھا۔ آپ ﷺ نے اس بچے کے پاس جا کر استفسار کیا کہ وہ کون تھا اور کیوں اداس اور تنہا تھا۔ اس بچے کو علم نہیں تھا کہ اس سے سوال کرنے والے کون تھے۔ اس نے بتایا کہ اس کا باپ آنحضور ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں شامل تھا اور شہید ہو چکا تھا، باپ کی شہادت کے بعد اس کی ماں نے دوسرا نکاح کر لیا تھا۔

اس کے سوتیلے باپ نے اس کا سارا مال ہڑپ کر لیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا اور اب وہ بالکل تنہا تھا۔ اس کے پاس پہننے کو نئے کپڑے تو کجا، کھانے پینے کو بھی کچھ نہ تھا اور عید کے روز ان بچوں کو خوش اور کھیلتے دیکھ کر اس کا اپنا دکھ اور محرومی زیادہ ہو گئی تھی۔ آنحضور ﷺ کو اس کی باتیں سن کر دکھ ہوا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ میں، محمد ﷺ تیرا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں، فاطمہ ؓ تمہاری بہن، علی کرم اللہ وجہ تمہارے چچا اور حسن اور حسین علیہ السلام تمہارے بھائی ہوں ؟ ‘‘

بچہ خوش ہو کر بولا، ’’ کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ!! ‘‘ آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آئے۔ اسے نہلا دھلا کرصاف کپڑے پہنائے، کھانا کھلایا۔ وہ صاف کپڑے پہن کر اور کھانا کھا کر دوبارہ باہر نکلا تو بچوں نے اسے خوش دیکھ کر سوال کیا کہ تو ابھی رو رہا تھا، اب تو خوش و خرم ہے، کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا، ’’میں بھوکا تھا، اللہ تعالی نے میرے کھانے کا انتظام کردیا، میں ننگا تھا، اللہ تعالی نے میرے لیے نئے کپڑوں کا انتظام کر دیا۔

میں لاوارث تھا، اب رسول اللہ ﷺ میرے باپ، عائشہ ؓ میری ماں ، علی کرم اللہ وجہ میرے چچا، فاطمہ ؓ میری بہن اور حسن ، حسین علیہ السلام میرے بھائی بن چکے ہیں !‘‘ صرف اسی روز ہی نہیں بلکہ یہ لڑکا ہمیشہ، آنحضور ﷺ کے زیر کفالت رہا۔ حیات طیبہ میں سے، عید کے دن کسی یتیم اور بے سہارا کو اپنی خوشیوں میںشامل کرنے کی یہ ایک ایسی مثال ہے، جس کے پائے کی نیکی ہم شاید نہ کر سکتے ہوں۔ لیکن اگر ہم چاہیں تو کسی غریب کو اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کر کے وہ اطمینان قلب حاصل کر سکتے ہیں جو روح کو خوش کر دیتا ہے۔

عید الفطر کے موقع پر، صدقہء فطر کو ہم پر واجب کر کے ہمیں یہ موقع دیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میںسے ان لوگوں کو عید کے دن کچھ حصہ دیں تا کہ وہ بھی عید کی خوشی کو محسوس کر سکیں۔ صدقہء فطر کیا ہے؟ فطر کا لفظ افطار سے نکلا ہے اور فطر کا تعلق لفظ افطار سے یعنی روزہ افطار کرنے سے ہے۔ صدقہ فطر، اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے ادا کیا جاتا ہے کہ اس نے ہمیں ایک اور رمضان عطا کیا اور ہم نے اس کے تمام روزے صحت اور عافیت کے ساتھ رکھے۔ اس کے علاوہ، صدقہء فطر، ہمارے روزوں اور دیگر عبادات کی بھول چوک کے لیے بطور کفارہ بھی ہوتا ہے۔

صدقہء فطر کا نماز عید سے پہلے ادا کرنا سنت بنوی ﷺ سے ثابت ہے۔ تاہم ماہ رمضان میں، کسی بھی وقت صدقہء فطر ادا کیا جا سکتا ہے تا کہ جسے آپ فطرانہ ادا کر رہے ہیں ، وہ اپنی عید کے لیے بندوبست کرسکے، تاہم نماز عید سے پہلے ادا کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی وجہ سے بھول چوک کی وجہ سے دیر ہو جائے تو یاد آنے پر ، جتنا جلدی ہو سکے ، ادا کر دیں۔  ہر صاحب نصاب سربراہ پر اپنے اور اپنے زیر کفالت گھر کے ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ فطرانہ ادا کرنا لازم ہے، حتی کہ اگر آپ کے ہاں عید سے ایک دن پہلے یا عید کی نماز سے قبل کسی بچے کی ولادت ہو تو اس کے لیے بھی صدقہء فطر دینا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے بھی اسی طرح شرح مقرر ہے جس طرح کہ زکوۃ کے لیے ہے مگر اس کی شرح مختلف ہے۔

آپ کے ہاں سال بھر میں جو خوراک عموماً کھائی جاتی ہے، مثلا گندم، باجرہ، چاول ، جو، کھجور، کشمش یا پنیر، ان سب کی سوا دو کلو کی مقدار یا اس کے برابر کی رقم ادا کرنا۔ پھر یہی نہیں کہ آپ نے کسی بھی جنس کا انتخاب کیا ، خود کے لیے خریدتے وقت تو آپ بہترین کوالٹی اور مہنگی ترین خریدیں اور اس کی گھٹیا، ہلکی اور کم سے کم قیمت والی کوالٹی کو بنیاد بنا کر اپنے فطرانے کی شرح بنا لی۔ اگر آپ اپنے لیے مال اچھی کوالٹی کے لیتے ہیں مگر جب بات فطرانے کی آئے تو آپ انھی اجناس کی سستی ترین کوالٹی کو بنیاد بنائیں تو جب اللہ تعالی آپ کو سستی ترین اور ہلکی کوالٹی کی چیزیں دیں تو آپ کتنے گلے شکوے کرتے ہیں!! کالم کے آغاز میں، میں نے حیات طیبہ کا جو واقعہ بیان کیا ہے، اس میں دیکھیں کہ کس طرح آنحضور ﷺ نے ایک بچے کو اپنی عید کی خوشیوں میں شامل کیا، ایسے واقعات ہمارے لیے بطور مثال ہی ہیں کہ ہم انھیں اپنی زندگیوں کے لیے مانند چراغ راہ سمجھیں اور ان کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں۔ اگر ہم بالکل ایسا عمل نہیں کر سکتے تو بھی ایسا کریں کہ جو اس عمل کے قریب تر ہو۔

آپکو خود علم ہے کہ آپ کی مالی حیثیت کیا ہے، آپ کس حد تک اپنے مال میں سے قربان کر کے ، دوسروں کی عید کی خوشیوں کو بڑھا کر انھیں اچھی عید کا انعام دے سکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں کل چار افراد ہیں اور آپ چاول، کھجور یا کشمش کی قیمت کو بنیاد بنا کر فطرانہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو آپ سوا دوکلو ( نصاب ) کو چار سے ضرب دیں گے یعنی نو کلو چاول، کھجور یا کشمش کی قیمت کے برابر کی رقم کو آپ بطور فطرانہ ادا کریں گے۔

زکوۃ کی رقم آپ کہیں بھی ادا کر سکتے ہیں، اپنے شہر یا کسی اور شہر میں مگر فطرانہ کی ادائیگی کے لیے افضل وبہتر ہے کہ اپنے شہر، قریبی علاقے یا قریبی تعلق والوں میں ادا کیا جائے، آپ کا خاندان، ہمسائے یا آپ کے قریب رہنے والے غریب لوگ۔ فطرانہ آپ نقد کی شکل میں بھی دے سکتے ہیں اور جو شرح آپ پر مقرر ہوئی ہے، اس قیمت کا راشن بھی۔ بہتر ہے کہ نقد دے دیںتا کہ جسے آپ فطرانہ دے رہے ہیں وہ خود ہی فیصلہ کر لے کہ اس کے لیے اس رقم کا بہتر مصرف کیا ہے ۔ ( چونکہ عبادات سے منسلک مسائل انتہائی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے ان پر رائے دینے میں اگر کسی غلطی کا احتمال ہو جائے تو اس کے لیے نہ صرف اللہ تعالی سے بلکہ صاحب علم لوگوں سے بھی معذرت۔ میں صرف رائے دے رہی ہوں اور تجویز کر رہی ہوں ، نہ کوئی فتوی دے رہی ہوں اور نہ ہی احکام الہیہ سے کسی قسم کا اختلافی بیان)

کوئی بھی زکوۃ، صدقات و خیرات ہوں، چونکہ ان کے دینے کا مقصد اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے اس میں بہتر سے بہتر دینے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اگر چہ آپ کے گھر میں سارا سال اہم ترین خوراک گندم یا چاول ہی استعمال ہوتے ہیں اور کشمش آپ صرف میٹھے میں ڈالتے ہیں، جو کا کبھی کبھار دلیہ لیتے ہیں، کھجور صرف رمضان میں لیتے ہیں اور پنیر صرف پیزاء پر ڈالتے ہیں مگر آپ اتنے صاحب حیثیت ہیں کہ گندم کی بجائے مہنگی ترین جنس کو گھرکے ہر فرد کی طرف سے بطور فطرانہ دے سکتے ہیں تو اس سے بہتر عمل اور کیا ہو گا۔

کم از کم بھی فطرانہ اگر چہ سوا دو کلو گندم کی قیمت ہے مگر سوچیں کہ آپ کی دی گئی سوا دوکلو گندم کی قیمت سے کیا کوئی ایک فرد، عید کے دن دو وقت کی روٹی کھا سکتا ہے؟ اگر یہ سوچیں کہ ہماری دی گئی رقم سے کوئی شخص اسی طرح کی دو وقت کی روٹی کھا لے جس طرح کی ہم عید کے دن کھا رہے ہوں تو اس کے لیے کیا حد ہو سکتی ہے؟؟ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ حد ، کم از کم کے لیے ہے، زیادہ سے زیادہ کی تو کوئی حد نہیں ہے۔

محبت اور خوشی کا اصول ہے کہ اسے آپ جتنا اپنے پاس سے دوسروں کو دیتے ہیں، اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے- اس کے بدلے میں نہ صرف انھی لوگوں سے بلکہ جانے کہاں کہاں سے آپ کو ان کے خزانے ملتے ہیں – اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی ہم دیتے ہیں اس میں اضافے کی کوئی حد نہیں ، اپنے لیے دئے گئے کو وہ دس گنا یا جانے کتنے گنا کر کے ہمیں لوٹانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کی راہ میں ہم ایک قدم بڑھائیں تو وہ ہمیں تھام لیتا ہے۔ اس کے بندوں سے پیار کریں، ان کے دکھ درد کو بانٹیں ، ان کی ضروریات پوری کریں اور انھیں خوش کرنے کی کوشش کریں تو وہ اللہ تعالی کی نظر میں احسن ترین عمل ہے اور اس کا اجر اس کے ہاں بہت زیادہ ہے۔ اپنی خوشی تو ہمیں خوش کرتی ہی ہے، دوسرے کی خوشی کو محسوس کر کے دیکھیں۔ بالخصوص اگر اس خوشی کا باعث آپ یا آپ کا کوئی نیک اقدام ہو۔ آپ سب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔ صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھر پر رہ کر عید منائیں اور محفوظ رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔